مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان

نفرتوں کا خاتمہ کیسے؟
چند ممکنہ تدابیر
میری مان لو!
مفتی محمد شفیع صاحب kکے نام سے کون واقف نہیں؟ قیام پاکستان میں ان کی تحریر و تقریر کا بڑا گہرا کردار اور اثر رہا۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کے خصوصی شاگردوں اور خلفاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور دور حاضر کی نابغۂ روزگار شخصیت مفتی محمد تقی عثمانی کے والد ماجد ہیں۔ ان کے حوالے سے حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب نے ایک بہت پیاری بات نقل کی کہ آج کے دور میں جب اتحاد و اتفاق کی باتیں کی جاتی ہیں تو ہر کوئی اس کا حامی اور اس سے متفق نظر آتا ہے۔ لیکن جب اتحاد کی راہ معلوم کی جاتی ہے تو تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے : ’’میں جو کہہ رہا ہوں وہ صحیح کہہ رہا ہوں، میری بات سب مان لیں، اتحاد ہوجائے گا۔‘‘
یعنی ہر کوئی خود رائی اور خود پسندی میں مبتلا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنی سوچ اور نظریے کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ حالانکہ اگر بات اتنی سیدھی سادھی اور آسان ہوتی تو یہ جھگڑے ہوتے ہی نہیں یہ نہ تو مسئلہ کا حل ہے، نہ ہی اس سے اتحاد ممکن ہے!
مثالی اتحاد کی صورت:
اگر مسلمان واقعی آپس کے اندر اتحاد و اتفاق اور مثالی وحدت چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم اور سیرت پاک ﷺ سے روشنی حاصل کرتے ہوئے انہیں خطوط پر چلنا ہوگا جن پر چلتے ہوئے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ریاستِ مدینہ کی تشکیل فرمائی۔ اس کے لیے
٭… سب سے پہلے ہمیں اپنے نظریے کو متحد کرنا ہوگا۔ ہمارا نظریہ صرف اور صرف اسلام ہونا چاہیے۔ ہماری تمام تر محنتوں اور کوششوں کا محور اسلام کی تعلیم و تبلیغ اور اشاعت دین ہونا چاہیے! توحید و رسالت اور قیامت یہ ہمارے مشترکہ اور متفقہ اصول ہونے چاہئیں!
نظریے کے اتحاد کے لیے ہمیں اپنے تمام تر سیاسی اور فرقہ وارانہ نعروں کی یکسر نفی کرنا ہوگی۔ پوری دنیا کے مسلمان صرف اور صرف مذہب کے نام پر متحد ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کسی بھی جھنڈے تلے متحد نہیں ہوسکتے۔ مذہب مسلمانوں کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ مذہب اور مسلمان میں تفریق کسی بھی طریقے سے ممکن نہیں۔ جو کوئی مسلمانوں کو مذہب سے کاٹ کر دوسری راہوں کی طرف بلا رہے ہیں وہ مسلمانوں کی فطرت اور مزاج کے خلاف ایک بے کار اور لایعنی کام کر رہے ہیں۔
اقبال مرحوم نے فرمایا تھا:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، ہم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
٭ … دوسرا مسلمانوں کو ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپنی رائے کو قربان کرنا ہوگا، اپنے اختلافات کو ایک عظیم مقصد کی خاطر پس پشت ڈالنا ہوگا۔ لسانیت، قومیت اور پارٹی بندی کے نعروں کو بھلا کر صرف ایک متحدہ نظریے اور ایک بلند مقصد کی خاطر سب کو ایک کشتی کا سوار بننا ہوگا۔
ارشاد نبوی ﷺہے:
’’باہمی اتحاد اور صلح جوئی کے لیے جو شخص جھگڑے اور جنگ و جدال کو چھوڑ دے۔ وہ حق پر ہو پھر بھی ان باتوں کو نظر انداز کرنے پر تیار ہوجائے تو قیامت میں اﷲ اسے جنت کے وسط میں عالی شان محل عطا فرمائیں گے۔‘‘
٭… تیسرا یہ کہ آزادی کے کھوکھلے نعرے کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی غلامی کو اپنا اوڑھنا ، بچھونا بنانا ہوگا۔ آزادی کی دعویدار اقوام خود بھی کسی نہ کسی نظریے کی غلام ہوتی ہیں جو خود انسانوں کا بنایا ہوا ہوتاہے۔ اسلام انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزادی دلانا چاہتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ انسان کو انسانوں کا نہیں بلکہ اپنے مالک اور خالق حقیقی کا غلام ہونا چاہیے! جب وہ اس کا غلام بن جاتا ہے تو وہ سب کو اپنے غلام کا تابع دار بنا دیتا ہے۔
