عقیدہ توحید اور شرک

عقیدہ توحید اور شرک

مفتی انس عبدالرحیم

عقیدے کی اہمیت: انبیاء کرام علیہم الصلوت والتسلیمات کی محنتوں کا اولین مرکز ومحور عقائد ہوتا ہے،آسمانی صحیفوں میں بھی زیادہ تر بیانات عقائد  کی اصلاح   کے ہیں اور قبر میں بجی سب سے پہلے  عقائد کے سوالات  ہوں گے۔عقائد درست ہوں تو  تو دوسرے اعمال بھی درست ہوں تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوتے ہیں،ورنہ کافر اور مشرک  کے  عمل بے کار جاتے ہیں۔کافر ومشرک مذہب کے لوگ جتنے صدقہ خیرات  اور پوجا پاٹ کرلیں۔یہ قیامت میں ان کو عذاب سے بچا نہیں سکیں گے کیونکہ ان  کا عقیدہ صحیح  نہیں۔

بقول شاعر

دل پاک  نہیں تو پاک ہوسکتا نہیں انسان

ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت

عقیدہ توحید:

اسلامی عقائد اور ایمانیات میں سب سے اولین  اور اہم عقیدہ  “عقیدہ توحید ” ہے۔عقیدہ توحید سے مراد یہ ہے کہ  “اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات وصفات میں ایک ماننا  اور ایک جاننا’ یعنی دل  ودماغ  کی گہرائیوں  سے اس کی وحدانیت پر یقین رکھنا اور زبان سے تسلیم واقرار کرنا اور اپنے اعمال  کو اس عقیدے  کے تقاضوں  کے مطابق ہی کرنا یہ عقیدہ توحید ہے۔

وجود باری تعالیٰ: عقیدہ توحید  کی بنیاد  اس بات پر ہے کہ یہ کائنات کسی حادثہ  اتفاقی کے نتیجے میں وجود میں نہیں  آئی  بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔جس طرح بجلی ،بخار،آواز،عقل،روح،خیالات نظر نہیں آتے لیکن ان کا وجود ہے۔اسی طرح اللہ پاک موجود ہیں اگرچہ نظر نہیں آتے۔ جس طرح ایک چھوٹی سی محفل  کسی کے منعقد کئے بغیر سجتی نہیں تو یہ اتنی بڑی کائنات بغیر  کسی ہستی  کے کیسے قائم رہ سکتی ہے وہ “اللہ ” ہی کی ہستی ہے۔

توحید کے چند دلائل :  قرآن کریم  میں جابجا مختلف انداز بیان  اختیار  کرتے ہوئے  توحید کو دلنشین انداز میں ذہن نشین کرایا گیا ہے۔

(1)۔۔۔سورۃ محمد آیت نمبر 19 میں توحید کا علم حاصل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ ترجمہ : “پس جان لو کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے”

اس آیت میں فاعلم صیغہ  امر کے ساتھ توحید کے علم کو لازمی اور فرض قرار دیاگیا ہے۔

(2)۔۔۔ترجمہ : ” اللہ وہ ذات ہے کہ نہیں کوئی معبود  سوائے  اس کے زندہ ہے۔پوری کائنات کو تھامنے والا ہے۔ نہیں پکڑسکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند۔اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ایسا کون ہے جو  سفارش  کرسکے  اللہ کے نزدیک ۔ مگر اس  کی اجازت سے۔اللہ جانتا ہے جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ ان  کے پیچھے ہے اور تمام مخلوق نہیں احاطہ کرسکتے اس کے علم میں سے کچھ بھی  مگر اتنا کہ جتنا اللہ چاہے۔گھیرے ہوئے  ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو اور اللہ کو تھکاتی نہیں ان دونوں کی حفاظت اور اللہ سب سے بلند ہے۔عظمت والا۔ ( سورۃ البقرہ،پارہ 3 آیت نمبر 255)

