بینک کی ملازمت کا حکم 

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:150

مجیب 

مولا نامحمد عالمگیر چنیوٹی صاحب

دارالافتاء دارالعلوم کراچی ١٤ 

مصدقہ

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم

دارالافتاء دارالعلوم کراچی١٤

ناشر 

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی ۱۴

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں:

(ا) کہ زید بنک میں ملازم ہے، کیا بنک کی نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں، اور وہاں کی آمدنی زید کے لئے حلال ہے، یا کہ نہیں؟ چونکہ زید بنک میں چوکیدار ہے۔

(۲) زید عرصہ بیس سال سے بینک میں ملازم ہے، اس عرصہ میں حاصل شدہ آمدنی سے زیدنے دکا نیں ، مکان بنائے ہیں ، اور اب ان کا کرایہ بھی وصول کررہا ہے، یہ کر ایہ کی رقم زید کے لئے حلال ہے یا نہیں؟ 

(۳) بینک میں چیڑاسی، چوکیدار، کیشیئر ، بینک منیجر کی نوکریوں میں سے کونسی نوکری کی آمدنی حلال ہے اور کس نوکری کی آمدنی حرام ہے؟ جب کہ بینک کی تنخواہیں سودی رقم سے ادا کی جاتی ہیں۔

لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں ان مسائل کی وضاحت فرمائیں۔

المستفتی: شکیل احمد چھاچھی ضلع اٹک

الجواب حامد او مصليا

(١ تا ٣ ) بینک کی ایسی ملازمت جس کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے ہے، جیسے منیجر اور کیشئیر وغیرہ کی ملازمت، ایسی ملازمت بالکل حرام اور

ناجائزہےچنانچہ ایک حدیث میں ہے:

“لعن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آكل الربوا وموكله وكاتبه وشاهديه و قال: هم سواء “

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود دینے والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پرلعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب لوگ ( گناہ میں) برابر ہیں۔ “

اور ایسی ملازمت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے، لیکن بنک کی وہ ملازمت جس کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے نہیں، نہ اس کا تعلق سود کے لکھنے سے ہے، نہ سود پر گواہ بننے سے، اور نہ سودی معاملات میں کسی قسم کی شرکت ہوتی ہے، جیسے چوکیدار کی ملازمت، ایسی ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے متعلق علماء کرام کی آرا مختلف ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس کا سودی معاملات سے کسی قسم کاتعلق نہیں ، یہ بھی جائز نہیں، کیونکہ ایسے ملازمین کا اگر چہ سودی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں لیکن انہیں جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ ان رقوم کے مجموعہ سے دی جاتی ہے جو بنک میں موجود ہوتی ہیں، اور اس میں سودبھی شامل ہوتا ہے ،اس لئےایسی ملازمت بھی جائز نہیں، جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ بینک کی صرف ایسی ملازمت جس کا سودی معاملات سے کسی قسم کا تعلق نہیں، یہ جائز ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملازمین کو جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ اگر چہ ان رقوم کے مجموعہ سے دی جاتی ہے، جو بنک میں موجود ہوتی ہیں ، لیکن بنک میں موجود رقوم ساری کی ساری سودی نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں کئی قسم کی رقمیں مخلوط ہوتی ہیں ، بنک میں موجود وہ رقوم بھی ہوتی ہیں جو لوگوں نے اپنے کھاتوں میں جمع کروائی ہوئی ہیں ،یعنی بنک نے وہ قرض کے طور پر لی ہوئی ہیں، اور وہ رقوم بھی ہوتی ہیں، جو بنک مالکان کا اصل سرمایہ ہیں، اور وہ رقوم بھی ہوتی ہیں، جو بطور سود کے حاصل کی گئی ہیں لیکن بنک میں جمع شده ان مخلوط رقوم میں اکثر پہلی دوقسم کی ہوتی ہیں ، اور آخری قسم کی رقم ان کی بہ نسبت کم ہوتی ہے اس لئے بنک میں موجود قوم میں اکثر رقوم حلال ہوتی ہیں ، لھذا اگر اس مجمومی مخلوط رقم سے ایسے ملازم کو تنخواہ دی جاتی ہے جس کا سودی معاملات سےکسی قسم کا تعلق نہیں تو اس کے لئے ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ حرم اور نا جائز نہیں البتہ بہتر یہی ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت بھی اختیار نہ کی جائے ،لہذا صورت مسئولہ میں زید کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ کسی دوسرے حلال ذریعۂ معاش کو تلاش کرنے کے بعد بنک کی اس ملازمت کو ترک کر دے لیکن بعض علماء کرام کی رائے کے مطابق چونکہ بنک کی چوکیداری کی ملازمت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، اس لئے اس ملازمت سے حاصل ہونے والی آمدنی ناجائز اور حرام نہیں ، اس لئے اب تک زید نے اس آمدنی سے جو مکان اور دوکا نیں بنائی ہیں ، ان کا کرایہ بھی اس کے لئے حرام نہیں ۔فقط 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم 

محمد عالمگیر چنیوٹی غفرلہ

دارالافتاء دارالعلوم کراچی 

١٩/٢/١٤١٧ ھ

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/609732412729341/

اپنا تبصرہ بھیجیں