سب ہی ذمہ دار ہیں:
یہ مسلمانوں کے اتحاد کی ممکنہ مثالی صورت ہے۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند ایک نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو باہم مل جل کر محنت کرنا ہوگی۔ عام مسلم فرد سے لے کر حکومت، عدلیہ، مقننہ، فوج، علماء اور میڈیا غرض سب کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہاں سب ہی ذمہ دار ہیں اور سب ہی سے پوچھ بھی ہوگی۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
الا وکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔                    (مشکوۃ)
’’سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھ ہوگی۔‘‘
اور فرمایا:
من لم یھتم بامور المسلمین فلیس منّا
(مشکوٰۃ)
’’جو مسلمانوں کی پریشانیوں اور مشکلات کا خیال اور فکر نہ رکھے وہ مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں۔‘‘
اسلامی حکومتوں کے فرائض:
اس ضمن میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومتوں کی ہے۔ حکومت یعنی انتظامیہ کے پاس اختیارات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔
1   عوامی بیداری مہم:
حکومتوں کا کردار اس لیے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ عموماً جیسا نظریہ اور شعور حکمرانوں میں ہوتا ہے عوام اور ماتحتوں میں بھی ویسا ہی نظریہ اور سوچ اور ایسی ہی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
’’الناس علی دین ملوکھم‘‘ (مشکوٰۃ)
’’عوام الناس اپنے حکمرانوں کے نظریات کے تابع ہوتے ہیں۔‘‘
اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اگر حکومتیں مخلصانہ طور پر افتراق و انتشار کے بدبودار ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیں تو عوام اور ماتحتوں میں شعور اور بیداری پیدا نہ ہو اور در حقیقت اصل چیز شعور اور بیدار ی پیدا ہونا ہے۔ اگر قوم میں شعور اور بیداری پیدا ہوگئی کہ روڈ بلاک کرنے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، مذہبی جلوسوں کا دین میں کوئی ثبوت نہیں، اسلام میں فرقہ واریت کی کوئی حقیقت نہیں …اور ان کے نقصانات گنوائے جائیں تو بہت سے فتنے صرف شعور کی بیداری سے ہی ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام تر وسائل کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے اندر ایک شعور بیدار کرے! چاہے وہ میڈیا کے ذریعے سے ہو، باہمی مکالمات کے ذریعے ہو، تمام فرقوں کے علماء کے لیے مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرنے کے ذریعے سے ہو یا نظام تعلیم میں وحدت کے ذریعے!!! یہ تمام ہی چیزیں عوامی بیداری کے لیے ضروری ہیں۔
2   متنازعہ مواد پر پابندی:
فرقہ واریت کو فروغ دینے والے تمام مواد اور لٹریچر بالخصوص ایک صدی پہلے کے تمام اختلافی مواد پر پابندی عائد کردی جائے کیونکہ ایک صدی قبل تک ایسے کوئی اختلافات نہ تھے جو آج ہم مسلمانوں میں سرایت کر چکے ہیں۔ انتظامی قوانین کا فائدہ ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا حالانکہ ایسی بات نہیں، انتظامی پابندیوں سے بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ جو چیز پہلے سر عام ہورہی ہے اور ہر ایک کے دسترس میں ہوتی ہے پابندی کے بعد عوام کے لیے اس تک رسائی بہت مشکل ہوجاتی اور اس کے کام کی رفتار میں کافی سستی آجاتی ہے۔
3   فرقوں کی تنظیموں پر پابندی:
