بینک میں ملازمت کرنا کیسا ہے ؟

فتویٰ نمبر: 444
 
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
الجواب حامداًو مصلّیاً

سودی بینک میں ملازمت سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ:

(۱لف): اگر ملازم کا تعلق براہ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے نہ ہوجیسےچوکیدار،ڈرائیور،نئے نوٹ چھاپنا،اسکی کاپی دینا،پرانے نوٹ تبدیل کرنا ،حکومت کےجائز ٹیکس وصول کرنا،صفائی اور چائے بنانےوالاوغیر ہ ہو تواس ملازمت کی گنجائش ہے ، اوراس پر ملنے والی تنخواہ بھی حلال ہے۔

(ب):اور اگر ملازم کا تعلق براہِ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے ہو مثلا ً جیسے مینیجر،کیشئر ،اکاؤٹنٹ، سودی قرضہ فراہم کرنا،اصل سودی بینکنگ سسٹم کی کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والاوغیرہ تویہ ملازمت ناجائز ہے ،اور اس پر ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے۔
اور جہاں تک غیر سودی بینکوں کا میں ملازمت کا معاملہ ہے تو اس میں اصولی جواب یہ ہے کہ جن بینکوں کے طریقہ ہائے تمویل اور دیگر مالی معاملات کی نگرانی اور ان کی اصولِ شرعی کے مطابق عملی تطبیق کسی مستند عالمِ دین کی نگرانی میں ہورہی ہو اور بینک ان کی ہدایات کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہو اور ان پر پوری طرح عمل کرتا ہو اور عالمِ دین بھی ان تمام باتوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوں اور آپ کو ان علماء کے علم و تقویٰ پر اعتماد بھی ہو تو آپ ان غیر سودی بینکوں کے ساتھ مالی معاملات اور ملازمت کر سکتے ہیں۔
====================
القران الکریم:
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}
====================
احکام القرآن (3/79):
ثم السبب القریب ایضاً علی قسمین:سبب محرک وباعث علی المعصیة بحیث لولاہ لما اقدم الفاعل عین ھذہ المعصیة۔۔۔۔۔۔وسبب لیس کذلک ولکنه یعین لمرید المعصیة ویوصله الی ما یھواہ۔۔۔۔۔ فالقسم الاول حرام بنص القرآن،والثانی ان کان بحیث یعمل به من دون احداث صنعة منه یلتحق به یکرہ تحریما،وان کان یحتاج الی عمل وصنعة یکرہ تنزیها
====================
احكام القرآن( 3/78)
وحاصل ما قلناه كله :ان الاعانة علي المعصية لا تتحقق الا بنية الاعانة حقيقة او حكما ،بان يصرح بقصدالمعصية سواءقصدها اولا ،اوكان المحل مخصوصا بالمعصية لا يستعمل الا فيها
====================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی

 

اپنا تبصرہ بھیجیں