المسائل الشرعیة

 فقہیات

فتویٰ نمبر:245

دعائے افطار پڑھنے کا وقت

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ “اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت” یہ افطاری کے بعد کی دعاء ہے، یعنی افطار کے وقت پہلے آدمی کھجور وغیرہ کھائے پھر یہ دعا پڑھےافطاری سے پہلے جو لوگ اس دعا کو پڑھتے ہیں کہ وہ غلط پڑھتے ہیں تو واضح رہے کہ سنن أبوداؤد میں مرسل روایت ہے :

عن معاذ بن زھرہ قال: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا افطر قال: اللھم لک صمت وعلی رزقک أفطرت“ رواہ ابوداؤد مرسلاً

حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ افطار کرتے تو یہ دعاء پڑھتے: 

اللھم لک صمت وعلی رزقک أفطرت

اے اللہ! میں آپکے لئے روزہ رکھا اور آپکے رزق سے ہی افطار کیا“

(مشکوہ/ص۱۷۵ کتاب الصوم / ھندیہ۱/ ۲۰۰)

پھر 

(۱) حدیث کے الفاظ “کان اذا أفطر“ (یعنی جب آپ علیہ السلام روزہ افطار کرتے تو مذکورہ دعا پڑھتے) یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام یہ دعاء افطار سے پہلے پڑھتے تھے، نہ کہ بعد میں، جیساکہ بعض لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے۔

(۲) نیز مشائخ اور اکابر کا بھی یہی معمول چلا آرہا ہے کہ وہ یہ دعاء پڑھ کر روزہ افطار کرتے تھے، اور آج تک امت میں بھی یہی طریقہ رائج ہے۔ (آپکے مسائل اور انکا حل۴/ ۵۴۵)

(روزے کے مسائل ص۱۱ از مفتی محمدشفیع صاحب)

(۳) ائمہ اربعہ کے ماننے والوں نے روزہ سے متعلق جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں سب نے افطار کرنے کی یہی دعاء لکھی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ان بڑے بڑے علماء اور محدثین کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ افطار کے بعد کی دعاء ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے، کیونکہ امام ابوداؤد نے عنوان اور ترجمة الباب قائم کیا ہے کہ “باب ما یقول عند الافطار“ یعنی افطار کے وقت کیا دعاء پڑھے ؟ اور پھر اسکے تحت میں یہ حدیث لے کر آئے، جس سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ دعا افطار کرنے سے قبل کی ہے، اگر بعد کی ہوتی تو وہ عنوان قائم کرتے “باب ما یقول بعد الافطار“ یعنی افطار کے بعد کی دعاء، حالانکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

معلوم یہ ہوا کہ بعض لوگوں نے جو مطلب سمجھا وہ صحیح نہیں ہے بلکہ یہ افطار کرنے کی دعا ہے، افطار کے بعد کی نہیں بہرحال یہ بعض حضرات کی ناسمجھی اور کم علمی کی بات ہے جنہوں نے حدیث کے الفاظ اور لغوی ترجمہ سے یہ سمجھ لیا کہ یہ دعاء افطار کے بعد کی ہے جبکہ اسکے علاوہ انکے پاس اس بات پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کسی صحابی کا قول یا فعل یا امت کا عمل جبکہ افطار کے وقت اس دعا کو پڑھنے پر حدیث کے الفاظ بھی دلالت کرتے ہیں اور چودہ سو سال سے لے کر آج تک امت کا عمل بھی اسی پر ہے اور اگر دعا میں ماضی کے صیغے استعمال ہوئے ہیں تو قرآن کریم میں قیامت کے بارے میں بھی ماضی کے صیغے وارد ہوئے ہیں تو اس سے یہ سمجھا جائے کہ قیامت آچکی ہے۔واللہ اعلم بالصواب

ناشر : دارالریان کراتشی

اپنا تبصرہ بھیجیں