تمام فرقوں کی تنظیموں پر قانونی پابندی عائد کردی جائے۔ چاہے وہ کوئی سا بھی فرقہ ہو۔ یہی عدل و انصاف، غیر جانبداری اور مساوات کا تقاضا بھی ہے۔ قادیانیوں کو بالکل تبلیغی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور دوسری تمام تنظیموں کے جلسے جلوسوں، جھنڈے بازیوں اور ترانوں پر پابندی عائد کردی جائے یا پھر اس کے لیے پارک اور میدان مخصوص کر دیے جائیں۔
4  یکساں حقوق دیے جائیں:
بعض اہل دانش نے ماتم اور مذہبی جلسے جلوسوں کو عبادت خانوں تک محدود کرنے کی بھی تجویز دی ہے لیکن فی الوقت موجودہ زمینی حقائق کی روسے ایسی کسی پابندی سے فرقہ واریت میں اضافے اور مغربی ممالک میں غلط امیج پھیلنے کا خطرہ ہے اس کی بجائے ضرورت یہ محسوس ہوتی ہے کہ جب ایک فرقے کو جلوس نکالنے اور جلسے کرنے کی اجازت ہے تو دوسرے فرقے کو بھی جلسے جلوس کی یکساں اجازت دی جائے۔ مثلاً محرم میں تعزیہ داری اور ماتمی جلوس ہوتے ہیں تو دوسرے فرقے کے لوگ صحابہ کرام کے احترام اور عقیدت میں مجالس منعقد کریں تاکہ کسی ایک فرقہ کی اجارہ داری قائم نہ ہو بلکہ دونوں کو یکساں حقوق ملیں ۔
5   حساس امور پر فوری اقدامات:
کچھ چیزیں ایسی نازک اور حساس ہوتی ہیں جن سے فرقہ واریت میں اچانک تیزی آجاتی ہے۔ مثلاً:
مساجد پر قبضہ، مدارس پر حملہ، علمائے کرام اور طلبہ کا قتل، صحابہ کرام اور مقدس شخصیات کی گستاخی۔ ایسی تمام چیزوں کے حوالے سے فوری طور پر سخت تعزیری قوانین جاری کیے جائیں! حکومتوں کو سمجھنا چاہیے کہ جرم چاہے کوئی سا بھی ہو اسے سزا کے خوف سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ اور مجرموں کو سزا کا خوف موجودہ صورت حال میں عنقاء ہے۔ اگر حکومت کسی دبائو میں آئے بغیر مجرموں کو سزا جاری کرنا شروع کردے تو اسی فیصد مسائل یوں ہی حل ہوجائیں گے۔
6  نئے روٹ کا تعین:
جب تک قوم میں جلسے جلوسوں کے حوالے سے شعور بیدار نہیں ہوجاتا اس وقت تک مذہبی جلسے جلوسوں کے راستوں کا از سر نو تعین کیا جائے۔ اگر کچھ لوگ سڑکوں پر جلوس نکالنا ضروری ہی سمجھتے ہیں تو وہ ضابطۂ اخلاق کی پابندی بھی کریں، مثلاً: اپنے ہمدرد سمجھے جانے والے علاقوں میں مذہبی جلوس نکالیں۔ دوسرے فرقوں کی مساجد، مدارس اور اکثریتی علاقوں میں ایسی اختلافی باتیں نہ کریں۔ گزشتہ سالوں میں ان جلوسوں کی وجہ سے کئی افسوس ناک واقعات پیش آنے کے باوجود اس پہلو کو نظر انداز کردیا گیا اور گزرگاہوں کی از سر نو تعیین نہیں کی گئی۔ نئے روٹ کا جہاں ایک فائدہ یہ ظاہر ہوگا کہ اشتعال انگیزی نہ ہوگی وہاں یہ فائدہ بھی ہوگا کہ لڑانے والی قوت کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ اور اس جیسے بڑی جانی و مالی نقصان سے حفاظت بھی ہوجائے گی۔
7بیرونی طاقتوں کو شٹ اپ کال:
معتبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند ممالک ہیں جو مذہبی دہشت گردی کو اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے ہوا دیتے ہیں ان ممالک میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں اور غیر مسلم طاقتیں بھی۔ ان سب کو شٹ اپ کال دینا ضروری ہے۔ ان کے نیٹ ورک کو توڑنا بھی ضروری ہے اور ان کے لیے کام کرنے والوں کو ثبوتوں سمیت عوام کے سامنے پیش کرنا بھی ضروری ہے۔
اسلام دشمنی کے واضح ثبوت:
ہمارے بہت سے دوست اسلام اور مسلمانوںکے ساتھ مغرب کی دشمنی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی خدمت میں چند نکات پیش کیے جاتے ہیں جن سے ممکن ہے ان کی سوچوں میں کچھ کشمکش اور ہلچل پیدا ہو۔
۱… برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل اہم عہدوں پر مسلمان فائز تھے۔ انگریزوں نے اول تو برصغیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ، برصغیر کی تمام مال و دولت کو برطانیہ منتقل کیا اور پھر سرکاری زبان بھی تبدیل کردی۔ ان سب باتوں کا نقصان کس کو پہنچا؟
۲… برصغیر میں نظام تعلیم کے اندر وحدت تھی۔ تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم تھا۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی سوچوں اور نظریات میں بھی باہم یکسانیت تھی۔ نظام تعلیم کی وحدت کو انگریزوں نے ختم کیا۔ پہلے تعلیمی اداروں میں دینی اور عصری دونوں علوم ہوا کرتے تھے۔ انگریزوں نے دینی تعلیم کو بالکل نظام تعلیم سے بے دخل کردیا۔ جس کا نقصان مسلمانوں کو نظریات کے تصادم کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
۳… ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے پہلے مسلمانوں میں صرف دو فرقے ہوا کرتے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ  انگریزوں کے دور حکومت میں کئی فرقے کیسے وجود میں آگئے؟
۴… برصغیر پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی۔ اس پورے عرصے میں کبھی شیعہ سنی فسادات نہیں ہوتے۔ برصغیر میں سب سے پہلے شیعہ سنی فسادات ۱۹۰۵ء عیسوی میں انگریزوں کے دور حکومت میں ایک سازش کے تحت کرائے گئے۔ صدام حسین نے عراق پر ۲۴ سال حکومت کی۔ عراق میں اکثریت شیعہ کمیونٹی کی ہے لیکن اس عرصۂ حکومت میں کبھی شیعہ سنی فسادات نہیں ہوئے۔ امریکہ کی آمد کے بعد شیعہ سنی فسادات کیسے پھوٹ پڑے؟
پاکستان میں بھی مذہبی مقامات پر بم دھماکوں میں بلیک واٹر اور دوسرے غیر ملکی ہاتھ بے نقاب ہوئے۔ ان تنظیموں کے پیچھے خفیہ ہاتھ کن مغربی ملکوں کا ہے؟
۵… برصغیر پر مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت میں کبھی مسلم ہندو فسادات نہیں ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت یہ فسادات کس کے اشاروں پر پھوٹ پڑے… ایسے فسادات کہ پندرہ لاکھ لوگوں کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
۶… برصغیر کی منصفانہ تقسیم کی بجائے ’’کٹاپھٹا‘‘ بنایا گیا۔ ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے جان بوجھ کر برصغیر کی منصفانہ تقسیم سے گریز کیا کیوں؟
۷…مغربی تعلیم یافتہ مذہبی اسکالرز جن کے کام کا حجم ایک دینی مدرسہ سے زیادہ نہیں لیکن پھر بھی ان کے کاموں کا پھیلاوا اس قدر کون کروا رہا ہے؟ ان کی فنڈنگ کون کر رہا ہے؟ اور ہر طرح کے وسائل سے کون انہیں مسلح کر رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں مزید انتشار پھیلے اور مسلمان اور زیادہ فرقہ واریت کا شکار ہوکر مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیں!!!
سچ تو یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے اٹل انداز میں کہہ دیا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے تو پھر مسلمان اور مسلمان حکومتوں کو اس کے بعد کس چیز پر یقین آئے گا؟  فبأی حدیث بعدہ یومنون
یہ چند تجاویز تھیں جو اسلامی حکومتوں کو دی گئیں۔ اب چند تجاویز قوم کے دیگر طبقات کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔  (…جاری ہے)

مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان” ایک تبصرہ

  1. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah e wa Barakatoho,
    Ezzat M,aab Muhtram Shaikh sahib! I am student of PhD Islamic Studies
    in Sargodha University.My topic for PhD thesis is ” PUNJAB MAEN ULOOM
    UL QURANWA TAFSEER UL QURAN PER GHAIR MATBOOA URDU MWAD” please guide
    me and send me the relavent material.I will pray for your success and
    forgiveness in this world and the world hereafter.
    Jzakallah o khaira
    hopful for your kindness.
    your sincerely and Islamic brother,
    Rafi ud Din
    Basti dewan wali street Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar.
    Email adress: drfi@ymail.com mob: 03336750546,03016998303

اپنا تبصرہ بھیجیں