اپنے  حصےکا کام

 تحریر : مفتی ابو لبابہ  شاہ منصور

عربی کا ایک مقولہ ہے  جو انسان کو اچھی  اور کامیاب زندگی  گزارنے میں بہت  مدد دیتا ہے ” الخیر  فی ماوقع  ” یعنی ”  جو ہوا اسی میں ان شاء اللہ خیر  اور بھلائی ہے ” ۔

اسی  طرح   فارسی اور  ترکی کا ایک مقولہ  ہے  جس کا  ترجمہ کافی  مشہور ہے اورآپ نے بھی کئی بارسنا ہوگا ، لیکن اس  کا مصداق  ترکی میں جاکر  جیسا واضح طور پر  مشاہدے  میں آتا ہے ایساکم ہی کہیں اور نظر آئے گا “۔ دشمن  برا چاہتا ہے،لیکن اللہ رب العزت اس سے بھی خیر سامنے لے آتا ہے۔”

 یہ جملہ  جہاں انسان کو رضا بالقضاء کی تعلیم دیتا ہے اور انسان نامساعد حالات میں شکوہ  شکایت کے بجائے معاملات کو اللہ  پر چھوڑدینے کا  عادی ہوجاتاہے  ،و ہیں اس سے  یہ بات  بھی سامنے آتی ہے  کہ اللہ رب العزت ایسا قادر ومطلق ہے  کہ جس طرح  زندے سے مردہ اور مردےسے زندہ نکال دیتا ہے،ا سی  طرح  خیر سے شراور شر سے خیر  بر آمد کرنے کی قدرت کاملہ صرف  اسی کے پاس ہے ۔

انسان  کو ناموافق حالات میں  اللہ تعالیٰ  پر بھروسہ  کرنا اور اسی سے خیر مانگتے رہنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ  جب چاہیں کایا  پلٹ سکتے ہیں ۔ اندھیرے  سے  روشنی  اور ناامیدی  کے بطن  سے کامیابی  کی نوید  نمودار کرسکتے ہیں  ۔ا س حوالے سے ترکی  میں حالیہ  اسفار میں سامنے آنے والے چند واقعات پیش آنے سے  پہلے عرض  کرنا چاہوں گا  کہ یہ لمبی  تمہید  اس لیے باندھی   کہ آج کل عالمی حالات پر جس جہت سے  نظر دوڑائیں  ۔ مسلمانوں  کے لیے  مایوسی  کے مظاہرے سامنے آتے ہیں ۔ لیکن یہ فقط  ابتلاء ہے جو کبھی  طویل   بھی ہوجاتا ہے ۔ مایوسی   شدید گناہ ہے اورعزیمت   واستقامت  کے ساتھ جہد  مسلسل  ہمارے اسلاف  کی وہ سنت  ہے جو نصرت   کو کھینچ لاتی ہے  او ر فتوحات  کا دروازہ کھول دیتی ہے۔

1 مغرب  کی  طرف  سے ترکی  کے بابائے قوم قرار پانے والے مصطفیٰ کمال پاشا نے  جب 4شرائط  کے تحت  فاتح  کا لقب اور “اتاترک ”  (ترکوں کا  باپ)  کا سابقہ پایا تو  ان شرائط  پر عمل کرتے ہوئے سب  سے پہلے تو خلافت  کوساقط کیا ۔پھر خلیفہ المسلمین کو جلا وطن  کیا۔ عدالتوں  سےترکی کا شرعی قانون تبدیل  کرکے سوئزرلینڈ کا ” مثالی ” قانون  نافذ کیا، اورآخر میں  اسلامی شعائر   زندہ رکھنے والے اداروں یعنی مدارس  وخانقاہوں  پر پابندی   اگرچہ بہت تباہ کن  اقدام تھا ، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ  نے  اہل  حق کے لیے  ایسا راستہ نکال  دیاکہ آج  ترکی کے  اصلاح پسند   جس شہرت، مقبولیت اور کامیابی کے حقدار  ہیں وہ اسی پابندی  کا متبادل استعمال کرنے کامرہون منت ہے۔

ہوا یوں کہ مدارس  پرپابندی اور  علماء کو  شہید  یا پابندسلاسل   کرنے کا عمل  اس خوفناکی اور درندگی  کے ساتھ ہوا کہ نکاح اور جنازہ  پڑھانے والے  بھی کم پڑگئے ۔اتاترک  کو کسی نے مشورہ دیا کہ کم از کم  دینی تعلیم  کی اتنی اجازت   ہو کہ مذہبی رسومات  تو جاری رہ سکیں ورنہ ظلم سہتےعوام میں  بغاوت  پھیل جائے گی ۔چنانچہ امام  خطیب اسکول بنائے گئے  جن میں صرف  اتنی مذہبی  تعلیم  تھی  جن سے   چند مذہبی رسومات ادا  کی جاسکیں ۔ پوری  ترکی کی مساجد  میں امام  صرف وہی لگ سکتا تھا جو ا س اسکول   سے فارغ ہو۔  بڑے بڑے علماء جو مصروشام  یا  بر صغیر سوڈان سے ہی کیوں نہ  پڑھ کر آئے ہوں ، امام  لگنے کے اہل نہ تھے۔ پھر بھی نظریاتی کارکنوں اور علمائے حق نے ہمت نہ  ہاری ۔

انہوں نے انہی اسکولز کو غنیمت سمجھ  کر انہی  طلبہ  پر محنت شروع کردی ۔

انہیں دینی  اورعصری تعلیم  کے امتزاج  کی تحریک نہ چلانی تھی ۔ا نہیں صرف انہی اداروں  کے طلبہ   پر محنت  کرنی تھی  جو جیسی  تیسی  مذہبی تعلیم   کے ساتھ دنیوی  تعلیم پارہے تھے  ۔ا س عاجز  کو بتانے والوں نے بتایا کہ اس زمانے میں علماء و مربیان کرام ایک ایک طالب علم کے لیے  رات رات بھر رو کر دعا  کرتے تھے  کہ اللہ تعالیٰ اسے   برے  ماحول سے بچا کر دین کا داعی  اور خادم بنادے۔ ان کی محنت رنگ لائی ۔ اندھیرے  شر سے خیر   کی روشنی پھوٹی اور انہی طلبہ  سے وہ دنیوی   تعلیم یافتہ  اور دینی تربیت   یافتہ لوگ نکلے  جو آج  تک ترکی  کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ان پر نہ زمانے کے تقاضوں  سے ناواقفیت کا اعتراض ہوسکتا ہے ۔اور نہ شدت پسندی کا طعنہ دیاجاسکتا ہے ، مخالفین  اور جو کچھ کہیں ، لیکن ان کی دیانت  اور قابلیت  دونوں  میں سے کسی  پر انگلی  نہیں اٹھاسکتے  ۔

2۔ عثمانی دور کے شرعی  نطام  کو ختم  کر کے سیکولر  نظام  کو  جبری  طور پر نافذ کیاگیاتھا ۔روس ہو یا ترکی  ،سیکولر اور لبرل ازم کر کے جبر  کے  کندھوں  پر سوار  ہو کرآتا ہے، لیکن  شدت پسند  کے طعنے  اصلاح  پسند  اسلامیوں کو دیتا ہے  ۔ ترکی  میں انتہا  پسندی  کا یہ عالم تھا کہ عربی تو عربی  ہے ، عثمانی  رسم الخط  پر بھی ایسی  پابندی  لگادی گئی کہ آج کی ترکی نسل آباء واجداد  کی تاریخ  سے یکسر نابلد اور لاعلم  ہے ۔ آج کل عثمانی  زبان کی  کچھ نہ  کچھ تعلیم  کہیں کہیں خفیہ طور پر ہورہی ہے۔لیکن   ہمارے  ہاں اردو  کے بجائے رومن  میں اردوزبان لکھنے کا جو رواج چل  پڑ اہے  ۔ اس  کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو  یہ تباہ کن خطرناک  نتائج  کو جنم دے گا۔ ان کا اندازہ  ترکی کی جدید نسل کی قابل  رحم حالت کو دیکھ کر ہوجاتا ہے  جو استنبول  کے پیٹوراما میں سلطان  فاتح  کا کارنامہ دیکھ کر  عش عش کر اٹھتی  ہے ،لیکن  سلطان  فاتح کا آخری خط بنام  قیصر روم جو وہیں  ثبت  ہے ، پڑھ نہیں سکتی ۔

الغرض ! سیکولر ازم  جبری طور پر نافذ کیے جانے اور اسلامی شعائر  کی طرح عربی شعائر پر بھی پابندی  لگنے کے نتیجے  میں وہ اسلام پسند جو تحریکی  ذہن رکھتے تھے نہایت  محتاط ہوگئے س ۔اس کا نتیجہ  یہ ہے کہ آج ان میں رازداری  اور  ہوشیاری اتم درجے  کی پائی جاتی ہے  ۔ اس کا اندازہ  آپ کو تھری  پیس سوٹ  میں ملبوس ان  بغیر داڑھی کے نوجوانوں س سے پہلی ملاقات یا  چندنشستوں میں ہوجائے گا جو صوم وصلوٰۃ کے پابند اور کٹر نظریاتی  ہیں لیکن ان کا  ظاہری  حلیہ کچھ اور ہے اور گفتگو میں وہ حد درجہ  محتاط  اور رویے  میں  بے انتہا  چوکنے ہیں ۔

 3۔گولن  کی بغاوت بہت منصوبہ بند قسم کا فسادتھا جس کے لیے سالہاسال تیاری  کی گئی  تھی لیکن  اس  شر کے بطن  سے جو خیر  پھوٹا ہےا س نے اسلام پسندوں کی مہم  کی ناقابل  یقین  رکاوٹوں  کو ایک رات  میں دور کردیاہے ۔ ان کا  سالوں کا سفر ایک جست  میں طے  ہوگیا۔ا للہ پاک  نےناممکن کی تہہ سےممکن  اور شر کے بطن  سےایسی  خیر برآمد کی ہے جس کا 15 جولائی 2016ء کی رات سے پہلے  تصور  نہ کیاجاسکتا تھا۔گولنسٹ حضرات کے ہوتے ہوئے  جنہیں یورپی  مغربی  دنیا کی مدد اور ترک  معاشرے  میں بے انتہا  نفوذ حاصل تھا۔اردگانیوں کا راستہ  نہایت کٹھن  تھا لیکن دنیا بھر میں ترکی   کے نیک کاموں اورفقراء  ومساکین کی بدولت  اللہ تعالیٰ  نے نہایت  آسانی اور سہولت کا معاملہ فرمادیا۔

 4۔2005 میں  پاکستان  میں خوفناک  زلزلہ آیا  جو اندوہناک  واقعہ تھا ، لیکن  ترک  کارکن  جب پاکستان  پہنچے ۔ اور لوگوں  نے گواہی  دی کہ سب سے  پہلے  شفاف  اور بہت  معیاری  کام انہی کا تھا۔ تو خیر کے بہت  سے وہ دروازے کھل گئے  جن کا پہلے  تصور بھی نہ تھا ۔ آئی  ایچ ایچ  نے زلزلے  میں یتیم ہوجانے  والے بچوں  کے لیے  راوالپنڈی  صدر  کے قریب  افشاں  کالونی  میں ایک  گھر خرید کر ان کی تعلیم  وتربیت کا انتظام  کیا۔  یہ ترک حضرات  کا دنیا میں  پہلا”دارالیتامیٰ ‘ تھا۔ اب  پاکستان  میں وہ چار  ہزار  اور دنیا  بھر میں ایک لاکھ سے زیادہ یتیم  بچوں  کی پرورش  کررہے ہیں اور  اعلیٰ  اور مہنگی  تعلیم سے ان کو آراستہ  کررہے ہیں  ۔

5۔  شام کو جب واقعہ  ہوا تو وہ خوفناکیوں میں انسانی تاریخ   کے الم انگیز تمام واقعات  کو پیچھے چھوڑ گیاہے ۔ خود حدیث  شریف کا مفہوم  ہے کہ جب  شام میں خیر  نہ رہے گی  تو کہیں خیر  نہ رہے گی ۔ اس واقعے کے بعد جب پوری  دنیا نے آنکھیں  بند  کرلیں اور  عالم اسلام نے آنکھیں پھیر لیں  تو ترکی  کے دل میں اللہ نے رحم ڈال  دیا ۔ اتنے میں  پاکستانی  وہاں جا پہنچے ۔ا س سانحے  نے عربی  کو عجمی  سے اورترکی  کو  ہندی سے قریب کردیا۔  پاکستان  اور ترکی  کو قریب لانے کی مہم  کافی عرصے سے  جاری تھی  اور بہت ہی مشکل تھی ۔ا س واقعے نے  سالوں کا فاصلہ   چند مہینوں  میں طے کرادیا۔ اب  ترکی جتنا پاکستانیوں کو قریب سمجھتے ہیں ،اتنا ہمیں شامی بھائی بھی نہیں سمجھتے  ۔

آج کل جہاں جائیں  نوجوان ایک ہی سوال کرتے ہیں  کہ اتنے برے حالات میں جو اس وقت مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں اچھے نتائج کی کیا توقع   ہوسکتی ہے ؟

مندرجہ بالا تین مثالیں  اس بات کی واضح  علامت ہیں  کہ اللہ والوں  کو اپنے کام  میں  لگارہنا چاہیے۔ا للہ پاک جہاں چاہیں ان کی قربانی  قبول  فرماکر  ایسی  شکلیں  پیدا فرمادیں گے جس کا تصور بھی کسی   تحریکی کارکن نے  نہ کیاہوگا۔ جب باطل  کے کارندے  تھکتے   ہیں نہ ہی ہمت ہارتےہیں  تو حق  کے داعیوں کو ان سے کہیں  زیادہ ہمت  اورحوصلے کا مظاہرہ  کرنا چاہیے۔ اصل تبدیلی  توآسمان  سے آنے والے  فیصلے سے ہوتی  ہے ، انسانی جدوجہد کے منطقی نتائج  سے نہیں ۔اس فیصلے کی آمد تک ہمیں اللہ رب العزت   کے کام اس کی حکمت بالغہ  پر چھوڑ کر  اپنے حصے کا کام  کرتے رہناچاہیے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں