آبِ زم زم کی تجارت

آبِ زمزم کی تجارت میں بظاہر کوئی امر، مانعِ جواز نہیں، کہ وہ متقوم بھی ہے

(۱)  اور احراز سے ملک بھی ثابت ہوجاتی ہے۔

(۲) نیزبلا نکیر ماء زمزم کے بیچنے کا تعامل بھی ہے۔

(۳) محض متبرک ہونا بیع کے لیے مانع نہیں بن سکتا  کیوں کہ قرآن کریم سب سے زیادہ متبرک ہونے کے باوجود اس کی بیع وشرا سب جائز ہے

 (۴)اور خریدار کا کافر ہونا بھی بظاہر مانعِ صحتِ بیع نہیں۔

(۵)  ہاں! احتمالاً مخل احترام ہونے کی بنا پر خلافِ اولیٰ یا مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

(۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وقال الرَّملي : إن صاحب البئر لا یملک الماء کما قدمہ في ’’ البحر ‘‘ ۔۔۔۔ وہذا مادام في البئر ، أما إذا أخرجہ منہا بالاحتیال کما فيالسواني ، فلا شک في ملکہ لہ لحیازتہ لہ في الکیزان ، ثم صبہ في البرک بعد حیازتہ ۔ تأمل ۔ 

(۷/۱۸۹ ، کتاب البیوع ، صاحب البئر)

(۳) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ العادۃ محکمۃ ‘‘ ۔ (۱/۲۴۹ ، الأشباہ:۱/۳۲۸)

ما في ’’ شرح عقود رسم المفتي ‘‘ :

والعـرف في الشرع لہ اعتـبار

لــذا علــیہ الــحکـم قد یدار

قال في المستصفیٰ : العرف والعادۃ ما استقر في النفوس من جہۃ العقول ، وتلقتہ الطباع السلیمۃ بالقبول ۔ (ص/۱۷۵ ، بحث العرف والعادۃ)

(۴) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : وذہب بعض السلف إلی إجازۃ بیعہا ، منہم محمد بن الحنفیۃ ، والحسن ، وعکرمۃ ، والشعبي ، لأن البیع یقع علی الورق والجلد وبدل عمل ید الکاتب ، وبیع ذلک مباح، قال الشعبي : لا بأس ببیع المصحف، إنما یبیع الورقَ وعملَ یدیہ ۔ (۳۸/۱۷ ، بیع المصحف وشراؤہ)

(۵) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {أحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۷۵)

ما في ’’ التفسیر المنیر ‘‘ : تضمنت الآیات أمور خمسۃ : الموضوع الأول ، إباحۃ سائر البیوع التي لیس فیہا نہي شرعي عنہا ۔ (۳/۱۰۲ ، تحت قولہ : أحل اللّٰہ الخ)

(۶) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولیس یستحسن کتابۃ القرآن علی المحاریب والجدران لا یخاف من سقوط الکتابۃ وأن توطأ ۔ (۱/۱۰۹ ، کتاب الصلاۃ ، الباب السابع)

ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ’’ ما کان سبباً لمحظور فہو محظور ‘‘ ۔ (۵/۲۲۳ ، نعمانیہ)

ما في ’’ المقاصد الشرعیۃ ‘‘ : ان الذرائع تعدّ وسائل إلی المقاصد ، وحکمہا حکم مقاصدہا من حیث التحریم والوجوب والکراہۃ والندب والإباحۃ ، وتکون واجبۃ إذا کان المقصد واجباً ۔ (ص/۴۶) (امداد الفتاوی :۳/)

اپنا تبصرہ بھیجیں