عورتوں کے لئے بال کٹوانے اور اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ کے فعل کی تحقیق

سوال:عورتوں کو کتنے بالوں کے کٹوانے کی گنجائش ہے ؟ لوگ اس کے بارے میں دلائل مانگتے ہیں قرآن و حدیث سے ،اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اگر تین بالشت بال ہو جائیں تو اس کے بعد کٹوانے کی اجازت ہے تو کیا یہ بات صحیح ہے ؟

اور لوگ کہتے ہیں کہ بالوں کا کٹوانا مطلقا ً جائز ہے وہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے بھی کٹوائے تھے تو ان کا یہ کہنا کیا صحیح ہے ؟

الجواب حامدا   ومصلیا

           واضح رہے کہ عورت کے لئے کسی بھی درجہ میں مردانہ مشابہت اختیار کرنے کی صورت میں حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی لعنت وارد ہونے کا حکم لگایا گیا ہے ۔(۱)

            ارشادِ نبوی ہے :

«لَعَنَ اللَّهُ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ والمتشبِّهات من النِّسَاء بِالرِّجَالِ» (مشكاة المصابيح 2 / 1262)

ترجمہ : اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔

اور عورتوں کے بال کاٹنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے نیز اس میں کفار اور فاحشہ عورتوں سے مماثلت و مشابہت ہے جس کی احادیث ِ شریفہ میں ممانعت وارد ہوئی ہے اس لئے عورتوں کے لئے بال کٹوانا کتروانا خواہ سر کے کسی بھی حصہ کے ہوں ناجائز اور حرام ہیں ۔(۲)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 407):

وَفِيهِ: قَطَعَتْ شَعْرَ رَأْسِهَا أَثِمَتْ وَلُعِنَتْ زَادَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ وَإِنْ بِإِذْنِ الزَّوْجِ لِأَنَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ، وَلِذَا يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ قَطْعُ لِحْيَتِهِ، وَالْمَعْنَى الْمُؤَثِّرُ التَّشَبُّهُ بِالرِّجَالِ.

(قَوْلُهُ وَالْمَعْنَى الْمُؤَثِّرُ) أَيْ الْعِلَّةُ الْمُؤَثِّرَةُ فِي إثْمِهَا التَّشَبُّهُ بِالرِّجَالِ

فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ كَالتَّشَبُّهِ بِالنِّسَاءِ حَتَّى قَالَ فِي الْمُجْتَبَى رَامِزًا: يُكْرَهُ غَزْلُ الرَّجُلِ عَلَى هَيْئَةِ غَزْلِ النِّسَاءِ.

لہٰذا جو لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں وہ شرعا ً غلطی پر ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے ، باقی جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے فعل کے حوالہ کا معاملہ ہے تو یہ استدلال اصولِ حدیث کے قواعد کی رو سے کئی وجوہات کی بناء پر مخدوش ہے اس لئے یہ استدلال باطل ہے درست نہیں ہے ۔

        حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے اس کی وجوہات تحریر فرمائی ہیں جو بعینہ سطور ِذیل میں نقل کی جاتی ہیں ۔

            ارشاد فرماتے ہیں :

اس وضع مسؤل عنہ کی حرمت پر دلائلِ صحیحہ قائم ہیں اور جواز کی دلیل میں چند احتمالات ہیں اس لئے حرمت ثابت اور جواز پر استدلال فاسد ، امراوّل کا بیان یہ ہے کہ مبنی اس وضع کا تشبہ بالنساء الکفار ہے جو اہلِ وضع کو مقصود بھی ہے اور اس میں تشبہ بالرجال بھی ہے گو ان کو مقصود نہ ہو اور اطلاق ِ دلائل سے یہ تشبہ ہر حال میں حرام ہے خواہ اس کا قصد ہو یا نہ ہو اور علاوہ تشبہ کے منع پر اور دلائل بھی قائم ہیں ۔

اور امرثانی کا بیان یہ ہے کہ اولا ً راوی نے اپنا مشاہدہ بیان نہیں کیا اور گو راوی حضرت عائشہ ؓ کے محرم ہیں مگر نہ الفاظِ حدیث شمول لعائشہ میں نص ہیں،نہ راوی دوسری ازواج کے محرم ہیں کہ شعور کا مشاہدہ کیا ہو،نہ کسی صاحبِ مشاہدہ کا نام لیتے ہیں ،نہ صاحب ِ مشاہدہ کا ثقہ  غیر ثقہ ہونا معلوم ،نہ یہ معلوم کہ اس نے تحقیق سے کہا ہے یا تخمین سے ، بعض اوقات عورتیں بالوں کو ایسا متداخل کر لیتی ہیں کہ دیکھنے والے کو شبہ تخفیف شعور کا ہوتا ہے ثانیا ً وفرہ بقولِ اسمعی لمہ سے اشبع ہے اور لمہ وہ ہےجو منکبین سے لگتا ہو پس وفرہ منکبین سے بھی نیچے ہوا ،پھر ان شعور کو وفرہ نہیں کہا گیا بلکہ کالوفرہ یعنی مشابہ وفرہ کے کہا گیا تو اس میں یہ بھی احتمال ہوگیا کہ وفرہ سے بھی نیچے ہوں بلکہ غور کرنے سے بھی احتمال راجح بلکہ مثل متعین کے ہے کیونکہ اگر وفرہ سے کم ہوئے تو اس کے لئے تو لعنت موضوع ہے مثلا ً لمہ کو لمہ سے تعبیر کیا جاتا ، کالوفرہ کہنے کی کیا ضرورت تھی او ر وفرہ سے زائد کیلئے کوئی لعنت نہیں اس لئے اس کو کالوفرہ سے تعبیر کیا گیا۔(امداد الفتاویٰ۔ص:۲۲۷ج:۴

التخريج
(۱)صحيح البخاري (7 / 159):
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ»
سنن أبي داود (4 / 60):
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «أنه لعن المتشبهات من النساء بالرجال، والمتشبهين من الرجال بالنساء»
مسند أحمد (4 / 123):
عن ابن عباس: ” أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لعن الواصلة والموصولة، والمتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال “
(۲)البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8 / 233):
وَإِذَا حَلَقَتْ الْمَرْأَةُ شَعْرَ رَأْسِهَا فَإِنْ كَانَ لِوَجَعٍ أَصَابَهَا فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ حَلَقَتْ تُشْبِهُ الرِّجَالَ فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَإِذَا وَصَلَتْ شَعْرَهَا بِشَعْرِ غَيْرِهَا فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَاخْتَلَفُوا فِي جَوَازِ الصَّلَاةِ مِنْهَا فِي هَذِهِ، وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ يَجُوزُ.
الفتاوى الهندية (5 / 358):
وَلَوْ حَلَقَتْ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا فَإِنْ فَعَلَتْ لِوَجَعٍ أَصَابَهَا لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ تَشَبُّهًا بِالرَّجُلِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ كَذَا فِي الْكُبْرَى.

اپنا تبصرہ بھیجیں