عاشوراء کے دن وسعت علی العیال

یوم عاشوراء میں اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت وفراخی کرنے کی بابت جو حدیث بیان کی جاتی ہے ، کیا وہ ثابت ہے ؟

الجواب : عاشوراء کے دن وسعت علی العیال والی حدیث : ۵ صحابہکرام رضی اللہ عنھم سے مرفوعا ، اور حضرت عمر سے موقوفا ،  اور ایک تابعی کی روایت سےمرسلامنقول ہے ،جن صحابہ کرام سے مرفوعا وارد ہے ، وہ یہ ہیں :

 حضرت جابر [شعب الإيمان  3512]

حضرت ابن مسعود [شعب الإيمان  3513]

 حضرت ابو سعيد خدری [شعب الإيمان  3514]

 حضرت ابو هريرہ [شعب الإيمان  3515]

حضرت ابن عمر  [التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 10،12)] 

 حضرت عمر پرموقوف روایت [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ] میں

 اور ابن المنتشر تابعی کا بلاغ [شعب الإيمان  3516] میں مروی ہے ۔

بعض علماء حدیث اس حدیث کی تمام اسانید وطرق پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث مرفوعا ثابت نہیں ہے ، اور بعض صراحتا من گھڑت ہونے کا حکم لگاتے ہیں ۔ [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6/ 363) ]

جبکہ ان کے مقابلہ میں بعض محدثین نے ان کو قبول کیا ہے ، اور بعض اسانید کو صحیح یا حسن کا مرتبہ دیا ہے ،ان میں بالخصوص امام بیھقی ، ابن القطان ، عراقی ، ابو زرعہ بن العراقی  ، ابن حجر عسقلانی ، سیوطی رحمھم اللہ ہیں، ان کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ امام بیہقی  : ” هَذِهِ الْأَسَانِيدُ وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةً  فَهِيَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً ” [ شعب الإيمان (5/ 333) ]

۲۔  ابن ناصر الدین  : قال العراقي في أماليه : ” لحديث أبي هريرة طرقٌ، صحح بعضَها ابن ناصر الحافظ ” [ المقاصد الحسنة (ص: 674) ]

۳۔ ابو الفضل عراقی : قال العراقي في أماليه : ” لحديث أبي هريرة طرق ، صحح بعضها ابن ناصر الحافظ، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان بن أبي عبد اللَّه عنه، وقال: سليمان مجهول. وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات، فالحديث حسن على رأيه، قال: وله طريق عن جابر على شرط مسلم، أخرجها ابن عبد البر في “الاستذكار” من رواية أبي الزبير عنه ، وهي أصح طرقه ، ورواه هو والدارقطني في “الأفراد” بسند جيد ، عن عمر موقوفا عليه ”  [ المقاصد الحسنة (ص: 674) ]

۴۔ ابوزرعہ عراقی  : ” هَذَا مَا وَقَعَ لَنَا مِنَ الأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ فِي الْبَابِ، وَأَصَحُّهَا حَدِيثُ جَابِرٍ مِنَ الطَّرِيقِ الأَوَّلِ، وَفِي بَعْضِ طُرُقِهِ الْمُتَقَدِّمَةِ مَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ شَاهِدًا لَهُ” [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 12) ] ، وقال عن رواية ابي الزبير عن جابر : ” وَأَقَلُّ أَحْوَالِ هَذَا الطَّرِيقِ أَنْ يَكُونَ حَسَنًا ، وَحُكْمُهُ حُكْمُ الصَّحِيحِ فِي الاحْتِجَاجِ بِهِ.” [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 2) ]

۵۔   ابن حجر عسقلانی : قال ابن حجر عن رواية أبي سعيد : ولولا الرجل المبهم لكان إسناده جيداً ، لكنه يقوى بالذي قبله ، وله شواهد عن جماعة من الصحابة غير أبي سعيد [ الأمالي المطلقة (ص: 28) ]

۶۔ سیوطی : (حديث) “مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ” قال الدارقطني  : لا يثبت ، إنما هو من كلام محمد بن المنتشر. قلت: كلا بل هو ثابت صحيح [ الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 186) ]

۷۔ ابو الفیض احمد الغماری  : حدیث صحیح [ هدية الصغراء بتصحيح حديث التوسعة يوم عاشوراء ص 39 ]

اور مذاہب اربعہ کی کتابوں میں بھی اس پر عمل کرنے کی گنجائش لکھی ہے ، اور یہ کہ سال بھر کی برکت کے بارے میں یہ عمل مجرب اور پائے ثبوت کو پہنچا ہوائے ہے ۔

حنفیہ کےبعض فتاوی ملاحظہ فرمائیں  :

 وسعت علی العیال کی روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے؛ لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابل استدلال ہے؛ لیکن اس روایت سے کھچڑے اور حلیم پکانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ کھچڑا آج کل اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے اور یہ لوگ روزہ رکھنے کے بجائے دن بھر کھچڑا کھاتے کھلاتے رہتے ہیں، جو منشأ نبوی کے بالکل خلاف ہے، نیز اس میں التزام مالا یلزم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ وسعت پر عمل کھچڑا پکانے پر ہی منحصر نہیں؛ بلکہ کسی بھی طرح دستر خوان وسیع کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔ (کتاب النوازل ج۱۷ ص ۱۸۸)۔

عاشوراء کے روز شام کو وسعت دسترخوان ناجائز نہیں ہے ،بلکہ جائز اور باعث خیرو برکت ہے۔(فتاوی قاسمیہ ج۲ص۴۳۲)۔

 عاشوراء کے دن اہل وعیال کو اچھا اور خوب کھلانا حدیث و کتب فقہ سے ثابت ہے ، حدیث اگرچہ ضعیف بھی ہو پھر بھی فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کرنے میں ثواب ہے ، نیز فقھاء نے بھی اس حدیث کو قابلِ عمل فرمایا ہے۔واللہ اعلم۔(فتاوی دار العلوم زکریا ج۱ص۴۱۹)۔

 عاشورا کے دن اہل وعیال پر فراوانی کی حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔(نجم الفتاوی ج۱ص۲۹۶) ۔

 خلاصہ بحث  

وسعت علی العیال کیحدیث کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اوراس پر عمل بھی جائز و مستحسن ہے ۔

رہی بات دیگر رسوم کی جیسے : سرمہ لگانا ، خضاب لگانا ،غسل کرنا ، رشتہ داروں سے ملاقات کرنا ،خاص قسم کا کھانا پکانے کا اہتمام کرنا،تو یہ سب بدعت ہے اور ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں