عبقری کا ایک تجزیہ

عموماً یہ تاثر پایاجاتاہے کہ مولوی لوگ اپنے تعصب اور تنگ نظری کی دیرینہ عادت سے مجبور ہوکردوسروں کی تنقیص کرتے رہتے ہیں اس لیے ان کی تنقید کی اہمیت نہیں۔درحقیقت اس تاثر اور خیال کے پیچھے کسی حد تک وہ ‘مبینہ’بیانیہ ہے جو اس وقت پورے عالم میں رائج ہے کہ ہر شر کی جڑ مولوی ہے۔ دنیا میں کسی بھی فن کے ماہرین جب اپنے میدان سے وابستہ لوگوں پرتنقید کرتے ہیں تو اس کا سبب یا توان سے فنی وعلمی اختلاف ہوتاہے یا اختلاف کی وجہ فریق دوم کی پیشہ وارانہ نااہلی ہوتی ہے۔ ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور پر اور ایک صحافی دوسرے صحافی پر تنقید کرتاہے اس کی وجہ ہمیشہ ذاتی وپیشہ وارانہ تعصب نہیں ہوتی بلکہ اکثروبیشتر اس پروفیشنل کو وہ بنیادی نااہلی نظر آتی ہے جو ہماری نظروں سے مخفی ہوتی ہے۔کتنے بڑے بڑے اور خوبصورت سائن بورڈز لگانے والے نیم حکیم کی صورت میں خطرہ جان بنے ہوئے ہیں اب مستند حکیم کا پیشہ وارا نہ فرض ہوتاہے کہ وہ اس کے خطرے سے لوگوں کو آگاہ کریں۔

عبقری سے میری وابستگی کے چند ماہ ہی ہوئے ہیں اور میں ذاتی طور پر کئی لوگوں کو اس کا شیدائی بنا چکا ہوں۔ مجھے عبقری کے بارے میں اس وقت تحفظات ہوئے جب میگزین میں متواترغیر مستند مواد پڑھنے کو ملتے رہے۔ یہ میرا تجزیاتی مطالعہ ہے کوئی صاحب ‘فتوی’ قرار دے کر عبقری کی گمراہی کا فیصلہ نہ کریں اور نہ ہی راقم کو اپنی توپوں کا نشانہ بنائے۔ محض غور کرنے کے لیے یہ تجزیہ پیش کر رہاہوں تا کہ اس پُر فتن دور میں محتاط ہوکر روحانی اور دینی ذرائع کو قبول کیا جائےاور کسی بھی ذریعے کو قبول کرنے سے پہلے ملک کےمستند اور معروف علماء کی رہنمائی حاصل کی جائے۔

میگزین اور ویب سائیٹ کے تجزیے سے معلوم ہوتاہے کہ غیر مستند مواد شائع کرنے کے لیے کوئی موثر چھان بین کا پیمانہ (Screening Criteria) نہیں۔مثلاً اس سال ایک شمارے میں پورامضمون ربیع الاول کی مخصوص تاریخوں میں نوافل کی فضیلت کے بارے شائع کیا جس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔عبقری کا ایک معروف وظیفہ ملاحظہ فرمالیں:یَارَبِّ موسٰی یَا رَبِّ کَلِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ تمام اہل علم جانتے ہیں کہ عربی زبان کےکسی بھی جملے کا درست مطلب اس کی ترکیب میں مضمر ہوتاہے۔ اس جملےکی ترکیب سے شرک کی بو آتی ہے۔ یا ربِ کا تو معنی ہوا اے میرے رب ،موسی کا مطلب موسی تو بہ ظاہر ترجمہ یوں بنتاہے

اے میرے رب موسی۔  اے میرے رب کلیم۔ اگر کوئی کلمہ محذوف ہے، یا ‘موسی’ اور کلیم کے معانی کچھ اور لیے گئے ہیں تو وہ کیا ہیں؟

چلیں وہ معانی مقصودہ اگر درست ہیں تو پھر بھی کیا ایسا کوئی وظیفہ تجویز کرنا درست ہے جو واضح المعنی نہ ہو؟

یہ وظیفہ ہر شمارے میں اسی طرح تحریر ہے سوائے ایک شمارے کے جس میں ‘یا رب’ بالفتح لکھا ہے ۔ ترکیب کو ہم نظر انداز بھی کرسکتے تھے اگراس وظیفے کا کوئی شرعی حوالہ درج ہوتا۔اس طرح کے متعدد وظائف میں عربی اغلاط نظر سے گزری ہیں۔ قلتِ وقت کی وجہ سے چند ایک مثالیں پیش کیں۔

وظائف کے ماہر تو حکیم چغتائی صاحب ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ ہر شمارے میں قارئین کے وظائف اور نسخہ جات کے لیے ایک حصہ مختص ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کس طرح کوئی بھی قاری حقیقی یا خود ساختہ وظیفہ یا نسخہ شائع کراسکتاہے۔ اس پیج کی چھان بین کا تو یہ حال ہے کہ ایک دفعہ ایک قاری استخارے کا نیا طریقہ بتارہے تھے کہ استخارہ نماز کے اندر التحیات کے دوران بھی ایک مخصوص طریقے سے ہوسکتاہے۔ 

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اس وقت عوام میں وظائف کے سلسلے میں انوکھے پن ،تنوع اور ایجادیت کا رجحان ہے اور یہی بعض عاملوں کیMarket Driven Policy ہےجیسا کہ دیہاتوں میں ڈاکٹروں کی MDP انجیکشن کاکثرت سے استعمال ہے۔لوگ ایک انوکھے اور نامانوس وظیفے کے متلاشی ہوتے ہیں اور ایسے وظیفے رواج دئیے جارہے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔ قرآن و حدیث میں موجود آسان، معروف ، موثراور واضح الفاظ کو چھوڑ کرہمیں نامانوس الفاظ وکلمات کی ہوس کیوں ہے؟تلاوت،نماز، مسنون اذکار اور درود شریف کے ہوتے ہوئے اتنے بے تحاشہ شخصی وظائف کا رواج اسلام کی اصل روح سے لوگوں کو بعید کردے گا۔ عجیب بات ہے اگر کوئی دم تعویذ کے طلب گار کو قرآن وحدیث کے الفاظ پر مشتمل کلمات کے علاوہ وظیفہ دیا جائے تو اسے زیادہ مقبولیت ملتی ہے۔اگر مستند اور غیر مستند ذریعےکی بحث سے صرفِ نظر کیا جائے تو پھرنعوذ باللہ شرکیہ الفاظ کا استعمال کیسے رکے گا؟

صحیح غلط کی تمیز، مضامین اور عربی متن کی جانچ کا کام اہل علم کا ہے مگر میگزین یا ادارے کے پینل اور مجلس ِمشاورت میں کسی اہل علم کا نام نہیں ملاتبھی ہر میگزین میں غیر مستند مواد کی بھرمارہے۔اگر میرا یہ اعتراض بے بنیاد ہے تو پھر اس بات کا جواب دیں کہ دنیا میں ہر اہم کام کے لیے لوگ پروفیشنل سے کیوں رہنمائی لیتے ہیں؟ تو جو آپ کا جواب وہ میرا جواب۔ اللہ کی قسم دین کا میدان کسی بھی شعبے سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہے اس لیے دین سے متعلق تحقیق اور تشریح کے لیے مستند اہلیت بھی ضروری ہے۔

عبقری کے پلیٹ فارم سے اتنے سارے وظائف شائع کئے جاتے ہیں کہ بندہ کنفیوژ ہوجاتاہے کس پر عمل کروں کس کو چھوڑوں؟ میرے ایک قریبی رشتہ دار کچھ دن پہلے حضرت حکیم چغتائی صاحب سے خصوصی ملاقات کے لیے گئے انہیں ایک خاص وظیفہ دیا گیا کہ صرف یہ معمول بنالیں اس کے علاوہ دیگر وظیفے نہ پڑھاکریں کیونکہ ہر وظیفہ دوسرے سے ٹکراتاہے جس كا نتيجہ نقصان کی صورت میں نکلتاہے۔ میں نے ایک آہ بھر کے کہا کہ میگزین کےوظائف کے فوائد اور جادوئی اثرات پڑھ کر میرا تو بہ یک وقت دسیوں وظائف کا موڈ بن جاتاہے۔ اب ان میں سے متعدد متصادم وظائف بھی تو ہوں گے۔مبالغہ آرائی یا ترغیب اتنی زیادہ کہ بعض وظیفوں کے نام تو ‘ایٹم بم’ بعض کے ‘دھماکہ ‘رکھے ہیں۔یہ غیرمناسب زبان ہے، 

اور وظائف کے مزاج سے بالکل موافق نہیں۔

اگر کوئی یہ کہیں کہ خامیوں کو رد کرکے ان کی مفید باتوں کی وجہ سے قبول کیا جائے یہ علماء کی حد تک تو درست ہے مگر عوام کیسے سمجھیں گے کہ کونسی بات درست اور کونسی غلط ہے؟ جب کہ قاری عبقری کو ایک معتبر ذریعہ سمجھ کر پڑھتاہے۔

عبقری کا سکوپ /دائرہ کار کیا ہے؟ عملیات اوروظائف کے ذریعے روحانی مسائل کا حل؟ عملیات اور روحانیات کے موضوع پر مبنی میگزین میں ‘بین المذاہب ہم آہنگی جیسے عنوانات ‘بھی محلِ نظر ہیں۔پاکستان اور امت کے مسائل کو اگر دیکھیں تو اس وقت مسائل مذہب کے پیروکاروں کے باہمی اختلافات کی نسبت دجالیت اور شیطانیت کی طرف سے ہیں نہ کہ اسلام، عیسائیت وغیرہ کی باہمی کشمکش کی وجہ سے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں دنیا کی لگام ہے ان میں سے اکثریت مذہب سے بیزار ہیں۔

عین ممکن ہے کہ حکیم چغتائی صاحب کی نمائندگی کرنے والے میگزین ان کے مشاوروں کے رحم وکرم پرچھوڑا گیاہےاور حکیم صاحب کوپورا ادراک نہ ہو اور اہل علم کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان ابلاغی ذرائع سے ہمیں غلط تصویر مل رہی ہو۔

مجھے عبقری سے متعلق فتاوای یا اہل علم کی رائے کی تحقيق کا موقع نہ مل سکا اور خیال یہ بھی تھا کہ کسی مصحح کی وضاحت کا بھی انتظار کرلوں۔ ایک ویب سائیٹ سے فتوی کی عبارت ملاحظہ ہو:

عبقری وظائف پڑھنے کا حکم

سوال:”عبقری” وظائف کے بارے میں کیا رائے ہے ؟

جواب:جو وظائف درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ہوں وہ جائز ہیں : 

۱۔وظائف قرآنی آیات ، احادیثِ مبارکہ کی دعاؤں یا ایسے کلمات پر مشتمل ہوں جن کے معانی سمجھ میں آسکتے ہوں اور ان کا مفہوم شریعت کے مطابق ہو ۔۲۔ان میں غیر اللہ سے مدد نہ مانگی گئی ہو یعنی شرکیہ یا مُوہمِ شرک کلمات ان میں نہ ہوں نیز ان کلمات کا مفہوم مبہم اور غیر واضح نہ ہو ۔

۳۔یہ عقید ہ نہ ہو کہ یہ بذاتِ خود مؤثر ہیں ، بلکہ عقیدہ یہ ہو کہ اصل مؤثر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔

لہٰذاجووظائف یاعمل ان شرائط کےمطابق ہوتواس کےذریعہ جائزکاموں میں لوگوں کوفائدہ پہنچانے کےلئےعمل کرناجائزہے۔

نوٹ: عبقری غیرمستند باتیں کثرت سے نشرکرتے ہیں، اس لئے ان کی دینی باتیں پڑھنے سے ہی احتیاط کریں اور اگر کبھی ان کی کوئی بات سامنے آجائے تو مستند علماء سے تصدیق کرکے عمل کریں۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب

تحریر: عثمان حبیب

اپنا تبصرہ بھیجیں