(3) ترجمہ : فرمائیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بھی شریک  ہوتے جیسا کہ  یہ لوگ کہتے ہیں  تو ان سب  معبودوں نے مل کر عرش والے ( یعنی اللہ تعالیٰ ) تک مخالفانہ  اور مقابلہ   کے طورپر ) راستہ ڈھونڈلیا ہوتا۔ ( پھر نظام کائنات کیسے باقی رہ سکتا ؟ ) ( بنی اسرائیل : آیت نمبر 46 پارہ 15)

(4)۔۔۔۔۔ ترجمہ : “زمین وآسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی  اور معبود ہوت اتو زمین وآسمان کا نظام درہم برہم  ہوجاتا۔ ” (الانبیاء : آیت 22 پارہ 17)

(4)۔۔۔ ترجمہ :  “اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا اور نہ اس کے ساتھ  کوئی اور خدا ہے۔اگر ایسا ہو تا تو ہر خدا اپنی مخلوقات کو جدا کرلیتا اور ( پھر دوسرے مخلوقات چھننے کے لیے ) ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا ” (المومنون : آیت 91   پارہ 18)

شرک کی تعریف  : اللہ تعالٰی کی ذات اس کی خصوصیات یا کسی ایک خاص صفت میں کسی اور کو شریک  ٹھہرانا شرک ہے۔اللہ تعالی ٰکے علاوہ کسی  اور کو نفع ونقصان کا مالک سمجھنا  شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی یا اولاد تجویز کرنابھی شرک ہے۔

مشرکوں کے بے جا عقیدے:

*۔۔۔۔۔مکہ کے مشرک   طواف کے دوران کہا کرتے تھے کہ یا اللہ ! آپ کا کوئی شریک نہیں مگر آپ جس کو اختیار عطا کردیں وہ آپ کا شریک ہے۔ لاشریک لک الا شرکا تملکہ وماملک ۔ مشرکین کی اکثر  یہ دلیل رہی ہے کہ وہ اللہ پاک کو  بادشاہ  اور بتوں  اور نیک لوگوں  کو اللہ کا وزیر  کہتے تھے  اس نظریے  کی تردید قرآن پاک کی سورہ نحل آیت نمبر 74 میں تردید کی گئی ہے۔ ترجمہ : ” سو مت تم بیان کرو اللہ پاک کے لیے مثالیں۔ بے شک اللہ جانتا  ہے اور تم نہیں جانتے ” ( تفسیر کبیر سورہ نحل، پارہ 16۔ آیت نمبر 74 )

*۔۔۔۔ کسی صحابی یا ولی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ پاک  ان کی صورت میں دنیا میں آئے  یا ان  میں حلول کر گئے کفر ہے۔

ترجمہ : تحقیق کافر  ہوئے  وہ جنہوں نے کہا بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہیں  جبکہ مسیح  نے کہا : اے بنی اسرائیل عبادت کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور رب  ہے تمہارا۔ بے شک وہ جس نے  شریک کیا اللہ کے ساتھ  سو تحقیق حرام  کردی اللہ نے اس پر جنت اور ٹھکانہ ہے اس کا آگ  اور نہیں کوئی مددگار ظالموں  کے لیے ۔ ( سورۃمائدہ۔پارہ 6، آیت  نمبر 72)

توحید فی الذات : اللہ پاک کی ذات واحد ہے۔اس کی کوئی نظیر اور مثل نہیں نہ اس کی اولاد ہے اور نہ والد۔ اس عقیدے کو تو حید فی الذات کہتے ہیں جس کی بہت  سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔

ترجمہ : “کیا بنالی ہیں اس نے اپنی ہی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں اور تمہیں نوازا بیٹوں سے۔ ( سورہ زخرف ،پارہ 25، آیت نمبر 16)

ترجمہ : کہہ دیجئے  وہ اللہ ایک ہے ۔اللہ بے نیاز  ہے۔ نہ  اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور  نہیں ہے اس کا ہمسر کوئی بھی۔ (پارہ 30،سورۃ اخلاص ، آیت  1 تا 6 )

ترجمہ : اور یہود ونصاریٰ  کہتے  ہیں  رکھتا ہے اللہ اولاد۔ وہ تو سب  باتوں سے پاک ہے  بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں  ہے ۔سب کے سب اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ ( سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 116،پارہ 1 )

اللہ کے ساتھ کسی اور شریک کرنا سراسر ناانصافی :

*۔۔۔ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں آسکتیں اسی طرح اس جہاں میں ایک سے زیادہ خالق ہو ہی نہیں سکتے ۔

*۔۔۔۔ جب اس کائنات کو تن تنہا اللہ پاک نے بنایا ہے تو نذر ونیاز،عبادت اور سجدہ یعنی ساری  کی ساری  بندگی بھی اسی ایک اللہ  کی ہونی چاہیے۔

*۔۔۔ یہ تو سراسر  ناانصافی ہوئی کہ احسان وانعامات اللہ پاک کرتے ہیں اور پوجا کسی اور کو جارہا ہے۔

بقول شاعر

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

معجزات وکرامات کی حقیقت : اللہ تعالیٰ کسی کا  بھی محتاج نہیں۔جہاں  میں جو کچھ بھی ہورہا ہے صرف اور صرف اللہ کی مرضی  سے ہورہا ہے۔اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا اس کی مصلحت کو ہم  نہیں سمجھ سکتے۔ انبیاء کرام علیہم السلام  سے معجزات اور نیک لوگوں سے کرامات کا ظہور اللہ کی مرضی اور حکم  سے ہوتا ہے۔ بزرگ  ہستیوں کا اس میں کوئی اختیار نہیں۔ اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : عرفت ربی بفسخ العزائم ” میں نے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اپنے رب کو پہچانا “

بقول شاعر

ارادے  باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑدیتا  ہوں

کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے

انبیاء کرام علیہم السلام  کا ایک مقصد :

قرآن کریم میں پچیس (25 سے 26) انبیاء کرام علیہم السلام  کا تذکرہ ہے ۔انبیاء کرام علیہم السلام    کے حالات وواقعات بھی اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کم وبیش اس دنیا میں  ایک لاکھ چوبیش ہزار انبیاء  بھیجے ان سب کا پیغام ایک ہی تھا۔ لاالہ محمد رسول اللہ

نقش توحید  کا ہر دل  پر بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

اللہ تعالیٰ کی خاص صفات:

جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے اسی طرح اللہ کی خاص صفات میں کسی کو شریک کرنا بھی شرک ہے۔ وہ صفات  درج ذیل ہیں ۔

*۔۔۔اللہ کا وجود ازلی اور ابدی ہے۔ (اس صفت کو صفت وجود کہتے ہیں )

*۔۔۔اللہ تعالیٰ بلااسباب ہر چیز کے خالق  ہیں ۔(اسے صفت تکوین کہتے ہیں )

*۔۔۔اللہ تعالیٰ کلام  کرنے میں کسی سبب اور  ذریعے کے محتاج نہیں۔ (اسے صفت کلام کہتے ہیں )

*۔۔۔اللہ تعالیٰ جو چاہیں جب چاہیں کسی کے مشورے کے بغیر  کرسکتے ہیں۔ (اسے صفت مشیت کہتے ہیں )

*۔۔۔اللہ تعالیٰ بلااسباب ہر چیز  سنتے ہیں۔ (یہ صفت سمع ہے )

*۔۔۔اللہ تعالیٰ کو بلااسباب ووسائل ہر ہر چیز کا کلی علم  ہے۔ (یہ علم غیب کی صفت ہے )

*۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ان کی حیات کسی چیز کی محتاج نہیں۔ ( یہ صفت  حیاۃ کہلاتی ہے)

یہ اللہ تعالیٰ کی صفت وحدت کے علاوہ یہ نو صفات خاصہ ہیں۔اگر کوئی ان میں سے  کسی ایک میں بھی  کسی کو اللہ کا شریک سمجھے وہ توحید کے  عقیدے پر قائم نہیں۔

انسان اور اللہ کی صفات میں فرق : تمام اچھی صفات وکمالات اللہ پاک کو حاصل ہیں تمام بری صفات  اور عیبوں سے اللہ کی ذات  پاک ہے ۔

*۔۔۔۔انسان کی ذات اور اس کی ہر ہر چیز عطائی ہے جبکہ اللہ کی تمام صفات ذاتی ہیں وہ بغیر کسی وسائل کے ہر جگہہر چیز کا  کلی علم رکھتے ہیں۔

*۔۔۔۔انسان اور دوسری مخلوقات  ہمارے تصور میں آسکتی ہیں لیکن اللہ کی ذات وصفات ہماری عقل وتصور سے بلند ہے۔

اسی سے ثابت ہو اکہ اللہ کے علاوہ دنیا میں جس کے پاس  بھی  جتنا  بھی علم ہے وہ سب عطائی ہے بلکہ ہر مخلوق اور جہاں کی تمام رنگینیاں  اللہ ہی کی عطا کردہ ہیں وہ ذات ہم سب سے قریب تر ہے لیکن وہ قرب ہماری عقلوں سے بالاتر ہے ۔

نسل نو کے عقائد کی اصلاح :

ہماری نئی نسلوں یعنی معصوم بچوں کے ذہنوں میں اسلامی عقائد جمانے اور راسخ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ مکتب کی تعلیم کے دوران ہی انہیں  سیدھے سادھے اسلامی عقائد ازبر کروائے جائیں۔چاہے انہیں ان کی مکمل سوجھ بوجھ حاصل ہو یا نہیں۔یہی ازبر کی ہوئی مضبوط باتیں شعور اور سمجھ  کی عمر کو پہنچنے  کے بعد خود بخود  ان کے دلوں میں اترتی چلی جائیں گی۔یہ نہایت مجرب طریقہ ہے جسے امام غزالی ؒ نے اپنی شپرہ آفاق  کتاب “احیاء العلوم ” کی پہلی جلد میں ذکر کیا ہے ۔

عوام کے عقائد پختہ کرانے کا طریقہ :

امام غزالی ؒ نے عوام کے عقائد کی اصلاح کا طریقہ  یہ بتایا ہے کہ عوام کے عقائد بحث  ومناظروں سے پختہ نہیں ہوتے۔ بلکہ بحث ومناظرہ سے تو شکوک  وشبہات کے دروازے کھلتے ہیں اس لیے بحث ومناظرہ کی بجائے عوام کو سیدھے سادھے طریقے سے اختلافی  بات سے قطع نظر کر کے عقائد سمجھانے چاہییں اور عقائد کی پختگی  کا طریقہ امام غزالی ؒ نے یہ ذکر کیا ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے۔تفسیر سمجھنے۔ حدیث  پڑھنے ، نیک لوگوں  کی مجلس میں بیٹھنے  سے اسلامی عقائد مضبوط ہوتے ہیں۔

*۔۔۔قرآن میں بار بار تلقین  کی گئی ہے کہ   قدرت  کے نظاروں میں غور  کر کے اللہ پاک کی  معرفت اور اس کی ذات کا یقین  حاصل کیا جائے۔

*۔۔۔ان چیزوں کی تخلیق اور بناوٹ  میں ہم لازمی غور کریں۔آسمان وزمین،بارش کا نظام،پانی کے عجائبات، روح اور جنین،کائنات کی ابتداء،دن رات کی تبدیلی ،ہزاروں قسم کی مخلوقات  اورا ن کا طرز زندگی،ہواؤں کا نظام وغیرہ۔

ان باتوں پر بھی لازمی غور کریں ۔

*۔۔اصحاب کھف کا واقعہ

*۔۔سمندری  موجوں کی  منظر کشی

*۔۔پہاڑوں اور ان کے رنگ

*۔۔بے جان  سے جاندار  کی پیدائش وغیرہ

قرآن کریم کے اندر ایک ہزار  کے لگ بھگ  آیات اللہ جل شانہ کی قدرت کی نشانیوں پر مشتمل ہیں ،ان میں غور وفکر کرتے رہیں نیز  انبیاء کرام  اور سلف صالحین کے حالات  کا مطالعہ کرنا عقیدوں کی پختگی اورا یمان  ویقین  میں مضبوطی پیدا کرنے میں نسخہ اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ہمیں چاہیے  کہ ہم ان باتوں پر عمل  کریں اور اپ نے عقائد کو یقین کی دولت سےمالا مال کریں ۔۔۔۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں