آج کا انسان بے سکون کیوں

گزشتہ دنوں دوران مطالعہ ایک مختصر کہانی نظر سے گزری ’’ایک بچے نے اپنے دادا سے پوچھا! دادا جان آپ اتنے اچھے کیسے بنے؟ اس کے دادا جان نے یہ کہتے ہوئے اسے جواب دیا۔
’’میرے اندر دو شیر ہیں اسی طرح تمہارے اندر بھی۔ ایک شیر بڑا رحم دل، مہربان ، بے لوث اور بہادر ہے جب کہ دوسرا شیر بھیڑیا نما ہے پرتشدد، خودغرض، تباہ کن اور سنگدل ہے وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور دونوں تب تک نہیں رکیں گے جب تک ان میں سے کوئی ایک نیست و نابود نہ ہوجائے۔
بچہ سہم گیا اور اس نے خوف زدہ ہوکر سوال کیا۔
لیکن دادا جان! ان میں سے کون جیتے گا؟‘‘ دانا شخص نے اپنے پوتے پرگہری نگاہ ڈالی اورکہا۔ ’’کامیاب وہی ہوگا جس کی میں پرورش کروں گا اور نیست و نابود وہی ہوگا جسے میں بھوکا رکھوں گا۔‘‘ یہ بظاہر ایک مختصر کہانی ہے لیکن اس میں انسانی شخصیت کا ایک اہم پہلو پوشیدہ ہے۔ وہ ہے ایک انسان کی شخصیت کا اخلاقی پہلو جو ہمارے مثبت اور منفی رویے سے تشکیل پاتا ہے۔ اس اخلاقی پہلوکے علاوہ انسانی شخصیت کے اور بھی کئی پہلو ہیں ایک مغربی مفکر کے نزدیک انسان کے اندر خوف، بھوک، جنس اورخودنمائی وہ محرکات ہیں جو انسان کی شخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
جس سے انسانی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ مثلاً انسانی شخصیت کا حیاتیاتی پہلو خوف کے زیر اثر ہوتا ہے اس کے تحت انسان اپنی اور اپنی نسل کی بقا کا طلبگار ہوتا ہے۔ خوف کے زیر اثر انسان کا سماجی اور معاشرتی پہلو بھی سامنے آتا ہے جس کے تحت ایک انسان اپنی زبان، اپنی اقدار، اپنی تہذیب، تمدن اور ثقافت کے تحفظ کا طلبگار ہوتا ہے۔ انسانی شخصیت کا معاشی پہلو بھوک کے زیر اثر ہوتا ہے جس کے تحت انسان مختلف معاشی سرگرمیاں اختیارکرتا ہے جنسی قوت کے زیر اثر جنسی فعل انجام دیتا ہے۔
خودنمائی کے جذبے کے تحت فنون لطیفہ مثلاً کھیل کود، مصوری، رقص اور ادب و شاعری وغیرہ سے دلچسپی لیتا ہے۔ انسانی شخصیت کے تمام پہلوؤں میں جس پہلو کو اولین حیثیت حاصل ہے وہ ہے انسانی شخصیت کا اخلاقی پہلو۔
تجارت میں دو اصلاحات افراط زر اور تفریط زر استعمال ہوتی ہیں۔ تجارتی ضروریات سے فاضل (فالتو) روپیہ گردش میں آجائے تو افراط زرکہلاتا ہے اور تجارتی ضروریات سے کم روپیہ گردش میں ہو تو تفریط زرکہلاتا ہے۔ معیشت میں دونوں صورتوں میں بحران پیدا ہوجاتا ہے جو معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔ معیشت میں استحکام کے لیے ضروری ہے کہ روپیہ (کرنسی) کی گردش توازن کی حالت میں رہے۔ یہی صورتحال انسان کے اخلاقی پہلو کے ساتھ ہے۔
ایک مسلمہ مفکر کے نزدیک انسان کے ساتھ کچھ قوتیں مثلاً عقل، غصہ، شہوت، دولت ایسی ہیں کہ اگر ان میں اعتدال اور توازن برقرار رہے تو انسان میں مثبت خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ اگر یہ قوتیں افراط اور تفریط کا شکار ہوجائیں تو انسان میں اخلاقی امراض پیدا ہوجاتے ہیں وہ اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوکر تقویٰ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے مثلاً عقل ایک قوت ہے اگر اس میں اعتدال رہے تو حسن تدبیر اور حکمت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں جب افراط کا شکار ہوتی ہے تو مکروفریب، عیاری اور مکاری جیسے اعمال پیدا ہوتے ہیں تفریط کا شکار ہو تو حماقت اور ناعاقبت اندیشی کی صورت کا ظہور ہوتا ہے۔
دوسری قوت غصہ ہے اگر یہ اعتدال کی حالت میں رہے تو نرمی، خوش مزاجی، دلیری، شجاعت جیسی اوصاف پیدا ہوتی ہیں افراط کی صورت میں پرتشدد، سنگدل، ظالم، تند مزاج، بدتمیزی جیسے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ تفریط کی صورت میں خوشامد پسندی، چاپلوسی، بزدلی جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔شہوت کی صورت اعتدال میں رہے تو پاکیزگی، حیا، شرم اور وقار جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ جب یہ قوت افراط کی طرف مائل ہوتی ہے تو اس سے بے حیائی، اوباشی، عیاشی، فحاشی جیسے اعمال سامنے آتے ہیں۔ جب تفریط کا شکار ہو تو نامردی جیسی صورتحال سامنے آتی ہے۔
بھوک کی قوت میں اعتدال سے توکل اور خود داری پیدا ہوتی ہے۔ افراط کی صورت میں لالچ، حرص، ہوس جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ تفریط کی صورت انسان ذلت پسندی کا شکار ہوجاتا ہے۔
خودنمائی کے جذبے میں اعتدال رہے تو وقار، وجاہت جیسی صفات سامنے آتی ہیں افراط ہو تو غرور، تکبرخود پرستی کا انسان شکار ہوجاتا ہے۔ تفریط کا شکار ہو تو انسان میں ریاکاری جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر توجہ دے تو اس کی شخصیت مکمل ہوجاتی ہے اور اسے اپنی زندگی میں اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر توجہ صرف کیے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی میں حقیقی خوشی، اطمینان میسر نہیں ہے وہ ہمیں بے سکون، بے چین اور بے قرار دکھائی دیتا ہے اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے انسانی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے انسان نے نظراندازکردیا ہے۔
وہ پہلو ہے انسانی زندگی کا روحانی پہلو۔ روحانی پہلو انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جسے ہم انسان کی اصل شخصیت قرار دے سکتے ہیں۔ جب ہم ’’میں‘‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے انسان کی باطنی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے یہ باطنی شخصیت ہی ہمارا روحانی وجود ہے جو ہمارے ظاہری وجود سے جڑا ہوا ہے۔
جب انسان جسمانی وجود کے تقاضے پورے کرتا ہے اور روحانی پہلو کو نظر انداز کردیتا ہے تو اس کی زندگی میں بے سکونی، بے قراری، بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ روحانی وجود کا ایک ہی تقاضہ ہے کہ بندے کا اپنے رب سے تعلق استوار ہوجائے اس کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے تقویٰ کا راستہ۔ یہ تقویٰ کا راستہ کیسے حاصل ہوتا ہے یہ معرفت الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں