بڑی کمپنیوں سے مقابلہ

 جاپان  نے کاروبار  میں سوچنے کا نیا انداز دیا۔ٹیوٹا نے اس طریقے  کو اپنا یا اور ایک عالم    کو حیران   کردیا۔ دنیا نے اس  طریقے  کو ” جسٹ ان ٹائم ” کا نام دیا۔JIT  کا طریقہ یہ ہوتا کہ جب ٹیوٹا کمپنی   کو کار بنانا ہوتی  تو اس کا  سپلائی   چین  ڈپارٹمنٹ  فوری  مطلوبہ  پر زے  فراہم  کردیتا ۔ اس طریقے  نے کام  کے معیار   ،اہلیت  اور نفع   کو بڑھادیاکارتیار  ہونے  کے بعد کمپنی  کی ذمہ داریہ ختم   اور رقم  کی وصولی   تک  تمام مراحل  آؤٹ  سورس  ہوتے ہیں  یعنی   دوسری کمپنیاں  سر انجام   دیتی ہیں۔ پچاس سال تک دنیا بھر  میں یہ نظام  رائج   رہا۔اس کے بعد اپیل  نے انقلاب   برپا کردیا۔ ایپل  نے جاپانیوں  کا طریقہ  کار الٹ  دیا۔پروڈکٹ  بننے  سے پہلے  ایپل   کا تمام کام آؤٹ سورس  ہوتا ہے   یعنی  دوسری کمپنیاں  کرتی  ہیں ، مگر  پروڈکٹ   بننے  اور اس  کے بعد   اسے بیچنے  اور خریدار   تک پہنچانے  کا کام ایپل  خود کرتی ہے ۔ اس طریقے   نے ایپل  کو دنیا  کی سب سے بڑی   کمپنی بنادیا۔ 2012ء میں ایپل  کے شیئرز  دنیا کے  مہنگے  ترین شیئرز کہلائے ۔ دنیا بھر  میں ہر گزرتے  سیکنڈ  میں 9  سے بھی  زیادیہ آئی  فون بکتے  ہیں۔  حیران  کن ترقی   کے باوجود حیرت کی بات  ہے کہ آئی  فون کی فیکٹریاں  نہیں ہیں۔ ایپل  اپنے  سخت حریف   سام سنگ،ایل جی  اور شارپ  وغیرہ   سے موبائل   کے مختلف  پرزے  بنواتی ہے ۔ جب  موبائل بن جاتا ہے  تو پھر  ایپل کمپنی  کا کام شروع  ہوتا ہے ۔ فیکٹریاں  نہ بنانے   اور آؤٹ  سورس کرنے کا نتیجہ  ہے  کہ اس وقت  ایپل  کے دنیا  بھر  میں صرف  ایک لاکھ  ملازم ہیں، جبکہ  اس کے مقابلے  میں کئی گنا چھوٹی   کمپنی  سام سنگ  کے پاس چار لاکھ  سے زائد  اور فوکس کون کے  12 لاکھ ملازم  ہیں۔ایپل  کا ابتدائی   کام پانچ  بر اعظموں   پر پھیلے  30   مختلف ممالک  میں اور 18 سے زائد  مختلف فیکٹریوں   میں دوسرے  مکمل  کررہے   ہوتے ہیں۔

 دنیا  کو چند  ملٹی نیشنل  کمپنیوں  نے اپنی گرفت   میں لے رکھا ہے ۔ا ب یہ بات ڈھکی چھپی   نہیں رہی  کہ صرف  دس ملٹی  نیشنل کمپنیاں  ہی دنیا کی اصل   حکمران  ہیں۔ حیرت  کی بات  ہے کہ یہ دس کی دس کمپنیاں   امریکا  سے تعلق رکھتی ہیں۔  گویا صرف دس آدمیوں  نے امریکا   کو معاشی   جن بنادیا ہے۔ ملین  ڈالر  کا سوال  ہے کہ ایسے دس آدمی  پاکستان   میں کیوں نہیں سامنے آرہے  ؟؟؟ پاکستانیوں  میں کون سی  صلاحیت  کی کمی ہے  ؟ یہاں  عالمی معیار   کی کمپنیاں  بنانے  کے رستے  میں کون رکاوٹ   ہے  ؟ ہم  خود  یا بیرونی   طاقتیں  ؟

 معاملہ  دین کا ہو یا دنیا کا ، محنت  ہی کامیابی  کی کنجی  ہے۔ اسلام دین   اور  دین   میں کوئی   تفریق نہیں کرتا ۔ مسلمان  کی تجارت  بھی عبادت   ہے اور اس کا سونا بھی ثواب  ہے۔اللہ تعالیٰ کا راشاد ہے   : ”  اور اللہ  نے تمہیں  جو کچھ دے رکھا ہے ، اس کے  ذریعے آخرت  والا گھر  بنانے  کی کوشش کرو، اور دنیا   میں سے   بھی اپنے  حصے  کو نظر انداز نہ کرو۔” (القصص  :77)

مسلمانوں کو یہ حکم   ہے کہ دنیا  میں جوکام بھی  کریں ، اس میں مہارت  پیدا  کریں ۔ وقت  ہر گز  ضائع نہ کریں ۔ حضور ﷺ  نے وقت  کو نعمت  قرار دیا ہے  اور اس  کی قدر   کرنے کا  حکم  دیا ہے ۔ آپ   تاجر ہیں   تو بھرپور محنت  کریں ۔ اپنی کمپنی  کو دنیا کی بہترین   کمپنی بنانے کی فکر  کریں ۔ حضور ﷺ نے بھی یہی پیغام  دیا ہے :

“حضرت  انس بن مالک رضی اللہ عنہ  حضور ﷺ کا یہ فرمان   نقل کرتے ہیں  :” اگر قیامت  بپا ہوجائے  اور کسی شخص  کے ہاتھ میں پودا ہے  جسے وہ لگانا چاہتا تھا، تو اسے چاہیے کہ  پواد  لگائے  بغیر  کھڑا نہ ہو۔”  (الادب المفرد   للبخاری ، رقم الحدیث  :475) یعنی   آخری سانس تک محنت   کیجئے ، جب  تک دم  میں دم  ہے کام کرتے  رہیں ۔

اچھی نیت  کے ساتھ تجارت کرنا  بھی عبادت  ہے۔اپنے   اور ملازمین   کے اہل خانہ  کے رزق کا ذریعہ  بننا بلاشبہ  نیکی  ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ نیکی کے کاموں  میں ایک دوسرے  سے آگے بڑھو۔ ایپل ، مائیکرو سافٹ  اور گوگل  سے آگے بڑھنے   کی کوشش کیجئے  ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں