عقیدہ تقدیر کی مثال

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۱۶﴾

سوال :-   تقدیر کے عقیدے کو مثال سے کس طرح سمجھا جا سکتا ہے؟

سائل: عبداللہ

ساکن: ناظم آباد

جواب :-       تقدیر کے بارے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی حقیقت  کو صحیح طرح سمجھنا انسانی عقل و سمجھ کی پہنچ سے بہت دور ہے۔کیونکہ یہ خدا کا ایک ایسا راز ہے جو نہ تو کسی مقرب فرشتے پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہے،تو یہ انسانی عقل میں کس طرح آسکتا ہے؟ اسی وجہ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تقدیر کے بارے میں مباحثہ کرتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انتہائی ناراضی کا اظہار فرمایا۔

مشكاة المصابيح – (1 / 36)

  وعن أبي هريرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتى احمر وجهه حتى كأنما فقئ في وجنتيه الرمان فقال: أبهذاأمرتم أم بهذا أرسلت إليكم إنما هلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الأمر عزمت عليكم ألا تتنازعوا فيه» . رواه الترمذي

ترجمہ:حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے دراں حالیکہ ہم مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے حتّٰی کہ چہرہ انور سُرخ ہو گیا گویا کہ رُخساروں میں انار نچوڑ دیئے گئے ہیں اور فرمایا :کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے؟ یا میں اسی کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگوں نے جب اس مسئلہ میں جھگڑے کئے تو ہلاک ہی ہو گئے ۔ میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلہ میں نہ جھگڑو۔

اسی لیے تقدیر کے بارے میں تحقیق و جستجو کو بالکل منع فرما دیا گیا ہے۔ چنانچہ جو علم ایسا ہو کہ عقل و فکر سے اس کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو اس کو مکمل طور پر مثال سے سمجھنا بھی مشکل ہے۔

اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ اگر ایک بچہ جو ابھی بالکل ابتدائی سائنس پڑھتا ہو،وہ”ایٹم بم“ کی حقیقت کو سمجھنا چاہےتو اس کو یہ تو سمجھایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی ہلاکت خیز ”بم “ہے، جس کی تباہ کاری بہت دور تک پھیل جاتی ہے،مگر اس کو مکمل طور پر سمجھانا کہ کس طرح ”عمل انشقاق“( fission) ظہور پذیر ہوتا ہے اور کس طرح یورینیم -235 میں موجود نیوٹران،پلوٹونیم-239 کے نیوکلیس سے ٹکراتے ہیں،جس کے نتیجے میں توانائی کی ایک بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے،یہ ممکن نہیں؛ بلکہ یہ تمام باریکیاں اس بچے کی عقل سے بہت دور ہیں اور کتنی بھی کوشش کر لی جائے اس کا ذہن ان باتوں کو نہیں سمجھ  پائے گا۔

تقدیر کا مسئلہ بھی اسی قسم کا ہے کہ اس کی حقیقت نقلی اور عقلی دونوں اعتبار سے نہایت واضح ہے اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں،اس لیے اس پر ایمان لانا آخرت میں نجات پانے کے لیے شرعاً لازم و ضروری ہے۔لیکن اس کو مکمل طور پر سمجھنا بھی  انسان کی ذہنی سطح کم ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں۔بس آسانی کے لیے یوں سمجھ لیا جائے کہ اگر مکان بنانے کا ارادہ ہوتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ تیار کر تے ہیں،تاکہ مکان کی عمارت اس نقشے کے مطابق بنائی جائے اور پھر اسی نقشے کے مطابق مکان تعمیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے جب اس کارخانہ دنیا کوبنانے کا ارادہ فرمایا تو بنانے سے پہلے اپنے علم ازلی میں اس کا نقشہ بنایا اور ابتداء سے انتہا تک ہر چیز کا اندازہ لگا لیا۔اسی اندازہ خداوندی کا نام تقدیر ہے،کہ تقدیر کے معنیٰ لغت میں ”اندازہ“ کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں اندازہ بنا دیا کہ فلاں وقت فلاں مکان میں فلاں شے اس طرح ہو گی اور فلاں شخص پیدا ہونے کے بعد فلاں وقت میں ایمان لائے گا وغیرہ۔پھر حق تعالیٰ کا اس کارخانہ عالم کو اپنے نقشے اور اندازے کے مطابق بنانے اور پیدا کرنے کا نام قضا ہے اور لغت میں قضا کے معنی ” پیدا کرنے“کے ہیں۔

لہذا اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ قضا و قدر حق ہے اور کوئی ذرہ اس کی تقدیر سے باہر نہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کی قضا و قدر کو ٹال سکے۔مگر چونکہ اس کی تہہ تک پہنچنا انسانی عقل کے لیے ناممکن تھا،اس لیے شریعت نے نہایت شفقت سے اجمالی عقیدہ رکھنے کو فرض قرار دیا اور غور و خوض سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔

لقوله تعالی:

انا کل شيئ خلقناه بقدر۔( القمر:٤٩)

مشكاة المصابيح – (1 / 30)

عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السموات والأرض بخمسين ألف سنة» قال: «وكان عرشه على الماء» . رواه مسلم

مشكاة المصابيح – (1 / 40)

وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من تكلم في شيء من القدر سئل عنه يوم القيامة ومن لم يتكلم فيه لم يسأل عنه» . رواه ابن ماجه

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (1 / 147)

قال في شرح السنة: الإيمان بالقدر فرض لازم، وهو أن يعتقد أن الله تعالى خالق أعمال العباد خيرها، وشرها، وكتبها في اللوح المحفوظ قبل أن خلقهم، والكل بقضائه وقدره، وإرادته، ومشيئته، غير أنه يرضى الإيمان والطاعة، ووعد عليهما الثواب، ولا يرضى الكفر والمعصية وأوعد عليهما العقاب. والقدر: سر من أسرار الله تعالى لم يطلع عليها ملكا مقربا، ولا نبيا مرسلا، ولا يجوز الخوض فيه، والبحث عنه بطريق العقل

فقط والله المؤفق

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں