مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان

اتحاد، ایک عظیم طاقت ہے
گروہ بندی کے نقصانات:
’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ یہ ایک پرانی کہاوت ہے۔ جنگی امور کے ماہرین اسے ایک کاری ہتھیار گردانتے ہیں۔ اور واقعی! یہ ہے بھی ایک مہلک ہتھیار!!! عموماً جنگ کے دوران اگر آپ مخالف فوجوں کے اندر بغاوت اورپھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ آپ کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی شمار ہوتی ہے۔ اس سے آپ کے لیے فتح و کامرانی کی راہیں استوار ہوجاتی ہیں۔
لڑائی اور گروہ بندی چاہے کسی بھی سطح کی ہو کبھی مفید نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ایک فوج میں دھڑے بندی اس فوج کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح میاں بیوی کے رشتے میں، خاندانی تعلقات میں اور کسی قوم قبیلے اور برادری میں انتشار بھی کمزوروی اور نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی اقوام اور ادارے باہمی نزاعات اور گروپ بندی سے ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہوئے۔
باہمی گروہ بندی سے جہاں آپ کی اجتماعی قوت، انحطاط اور کمزوری کا شکار ہوتی ہے وہاں دشمن قوتوں اور آپ کے بدخواہوں کے لیے یہ خوشی اور فرحت و سرور کا سامان ہوتی ہے۔ یقینا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کے دشمن آپ پر ہنسیں اور آپ کی کمزوری اور بدحالی پر خوشیوں کے شادیانے بجائیں!!!
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ چند ایک لوگوں کی رنجشیں عوام کے دو بڑے طبقات کی پریشانی حالی اور تکلیف و اذیت کا سبب بن جاتی ہیں۔ اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے بعض اوقات ایسی صورت حال بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ گروہ در گروہ اور جماعت در جماعت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ فرقہ بندی کا بدترین دور ہوتا ہے۔ ایسے ہی وقت میں بدامنی ، لوٹ کھسوٹ، لاقانونیت، قتل و غارت گری اور کئی دوسری معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں اور یوں معاشرہ جہنم نظیر بن جاتا ہے۔
اﷲ J قرآن کریم میں زمانہ جاہلیت کی منظر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور اﷲ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اﷲ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اﷲ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔‘‘
(آل عمران: ۱۰۳، پارہ ۴)
اتفاق و اتحاد کے فوائد:
اس کے برعکس اتحاد و اتفاق ایک نعمت ہے۔ اﷲ جل شانہ نے قرآن کریم میں اسے ’’نعمت اﷲ‘‘ اﷲ کی خصوصی نعمت قرار دیا ہے۔ اتحاد آپ کی شان و شوکت اور عزت و قار میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ آپ کی قوت و بالادستی کا باعث ہے۔آپس میں اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ہمدردی، اخوت اور محبت پیدا ہوتی ہے اور ہمت و حوصلہ بھی بڑھتا ہے۔
 کامیابیاں انہیں لوگوں کے قدم چومتی ہیں جو مل جل کر اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ جنگوں اور مشکل حالات میں اتحاد و اتفاق آپ کے لیے ایک مضبوط سہارا اور طاقتور ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دشمن عناصر بھی متحدہ قوتوں پر حملہ کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے تو اتحاد ایک لازمی عنصر ہے۔ کیونکہ مسلم امہ کے لیے اﷲ J نے ضابطہ ہی یہ مقرر کردیا ہے کہ غیبی مدد و نصرت اسی وقت آئے گی جب اتحاد و اتفاق اور مرکزیت کے رشتے قائم رہیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
 (انفال: ۴۶ پارہ ۱۰)
دوسرے موقع پر ارشاد ہے:
’’اور اﷲ نے یقینا اپنا وعدہ پورا کردیا تھا جب تم دشمنوں کو اسی کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور حکم کے بارے میں باہم اختلاف کیا اور جب اﷲ تعالیٰ نے تمہاری پسندیدہ چیز تمہیں دکھائی تو تم نے اپنے امیر کا کہنا نہ مانا… تو پھر اﷲ تعالیٰ نے دشمنوں سے تمہارا رخ پھیر دیا۔‘‘
(آل عمران: ۱۰۲ پارہ ۴)
بقول اقبال مرحوم کے     ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر یں
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دو واقعات:
اس موقع پر میں دوستوں کے سامنے دو واقعات پیش کرنے جارہا ہوں جو ہیں تو بچکانہ سے! لیکن ان میں عقل مندوں کے لیے بڑا سامان عبرت موجود ہے۔
1…    ایک باپ کے چار بیٹے تھے۔ چاروں ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ باپ ایک بار کافی بیمار ہوا۔ اس نے سوچا میری بیماری کے موقع پر یہ سب میری خدمت کر رہے ہیں سب کا میرے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے؟ باپ نے ایک ترکیب سوچی جب چاروں بیٹے آگئے تو باپ نے ان سب کو جنگل سے دو دو لکڑیاں لانے کا کہا۔ چاروں بیٹے جنگل گئے اور لکڑیاں جمع کرکے لے آئے۔ باپ نے ہر ایک کو باری باری ایک ایک لکڑی دی اور اسے توڑنے کا کہا۔ سب حیران تھے کہ والد صاحب آج ہم سے یہ کیسا کام کروارہے ہیں۔ لکڑیاں جمع کرکے لانے کا کہا اور اب انہیں توڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ لیکن باپ کے حکم کی تعمیل میں سب باری باری ایک ایک لکڑی توڑ دیتے ہیں۔ پھر باپ نے بقیہ چار لکڑیوں کا گٹھرا بنا کر اسے توڑنے کا کہا۔ باری باری سب نے گٹھرا توڑنے کی کوشش کی لیکن کسی سے نہ ٹوٹا۔ باپ نے پھر سب کو سمجھایا کہ ’’دیکھو تم ایک باپ کی اولاد ہو۔ تمہیں آپس میں لڑتا دیکھ کر میرا دل بہت اداس ہوتا ہے۔ تم اسی طرح الگ الگ رہے تو کوئی بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور تمہیں ختم کر سکتا ہے۔ لیکن مل جل کر رہے تو ان جمع شدہ لکڑیوں کی طرح دنیا کی کوئی طاقت تمہیں ختم نہیں کرسکتی۔‘‘
2…    ایک جنگل میں تین گائے مل جل کر ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھیں۔ ایک گائے سفید تھی، ایک پیلی تھی اور ایک کالی۔ جنگل کا بادشاہ شیر، ان کے اتحاد کو ختم کرنے کی ترکیبیں سوچا کرتا تھا تاکہ ان پر حملہ کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکے۔ ایک دن ایک ترکیب اس کے دماغ میں سوجھی۔ وہ پہلے سفید اور پیلی گائے کے پاس گیا اور بھڑکایا کہ تم دونوں کتنی خوبصورت ہو، کالی گائے تمہارے جوڑ کی نہیں ہے۔ وہ تمہارے لیے داغ ہے۔ تم اسے اپنے اتحاد سے الگ کردو تو کیا خوب بات ہو! دونوں گائے اس کی باتوں میں آگئیں اور کالی گائے کو اپنے سے الگ کردیا۔ جب شیر نے کالی گائے کو علیحدہ دیکھا تو موقع پا کر اس پر حملہ کردیا اور بآسانی اسے ہضم کر لیا۔ کچھ دنوں بعد شیر سفید گائے کے پاس گیا اور اسے بہکایا کہ تم گوری ہو ، بہت خوبصورت ہو، پیلی گائے تمہارے جوڑ کی نہیں اسے اپنے سے علیحدہ کرنا مناسب رہے گا! سفید گائے اس کے بہکاوے میں آگئی اور پیلی گائے کو اپنے سے علیحدہ کردیا۔ چنانچہ شیر نے موقع پا کر اسے بھی ہڑپ کر لیا۔ اب تنہا سفید گائے بچی تو شیر نے اسے کہا: اب تمہارا کوئی نہیں رہا چلو میں ہی تمہارے پاس آجاتا ہوں اور اسی طرح اسے بھی ختم کردیا۔ اس طرح دشمن کی سازش اور اپنی نادانی و حماقت سے وہ اپنا وجود ختم کربیٹھیں۔
تین تاریخی تجربے:
اتحاد کی برکت اور گروپ بندی کی نحوست کا اندازہ تاریخ کے اوراق میں موجود ان تین عظیم واقعات و تجربات سے بھی لگایا جا سکتا ہے:
1… عرب جاہلیت اور اسلام:
طلوع اسلام سے پہلے عرب مختلف قبیلوں اور نسلی عصبیتوںمیں تقسیم تھے۔ عرب جنگجو اور بہادر تھے لیکن ان کی کوئی حکومت اور بڑی پہچان نہ تھی۔ شاہ عرب، نبی اسلام w نے ان تمام عرب جتھوں کو ایک منظم اور متحد قوم کی لڑی میں پرودیا۔ آپw نے نسلی اور قبائلی عصبیتوں کو ختم کرکے ایک نظریے پر ان سب کو جمع کردیا۔ جس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے کہ کچھ ہی عرصے میں عربوں کے اسلامی انقلاب نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ روم و فارس کے محلات مسلمانوں کے زیر نگین آگئے۔ وقت کی دو سپرطاقتوں کا غرور خاک میں مل گیا اور اسلامی طاقت، دنیا کی سپر طاقت بن گئی۔
2…منگولوں کی فتوحات کا راز:
چنگیز خان جس کے نام سے دنیا کانپتی ہے۔ یہ ایک منگول قبیلے کا فرد تھا۔ منگول اس وقت مختلف قبیلوں اور نسلی امتیازات میں تقسیم تھے لیکن ہر قبیلہ جنگجو اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھا۔ آپس کی جنگوں اور قبائلی تنازعات میں گھرے رہنے والے منگولوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ وہ صحراؤں میں رہنے والے مخصوص خطے میں صدیوں سے آباد قوم تھی۔ چنگیز خان اس قوم کا راہ نما ثابت ہوا۔ اس نے منتشر قبائلی طاقتوں کو منظم کیا۔ ہوا اس کے موافق تھی۔ اس کی قسمت کا ستارہ بلند تھا۔ اس نے دنیا فتح کرنے کی ٹھانی اور اپنے قومی اتحاد کے بل بوتے پر دنیا میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے۔
3… یہودی طاقت کا سرچشمہ:
قوم یہود ہزاروں سال سے افراتفری کا شکار رہی ہے۔ یہود کے بارہ قبائل تھے لیکن چند ایک کے علاوہ تمام قبائل اپنی پہچان اور شناخت ختم کر چکے ہیں۔ مختلف زمانوں میں ان کی بداعمالیوں اور سنگین جرائم کی پاداش میں بہت برے طریقے سے انہیں تہس نہس اور منتشر کیا گیا۔ صدیوں سے ان کی ایک مملکت بھی قائم نہ ہوسکی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود یہود کبھی متحد نہ ہوئے۔ کاروباری مصروفیات اور مال کی حرص میں وہ اس حد تک آگے چلے گئے کہ اپنا مذہب، اپنا خاندان، اپنا امتیاز غرض ہر چیز سے وہ خواب غفلت میں رہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں ان کو کچھ ہوش آیا۔ انہوں نے اپنی منتشر طاقت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ ان کے بلند دماغوں نے ایسی پالیسیاں وضع کیں کہ آج غاصبانہ طریقے سے ہی سہی، ان کی ایک مملکت قائم ہے۔ ان کی منتشر طاقتیں بتدریج جمع ہورہی ہیں۔ پورے دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل میں آباد کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور دنیا کی طاقتیں یہودیوں کے اثر و رسوخ اور ان کی دولت کی طاقت سے سراسیما نظر آتی ہیں۔
واقعی! اتحاد ایک عظیم طاقت ہے۔ جبکہ تفرقہ بازی ایک زبردست نقصان ہے۔ یہ ایک دیمک ہے جو قوموں کو کھوکھلا اور برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بکریاں جب تک ایک ساتھ چلتی ہیں تو کوئی بھیڑیا ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ کمزور جانور جب مل کر شیر اور
 ہاتھی پر حملہ کرتے ہیں تو شیر اور ہاتھی جیسے طاقتور جانوروں کو بھی ہار ماننا پڑتی ہے۔پھل پھول جب تک شجر سے پیوستہ رہتے ہیں خوب پھلتے پھولتے ہیں، سر سبز و شاداب رہتے ہیں لیکن جب وہ درخت سے جدا ہوجاتے ہیں تو گل سڑ جاتے ہیں اور موسم بہار سے لطف اندوز ہونا ان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ پانی جب تک سمندر میں ہوتا ہے اس کی ایک طاقت ہوتی ہے۔ اس کی طوفانی موجوں سے ہر کوئی ڈرتا ہے لیکن اگر اسی موج کو سمندر سے کاٹ کر الگ ذخیرہ کردیا جائے تو اس کی کوئی حیثیت اور تاثیر نہیں رہتی۔ اسی طریقے سے مسلمان جب تک ایک مذہب اور ایک نظریے کے تحت اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کریں گے، نسلی تعصب ، لسانیت اور پارٹی بندی سے علیحدہ ہوکر باہم جذب نہیں ہوں گے تنزلی، پستی اور انحطاط و زوال ہمارامقدر رہے گی۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، ہم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
 
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
 
فرد قائم، ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں