مذاہب میں عبادت کے دن:
اﷲ جل شانہ نے قوم یہود کو عبادت کا دن مقرر کرنے کا کہا تو انہوں نے اپنی طرف سے ہفتہ کا دن مقرر کیا۔ نصاریٰ سے انتخاب کا کہا گیا تو انہوں نے اتوار کے دن کا انتخاب کیا جبکہ اﷲ شانہ کی منشاء ان کی سوچوں کے برعکس جمعہ کے دن عبادت کا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ تم نے ان دنوں کا انتخاب کرلیا لیکن میری منشا یہ تھی کہ یہ جمعہ کے دن کا انتخاب کیا جاتا۔ لیکن تم نے جمعہ کے دن کا انتخاب نہیں کیا اس لیے میں نے یہ دن اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺکو عطا کیا ہے۔ گویا یہ دن اﷲ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ عبادت کے دن کے انتخاب میں یہودیوں نے بھی خطا کی ، عیسائیوں نے بھی خطاء کی۔ اﷲ نے پھر خود ہماری یہ عزت افزائی فرمائی اور ہمیں عزت بخشی کہ اﷲ جل شانہ نے یہ دن ہمیں عطا کردیا۔ تو یہ جمعہ کا دن میرے دوستو! کتنا عظیم دن ہوگا کہ اﷲ خود چاہ رہے تھے کہ اس کو عبادت کے لیے مقرر کیا جائے۔ اس دن کا انتخاب کیا جائے۔
عبرت انگیز واقعہ:
مجھے ایک بات یاد آئی وہ میں عرض کردوں۔ ایک دفعہ اسرائیل کے مذاکرات ہورہے تھے مسلمانوں کے ساتھ صلح کے طور پر کہ آپس میں صلح کی جائے لڑائی بند کی جائے تو فلسطین کے جو لوگ تھے ان کے مذاکرات ہورہے تھے اسرائیل سے۔ اسرائیل یہودیوں کا ناجائز ملک ہے اور فلسطینی مسلمان ہیں۔ اب یہ مذاکرات جب ہورہے تھے تو اس میں بڑے بڑے عرب ممالک بھی شریک اور دوسرے لوگ بھی شریک اور اﷲ کی عجیب قدرت وہ دن جمعہ کا دن تھا ۔ مذاکرات میں سب لوگ جمع ہوئے، یہودی بھی جمع ہوگئے، مسلمان بھی آئے، سب لوگ آئے مذاکرات میں۔ جو مسلمان تھا، فلسطین کا، اس نے کھڑے ہوکر ایک تقریر کی اور تقریر اس نے یہ کی کہ لوگو! آج کا دن جمعہ کا دن ہے اور یہ دن مسلمانوں کے ہاں بڑی عزت کا دن ہے اور مسلمان اس دن کا بڑا خیال کرتے ہیں، اپنی عبادت کے لیے اس دن کو مقرر کرتے ہیں اور جمعہ کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن دنیا کا امن ہمیں اتنا عزیز ہے اور اتنا پیارا ہے دنیا کا امن کہ ہم جمعہ کے دن جمعہ چھوڑ کر مذاکرات میں شریک ہوگئے تاکہ دنیا میں امن قائم ہوجائے اور دنیا امن والی بن جائے۔ اس لیے ہم یہاں جمع ہوگئے جمعہ کے دن۔ یہ اس نے تقریر کی۔ لوگوں نے واہ واہ کی۔ بہت اچھا۔ اس کے بعد کہتے ہیں یہودی جو تھا اسرائیل کا، وہ کھڑا ہوگیا تقریر کرنے کے لیے۔ اب اس نے جو تقریر کی ہے تو وہ تقریر ہمارے منہ پر ایک زبردست طمانچہ بنی۔ اس نے یہ کہا، کہنے لگا کہ:
مسلمانوں کا آج یہ عبادت کا دن ہے، مسلمان عبادت چھوڑ کر یہاں آئے ہیں، کل ہفتہ کا دن ہے، ہماری عبادت کا دن ہے۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کل ہم مذاکرات نہیں کریں گے، عبادت کریں گے۔ یعنی اس نے یہ صاف اعلان کیا کہ ہفتہ کا دن ہماری عبادت کا دن ہے، ہم اپنی عبادت نہیں چھوڑ سکتے مذاکرات کی خاطر، ہم عبادت کریں گے، ہفتہ کے دن مذاکرات نہیں کریں گے۔ یہ اب اندازہ لگایا جائے کہ مسلمان کی سوچ بھی دیکھیے اور یہودی کی سوچ بھی دیکھیے۔ اس کی سوچ کہاں پہنچتی ہے اور مسلمان کی سوچ کہاں جاتی ہے۔ وہ اپنے اس دن کا احترام کرتا ہے اور ہم کتنی اس کی بے احترامی کرتے ہیں۔
قوم یہود کی آزمائش:
تو علماء نے یہ لکھا ہے کہ اﷲجل شانہنے ہماری آزمائش بھی اس دن کی ہے اور دنیا کو یہ دکھلانے کے لیے کہ کون لوگ میری ماننے والے ہیں اور کون لوگ میری ماننے والے نہیں ہیں، اﷲ نے اس میں ہماری آزمائش رکھ دی۔ کیونکہ اﷲ پہلے آزما چکے تھے ہفتہ کے دن کے بارے میں یہود کو۔ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ہم ہفتہ کے دن عبادت کریں گے۔ اﷲ نے کہا کہ تم نے خود اپنے لیے عبادت کے لیے ہفتہ کا دن مقرر کیا ہے، اب میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اب تم اس دن کی لاج رکھنا اور اس دن تم شکار مت کرنا۔ شکار اﷲ نے تمہارے لیے حرام کردیا۔ لیکن وہ قوم فاسق تھی، اﷲ کی نافرمانی کرتی تھی، نام لیتی تھی اﷲ کا لیکن اﷲ کی نافرمان تھی۔
اﷲ کی آزمائش عجیب ہوتی ہے، میرے دوستو! اﷲ کی آزمائش سے پناہ مانگا کریں۔ اﷲ کی آزمائش کیا ہوگی؟ اﷲ نے دنیا کو دکھلانے کے لیے کہ یہ دعوے اوپر سے کرتے ہیں حقیقت ان کے اندر نہیں، اﷲ نے حکم دیا کہ اے مچھلیو! تم یہ کرنا کہ ہفتہ کے دن ان کے پاس آنا باقی دن آنا ہی نہیں۔ ہفتہ کے دن آکر خوب ان کو دکھانا۔ ان کے دریاؤں میں، سمندروں میں خوب چھلانگیں لگانا۔ ان کے کناروں کے آگے چھلانگیں لگانا، لیکن ہمارا حکم ہے کہ شکار نہیں کرنا، اس لیے دیکھیں کہ کتنا یہ میرا حکم مانتے ہیں، بس دعوے ہی دعوے ہیں یا حقیقت ہے!!!
اس لیے اﷲ نے مچھلیوں کو حکم دے دیا۔ اب مچھلی تو اﷲ کے حکم کی پابند ہے۔ اﷲ نے خود قرآن پاک میں فرمایا ہے۔
(إذ یعدون فی السبت إذ تأتیھم حیتانھم یوم سبتھم شرّعا و یوم لا یسبتون لا تاتیھم )
’’جس دن ہفتہ کا دن ہوتا تو خوب مچھلیاں آتیں اور کھلم کھلا اوپر تیر رہی ہوتیں اور جس دن ہفتہ نہ ہوتا اس دن نظر ہی نہ آتیں۔
یعنی چھ (6 ) دن غائب اور ایک دن نظر آتیں۔ یہ کتنی بڑی آزمائش ہے۔ کہ چھ دن چیز نہ ملے اور جس دن ملے اس دن بھی اﷲ کا حکم ہو کہ خبردار پکڑنا نہیں ان کو پکڑو گے تو اﷲ کے حکم کے نافرمان بن جاؤ گے اور ایک ہفتہ صبر، دو ہفتے صبر، تین ہفتے صبر، اب جب دیکھا کہ یہ تو معاملہ بڑا ہی گڑ بڑ ہوگیا، اب کتنے دن صبر کریں گے۔
یہود کی حیلہ جوئی:
اب یہ سوچنے لگے کہ کوئی تدبیر کی جائے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جس طرح ہم ابھی مسلمان ہیں اسی طرح یہودی بھی مسلمان تھے ۔بلکہ یہ کہ آج کا مسلمان تو کھلم کھلا سود کو حلال قرار دیتا ہےکھلم کھلا ہر چیز کو وہ یہ کہتا ہے کہ یہ جائز ہےلیکن وہ اتنا اﷲ سے ڈرتے تھے، کہتے تھے کہ اﷲ کے حکم کی نافرمانی ہم نے نہیں کرنی۔ اس لیے کوئی حیلہ تلاش کرو تاکہ اﷲ کا حکم بھی پورا ہوجائے اور ہمارا کام بھی بن جائے۔ اب یہ حیلے تلاش کرنے لگے کہ بھئی حیلہ کیا جائے تو کہتے ہیں کہ شیطان ان کے پاس آیا اور شیطان نے آکر کہا کہ جی اس میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ میں تمہیں ایک حیلہ بتلاتا ہوں وہ دریا ہے نا جہاں تمہاری مچھلیاں ہوتی ہیں وہاں سے ایک نالی کھودو اور کھود کر ایک گڑھا بنا لو۔ اس گڑھے میں پانی چھوڑ دیا کرو۔ ہفتہ کے دن اس کا بند کھول دیا کرو دریا کا، اب وہ ساری مچھلیاں خود بخود ادھر آجائیں گی ہفتہ کے دن پھر اس نالی کو بند کردینا اور اتوار کو پکڑ لینا تو یہ اﷲ کا حکم بھی پورا ہوگیا اور تمہارا کام بھی بن گیا۔
یعنی کیا حیلہ سکھلایا شیطان نے کہ دونوں ہی کام کرو۔ اب انہوں نے گڑھے کھود لیے۔ کھود کھود کر دریا کے کنارے سے پانی لائے اور بڑے بڑے گڑھے تھے، پانی اس میں ہفتہ کے دن آتا مچھلیاں بھی آجاتیں۔ اب ہفتہ کی شام کو بند کردیتے وہ بند۔ تاکہ باہر دوبارہ دریا میں نہ چلی جائیں اور پھر اگلا دن جب آتا اتوار کا تو سب پکڑ کر کھاتے۔ او جی! اﷲ کا حکم تو نہیں توڑا ہم نے۔ ہم نے تو اﷲ کا حکم پورا کردیا۔ اﷲ کے حکم پر ہم پورا پورا عمل کر رہے ہیں۔ تو وہ اس پر بڑا خوش ہوتے تھے۔
تین طبقات:
لیکن جو لوگ عقلمند تھے سمجھدار تھے، علماء تھے اس وقت کے، انہوں نے کہا ایسا نہ کرو، اﷲ کے حکم کا مذاق نہیں کرو۔ صرف اﷲ کا حکم توڑنا نہیں بلکہ یہ اﷲ کے حکم کا مذاق بھی اڑانا ہے۔ اس لیے خبردار ایسا نہ کرو۔ اﷲ کا عذاب تم پر نہ آجائے اﷲ کی پکڑ نہ آجائے۔
اب تین (3) طبقے بن گئے، اﷲ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ 3 طبقے بن گئے:
ایک طبقہ تو روکتا تھا کہ جی شکار نہ کرو اور یہ حرکت جو کر رہے ہو تو تم ہفتہ کے دن یہ حرکت نہ کرو۔ یہ تمہیں لے ڈوبے گی۔
دوسرا کہتا تھا کہ جی ہم تو سمجھا چکے جی اب خاموش تھے کہ ہمیں کیا۔ جو کر رہے ہیں مارے جائیں گے، ہم نے ان کو روک دیا بس۔ اب بار بار کون ان کو روکے گا۔
اور تیسرے یہ خود کرنے والے تھے۔
اﷲ جل شانہ نے اپنے قرآن پاک میں یہ ارشاد فرمایا کہ جو شکار کرنے والے تھے ہم نے سب کو بندر اور خنزیر بنا دیا۔
یہ جتنا حیلہ سے شکار کر رہے تھے اور حیلہ سے شکار کرکے گڑھوں میں لا رہے تھے مچھلیوں کو اور اتوار کے دن پکڑتے تھے، لیکن یہ اﷲ کے حکم کا مذاق اڑا رہے تھے اس لیے ہم نے ان کو یہ حکم دیا کہ:
(کونوا قردۃً خاسئین)
’’ذلیل بندر بن جاؤ۔‘‘
لکھا ہے تفاسیر کی کتابوں میں کہ سارے کے سارے خنزیر بن گئے۔ سوائے ان کے جن کا ذکر اﷲ نے کیا ہے کہ جنہوں نے روکا تھا، اﷲ نے ان کو بچا لیا، اور لیکن جو خاموش رہے ان کے بارے میں قرآن کچھ ذکر نہیں کرتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ لیکن جنہوں نے روکا تھا ان کو اﷲ نے بچا لیا ان کو اﷲ نے بندر، خنزیر نہیں بنایا باقی سب کو بندر خنزیر بنا لیا۔
میرے دوستو! یہ آزمائش یہودیوں کی تھی۔
مسلمانوں کی حالت زار:
اب ذرا ہم اپنی طرف نظریں دوڑائیں۔ ہم مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
(یا أیھا الذین اٰمنوا إذا نودِیَ للصلاۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکراﷲ وذروا البیع) (سورہ جمعہ ، پارہ 28 )
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن تمہیں اعلان کیا جائے، آواز دی جائے اور اذان دی جائے کہ اﷲ کی طرف آجاؤ تو اﷲ کے ذکر کی طرف آجایا کرو اورخرید و فروخت کو چھوڑ دیا کرو۔‘‘
(فاسعوا إلی ذکر اﷲ وذروا البیع) ’’وذروا البیع‘‘ کا ترجمہ اردو میں یہ ہے کہ ’’خرید و فروخت نہ کرو‘‘۔ (ذالکم خیرلکم إن کنتم تعلمون)یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
اﷲ نے ہماری یہ آزمائش کی ہے کہ جمعہ
کی پہلی اذان کے بعد اگر ہم خرید و فروخت کریں گے تو ہم یہودیوں کے نقش و قدم پر چلنے والے ہوں گے۔ اس لیے علماء کہتے ہیں کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدو فروخت کرنے والا، جس طرح یہودیوں کے ہفتہ کے بارے میں اﷲ کا حکم توڑا تھا، اسی طرح یہ اﷲ کا حکم توڑ رہا ہے۔ جب اﷲ نے ان کو بندر اور خنزیر بنا دیاتو اﷲ ان کو بھی بندر اور خنزیر بنا سکتے ہیں، اﷲ کا فیصلہ یہی ہے، لیکن اﷲ کے نبی ﷺکی دعا پہرا دے رہی ہے۔ اﷲ کے نبیﷺنے فرما دیا کہ اے اﷲ میری امت کی شکلیں بدلنا نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ باطنی طور پر انسان بندر خنزیر بن جاتا ہے۔ اب ظاہری شکل تو انسان والی نظر آئے ہمیں۔ ظاہری تو ہمیں انسانوں والی شکل نظر آئے گی۔ لیکن باطنی طور پر وہ بندر اور خنزیر بن جائے گا۔ اس لیے بعض اﷲ والوں نے اپنے مکاشفات نقل کیے ہیں بعض اﷲ والوں نے یہ مکاشفات، مکاشفات جو ہوتے ہیں، اب ہمارے لیے شرعی حجت نہیں، مکاشفات اﷲ والوں کے۔ لیکن اس سے ایک حقیقت ضرور معلوم ہوجاتی ہے۔
بازار والے بندر اور خنزیر:
غالباً شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے بارے میں لکھا ہے، یا کوئی اور بزرگ تھے، وہ بازار نہیں جاتے تھے، کسی نے کہا حضرت بازار نہیں جاتے، کہا میں بازار کیسے جاؤں؟ انسانوں کے پاس جایا جاتا ہے، وہاں تو انسان ہیں ہی نہیں۔ کہا یہ بازار میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں سارے انسان ہیں۔ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ انسان تو کوئی ہے نہیں۔ لکھا ہے کتابوں میں کہ حضرت نے اپنی ٹوپی اتاری اور اس آدمی کے سر پر رکھ دی اور جب سر پر رکھی تو وہ تو وہ آدمی کہتا ہے وہ لکھتا ہے کہ جب تک وہ ٹوپی میرے سر پر رکھی رہی مجھے بندر اور خنزیر زیادہ نظر آتے، انسان کوئی کوئی نظر آتا تھا۔ یعنی ہر چلتا پھرتا بندر یا خنزیر نظر آتا انسان نظر نہیں آرہے ہیں۔
میرے دوستو! اس سے کیا معلوم ہوا؟ معلوم یہ ہوا کہ آدمی باطن سے بعض دفعہ بدل جاتا ہے، اس کا باطن مسخ ہوجاتا ہے۔ لیکن ظاہری شکل اس کی انسان جیسی رہتی ہے۔ اس لیے اﷲ ہمیں بچائے، اﷲ ہمیں محفوظ فرمائے، میرے دوستو! اس کاروباری سلسلے میں جو مسائل ہیں نا کاروباری، ان کو سیکھنا خاص طور پر جمعہ کی اذان کے بعد اس کو بند کرنا یہ ہمارے اپنے فائدے کی چیز ہے۔ شریعت کا حکم تو اپنی جگہ ہے۔ شریعت کا حکم جو ہے وہ اپنی جگہ لازم ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ لیکن اصل فائدہ ہمارا یہ ہے کہ ہم بندر اور خنزیر بننے سے بچ جائیں گے۔ اﷲ ہم پر فضل فرما دیں گے، اﷲ ہم پر رحم فرما دیں گے۔
اذان اول، وعظ کے بعد کرنے کی وجہ:
اس لیے الحمدﷲ یہاں طریقہ یہی رکھا ہے کہ پہلی اذان بیان کے بعد ہوتی ہے۔ صرف اس لیے کہ تاکہ کم از کم اپنے طور پر یہ کوشش کریں کہ کوئی آدمی گناہ نہ کرے۔ ورنہ اگر پہلی ہی اذان دے دی جائے اور پھر بیان شروع ہو، اب دکان پر بیٹھے ہیں دکان کھلی ہوئی ہے، خریدو فروخت کر رہے ہیں، اذان دوسری ہوگی تو چلے جائیں گے۔ لیکن میرے دوستو! اﷲ کا وبال پڑ رہا ہے، ایک ایک لمحہ اﷲ کا وبال آرہا ہے۔ اﷲ کی طرف سے ایک ایک لمحہ لعنت برس رہی ہے۔ اس لیے اپنے طور پر بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اجی پہلی اذان دیر سے دی جائے تاکہ مسلمان کم از کم اﷲ کی نافرمانی سے بچیں اور پھر بھی کوئی جہنم میں گرنا چاہے تو گرتا رہے۔ اب یہ ہے کہ اگر پہلی اذان ہوئی اس کے بعد جمعہ کا وقت 20 منٹ، 25 منٹ ہوگا نماز کا اور نماز کے بعد اﷲ نے اجازت دے دی:
نماز جمعہ کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت:
(وإذا اقضیت الصلٰوۃ فانتشروا فی الأرض و ابتغوا من فضل اﷲ)
(سورہ الجمعۃ، آیت 10 پارہ 28)
’’لوگو! جب نماز پوری کر لی جائے پھر زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا رزق تلاش کرو۔‘‘
تو یہ اﷲ نے خود اجازت دے دی ہمیں اﷲ نے خود بتلا دیا کہ نماز پوری ہونے کے بعد ہم تمہیں نہیں روکتے۔ اس لیے ہم پہلی اذان دیر سے اس لیے دیں گے تاکہ ہم 20 منٹ کے لیے یا 25 منٹ کے لیے اپنا کاروبار بند کریں اس میں ہمارے لیے کونسی مشکل ہے۔ کیا اﷲ کے دین کے لیے اتنی قربانی نہیں دی جا سکتی!!!
اﷲ ہمیں توفیق دے ہم کم از کم اﷲ کے حکموں کو پورا کرنے والے بن جائیں۔ میرے دوستو! یہ قرآن پاک کے احکام ہیں۔ آج معاذ اﷲ لوگ احادیث کا بھی انکار کردیتے ہیں لیکن قرآن کو تو ہر مسلمان مانتا ہے۔ یہ قرآن کے احکام بتلا رہا ہوں، حدیث کے احکام نہیں بتلا رہا۔ اﷲ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہم سب کو اﷲ اپنے احکام پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس لیے میرے دوستو! کوشش کیجیے کہ اپنے دینی معاملات کو سمجھیے! اپنے کاروباری معاملات کو دین کے بارے میں، جو ضروری معلومات ہیں، اﷲ کے نبی ﷺنے جو ارشاد فرمائی ہیں ان کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور کیا حلال کیا حرام ہے، کب کاروبار جائز کب جائز نہیں ہے یہ ساری باتیں سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ اﷲ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اﷲ ہم سب کی کمی کوتاہیوں کو معاف فرما کر ہمیں پورا پورا دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اﷲ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔
Load/Hide Comments