آگ کا استعمال:
تاریخی حقائق اور اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئےآگ کا ماخذ سنسکرت زبان معلوم ہوتی ہے۔ اردو میں آگ بطور اسم اور بطور صفت دونوں طرح سے مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1582ء میں “کلمۃ الحقائق” میں مستعمل ملتا ہے۔ (وکی لغت)
آگ مٹی سے افضل نہیں ہے:
آگ اور مٹی دونوں ہی عناصر میں سے ہیں لیکن مٹی آگ سے افضل ہے کیوں کہ مٹی میں حلم، تواضع بردباری اور انکساری پائی جاتی ہے جبکہ آگ میں طیش تیزی حرارت اور چھچھورا پن پایا جاتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آگ اشیا کو ختم اور فنا کردیتی ہے جبکہ مٹی چیزوں کو ملادیتی اور یکجا کردیتی ہے، آگ نباتات کو جلادیتی ہے جبکہ مٹی نباتات کو اگاتی ہے۔آگ کو مٹی سے افضل سمجھنا ابلیس کی غلطی تھی۔ آتش پرست آگ کو افضل قرار دیتے ہیں ۔ یہ ان کی حماقت ہے۔
آگ پر پکی ہوئی چیزسے وضو:
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جن روایات میں یہ آتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ کلی کی اور ہاتھ دھوئے کیوں کہ وضو کا ایک معنی ہاتھ منہ دھونے کے آتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے نہ کہ فرض وواجب یا وہ روایات ہی منسوخ ہیں۔
امام نووی فرماتے ہیں:
ذَکَرَ مُسْلِم فِیْ ھٰذَا الْبَابِ الْاَحَادِیْثَ الْوَارِدَةَ بِالْوُضُوْئِ مِمَّا مَّسَّتِ النَّارُ ثُمَّ عَقَبَھَا بِالْاَحَادِیْثِ الْوَارِدَةِ بِتَرْکِ الْوُضُوْئِ مِمَّا مَّسَّتِ النَّارُ فَکَأَنَّہ یُشِیْرُ اِلٰی أَنَّ الْوُضُوْئَ مَنْسُوْخ وَ ھٰذِہِ عَادَةُ مُسْلِمٍ وَ غَیْرِہ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیْثِ یَذْکُرُوْنَ الْاَحَادِیْثَ الَّتِیْ یَرَوْنَھَا مَنْسُوْخَةً ثُمَّ یَعْقَبُوْنَھَا بِالنَّاسِخِ۔ ( النووی شرح صحیح مسلم ١٥٦١)
یعنی یہاں امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ان احادیث کو ذکر فرمایا ہے کہ جن میں آگ پر پکی ہوئی چیزکھانے کے بعد وضوء کا حکم ہے پھر ان کے پیچھے ان روایات کو لائے ہیں جن میں ترک وضو کا بیان ہے گویا وہ اپنے عمل سے اشارہ فرمارہے ہیں کہ وضو والی روایات منسوخ ہیں اور یہ امام مسلم اور ان کے علاوہ دوسرے محدثین رحمہم اللہ تعالی کی عادت ہے کہ پہلے ان احادیث کو ذکر کرتے ہیں جو ان کی نظر میں منسوخ ہیں پھر ناسخ روایات کو ان کے بعد ذکر کرتے ہیں۔ (مزیددیکھیے: وضوتوڑنے والی چیزیں)
آگ میں جلانے سے چیز پاک ہوجاتی ہے:
کوئی بھی چیز جب آگ میں جل جائے تووہ اپنی حقیقت کھودیتی ہے ۔ اس لیے نجاست کو جب آگ میں جلایاجاتا ہے تو وہ اس کی حقیقت کو بدل دیتی ہےاس لیے پاک ہوجاتی ہے،مثلاً:
(الف) گوبر یا کوئی نجاست جل کر راکھ ہوجائے تو پاک ہوجاتی ہے۔ (امداد الفتاویٰ:۴/۱۰۱)
(ب) ناپاک مٹی سے ہانڈی یا رکابی بنائی اوراسے آگ میں پکادیا تو وہ پا ک شمار ہوگی۔ (ہندیہ:۱/۴۶)
(ج) نجس کچی اینٹ پک جائے تو پاک ہوجائے گی۔ (ایضاً)
( مزیددیکھیے: قلب ماہیت)
آگ کے سامنے نماز:
آگ کے سامنے نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بڑی آگ ہو جس کی مجوسی پوجا کرتے ہیں، اس کے سامنے نمازپڑھنا مجوسیوں سے مشابہت کی وجہ سےمکروہ ہے ۔ دوسری یہ کہ ہیٹرچراغ موم بتی وغیرہ کی آگ ہو اس کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ نہیں کیوں کہ مجوسی اس طرح کی آگ کی عبادت نہیں کرتے۔
آگ میں جل کر مرنے والا شہید ہے:
حدیث نبوی ﷺ میں ہے:
جابر بن عُتیک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فی سَبِیلِ اللَّہِ الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِق ُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَہِیدٌ وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ وَالْمَرْاَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شہیدۃٌ
ترجمہ: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں: (١) طاعون سے مرنے والا شہید ہے (٢) ڈوب کر مرنے والا شہید ہے(٣)ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے (٤) آگ میں جل کر مرنے والا شہید ہے(٥) ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے (٧) اور حمل کی حالت میں مرنے والی عورت شہیدہے ۔(سُنن ابو داؤد حدیث ٣١١١/ کتاب الخراج و الامارۃ و الفی، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کوصحیح ہے)
آگ سے مارنا قتل عمد ہے:
آگ آلہ قاتلہ ہے اس لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ آگ سے قتل کرنا قتل عمدہے۔
آگ میں جلانے کی سزا :
آگ سے جلاکر سزا دینا اللہ رب العزت کے شایان شان ہے اس لیے کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ کسی بھی انسان یا جانور کو آگ میں جلاکر مارے یا جلاکر سزا دے۔وہ تمام روایات جن سے آگ کے ذریعے سزا دینے کا ثبوت ملتا ہے وہ منسوخ ہیں۔البتہ بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ یہ احادیث منسوخ نہیں، بلکہ انہیں خاص حالات پر منطبق کیاجاسکتاہے چناں چہ ضرورت کے موقع پر جلاکر سزا دینا جائز ہے بلاضرورت جائز نہیں۔ جیسے کھٹمل وغیرہ کو گرم پانی سے جلاکر مارنا ضروت کے موقع پر جائز ہے ویسے کسی سخت مجرم کو جس کا جرم بھیانک ناک ہو جلاکرمارنا جائز ہے۔