انبیاء کو کیوں بھیجا جاتا ہے

انبیاء کرام ؐ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

سائلہ: امۃ اللہ

سعید آباد

03214288765

فتویٰ نمبر:14

الجواب باسم ملھم الصواب

اللہ تعالی نے جب سے انسان کو دنیا میں بھیجا ان کی ہدایت کے لیے خاتم الانبیاء ﷺ تک ہدایت کے دو سلسلے جاری رکھے۔ ایک آسمانی کتابوں کا دوسرا اس کی تعلیم دینے والے رسولوں کا ۔دونوں سلسلوں کو یکساں طور پر جاری فرمایا،کہ انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک طرف آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف مربی اور معلم کی۔ ایک انسان کا اصلی معلم انسان ہی ہوسکتا ہے۔ کتاب، معلم اور مربی نہیں ہوسکتی۔

اس کے علاوہ انبیاء اور رسولوں کو بھیجے جانے کی کچھ حکمتیں یہ ہیں:

1- رسولوں اور نبیوں کو دنیا میں لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دینے کے لیے بھیجا گیا تاکہ انسانوں کو ایمان کی طرف بلائیں اور اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت کا حکم دیں اور تاکہ لوگوں پر حجت پوری ہوجائے پھر کوئی یہ نہ کہ سکے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا۔

قال تعالى: ﴿ رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ النساء:165

اب یہ احکام پنہچانے والے نبی بھی ہوسکتے ہیں اور نبی کے قائم مقام عالمِ دین بھی جیسا کہ قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اس کا ذکر ہے۔

﴿ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ﴾ فاطر:24 

2۔ ایک حکمت یہ بھی ہےکہ اگر انسانوں کو تنہا ان کی عقلوں پر چھوڑدیا جاتا تو پورے طور پر سعادت و نجات کا راستہ معلوم نہیں کرسکتے تھے۔دنیا کے عقلاء کا حال دیکھا جاسکتا ہے، رات دن مشاہدے میں آنے والی چیزوں میں بھی ایک بات پر متفق نہیں تو عالَمِ آخرت کے بارے میں کیسے صحیح بات معلوم کرسکتے ہیں۔ لہذا یہ بات ماننی پڑے گی کہ بغیر واسطہ پیغمبر ، تنہا عقلِ انسانی سعادت و نجات کا راستہ معلوم نہیں کرسکتی۔

3۔ حق تعالی کی معرفت تمام مخلوق پر عقلًا واجب ہے اور انبیاء کے بغیر یہ معرفت حاصل ہونا ناممکن ہے۔آج دنیا کی اقوام پر نظر ڈالنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو قوم بھی نبوت و رسالت کی منکر ہوئی اس کو پھر اللہ تعالی کی معرفت میں سے بھی کچھ حصہ نصیب نہیں ہوا۔

امام رازی ؒ فرماتے ہیں:

(من انکر النبوۃ والرسالۃ فھو فی الحقیقۃ ما عرف اللہ عز وجل) تفسیر کبیر : 4/128

“جس نے نبوت و رسالت کا انکار کیا وہ اللہ تعالی کی معرفت سے بے نصیب رہا”

4۔ حافظ ابنِ تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: “مخلوق کو اپنی دین و دنیا میں جس چیز کی ضرورت زیادہ تھی، اللہ تعالی نے اتنی ہی زیادہ تعداد میں اس کو پیدا فرمایا ۔ دینی پہلو سے اللہ تعالی کی معرفت کے بعد سب سے زیادہ ضرورت نبوت کی تھی۔ ایک انسان جب اپنے جیسے دوسرے انسان کی خوشی اور ناراضی کے اسباب بغیر اس کے بتائےنہیں جان سکتا تو خالق کی خوشی و نارضائی کے اسباب بغیر اس کے بتائے کیسے جان سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے انبیاء بھیجے تاکہ ان کے ذریعے اپنی خوشی و ناخوشی کے اسباب کے ساتھ اپنی ذات صفات کا اشرف علم بخشے، حشر نشر، جنت دوزخ، اور انسان کی ابدی زندگی اور عالَمِ غیب کے بے شمار حقائق سے پردہ اٹھادے۔”

5۔ اللہ تعالی کی سنت اسی طرح جاری ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے دوبدو گفتگو نہیں فرماتا ، لہذا اللہ تعالی نے پیغمبروں کو منتخب فرمایا اور ان کے ذریعے وحی نازل فرماکر اپنے بندوں کو نیک و بد اعمال سے آگاہ فرمایا ۔

قال تعالی: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ﴾ الشوری51

6۔ اللہ تعالی کی یہ بڑی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ اپنا نبی اور رسول بنی نوع بشر سے منتخب فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالی فرشتوں یا کسی دوسری مخلوق سے ہمارے لیے رسول بھیجتا تو وہ ہماری عادات اور خصائل سے واقف نہ ہوتے، نہ ان کو ہم پر وہ شفقت ہوتی جو ایک ہم جنس کو دوسرے ہم جنس سے ہوتی ہے، نہ ہمارے لیے اس کی پیروی کرنا آسان ہوتا اور نہ اسے ہماری کمزوریوں کا احساس ہوتا۔ 

قال تعالی:﴿ قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا﴾ الإسراء: 95

ان تمام دلائل سے رسولوں اور نبیوں کی ضرورت اور ان کو بنی نوع بشر میں سے بھیجنے کی حکمت بخوبی واضح ہوگئی۔

واللہ الموفق

بنت عبد القادر عفی اللہ عنہا

دار الافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

6 نومبر 2017ء

اپنا تبصرہ بھیجیں