بعض سوالات کے جوابات

بعض مخلصین نے ذہنی خلجان کو دور کرنے کے لئے کچھ سوالات کئے تھے ان سوالات کا جواب دینے کے لئے اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے دیوبندی مکتب فکر کے ایک جید عالم دین حضرت مولانا عبد الحیؒ کا مکالمہ جو ایک سائل سے ہوا تھا پیش کرتا ہوں، حضرت مولانا عبد الحی لکھنویؒ سے کسی نے حدیث کے متعلق سوالات کئے ہیں اور حضرتؒ نے ان کو جواب دیا ہے، یہ مکالمہ ہمارے موضوع سے تعلق رکھتا ہے، اور ہمارے بہت سے دماغ میں گردش کرنے والے سوالات کا جواب بھی ہے اس لئے اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے، اسی سے سوالات کا حل نکل آئے گا ۔

سائل : یوم عاشورا میں نماز کی تعداد اور اس کا طریقہ بتائیےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ ان کا کیا ثواب ہیں ؟

مجیب: یوم عاشوراء میں کوئی خاص نماز کمیت و کیفیت کی تعیین کے ساتھ مروی نہیں ہے، اور جو روایات مروی ہے وہ موضوع اور من گھڑت ہے اس پر عمل کرنا اور اس پر اعتماد کرناجائز نہیں ہے۔

سائل : یوم عاشوراء کو دن اور رات کی مخصوص نمازیں اسی طرح دیگر ایام کی بعض مخصوص نمازیں صوفیائے کرام نے اپنی کتابوں میں بیان فرمائی ہیں، اور ان کے متعلق روایات بھی بیان فرمائی ہے، پھر کیسے ان پر عمل ناجائز ہوگا، اور کیسے ان کے موضوع اور من گھڑت ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

مجیب: ان کے بیان کرنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا ، اس لئے کہ وہ نہ تو خود محدثین میں سے ہیں اور نہ کسی محدث کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے۔

سائل: کیا حاضر دماغی سے باتیں کررہے ہو، اگر ان اکابرین کے بیان کا اعتبار نہیں ہوگا تو پھر کون ہیں جن کے بیان کرنے پر اعتماد کیا جائے ۔

مجیب : یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہر فن کا کسی نہ کسی کو ماہر بنایا ہے، کتنے علم فقہ کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے والے احادیث کی تنقید میں مہارت نہیں رکھتے، اور کتنے ماہر نقاد محدثین کو علم فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کتنے علم تفسیر کے شہسوار حدیث میں صحیح و سقیم کی تمیز پر قادر نہیں ہیں، اور کتنے علوم باطنیہ میں مہارت رکھنے والے صوفی علوم ظاہری میں عاجز نظر آتے ہیں، پس ہر ایک کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا چاہئے، (یعنی دوا صحیح ہے یا غلط اس کو معلوم کرنے کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے نہ کہ انجینئرکے پاس)۔

سائل: پھر تو تعجب اور بڑے تعجب کی بات ہے کہ یہ مصنفین جو بڑے صوفیاء میں شمار ہوتے ہیںاور اولیاء اللہ کی فہرست میں ان کا نام لیاجاتا ہے، جو علوم باطنی کے علم بردار ہیں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے، جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا بڑا گناہ ہے۔

مجیب: ہر گز نہیں وہ حضرات تو اس سے منزہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کوئی جھوٹ باندھے، اور جو بھی ان حضرات کی طرف وضع حدیث کی نسبت کرے وہ بڑا بد بخت انسان ہے۔

سائل: اگر یہ حضرات جھوٹ گھڑنے والے نہیں ہیں تو پھر کون ہے ان کا گھڑنے والا؟

مجیب: ان کو گھڑنے والے جاہل صوفیاء ہیںجو اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے لوگوں کو عمل پر آمادہ کرنے کے لئے حدیث گھڑنے کو جائز سمجھتے تھے، بلکہ اس کو ثواب کا کام سمجھتے تھے، یا ملحدین اور زنادقہ ہیں جنہوں نے دین کو نقصان پہنچانے کے لئے حدیثیں گھڑیں۔

سائل: پھر ہمارے مشائخ نے ان احادیث کو کیسے قبول کردیا، اور اپنی کتابوں میں انہیں کیسے جگہ دے دی؟

مجیب: اس لئے کہ وہ ہر مومن کے ساتھ حسن ظن رکھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ مومن ہرگز نبی ﷺ پر جھوٹ نہیں بول سکتا۔

سائل: بعض صوفیاء نے تو احادیث کی سندیں بھی بیان کی ہیں، پھر ان سند کے ہوتے ہوئے کیسے غیر معتبر کہہ سکتے ہیں؟

مجیب: جس نے سند بیان نہیں کی ہے اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، اس لئے کہ اس کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان اتنے سارے جنگلات ہیں جن کو عبور کرنے سے پہلے ہی سواریاں سانس توڑ دیتی ہیں، اور جس نے سند کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی سند کے رواۃ کی تفتیش کی جائے گی۔ (الآثار المرفوعۃ)

اپنا تبصرہ بھیجیں