بے جا طلاق پر جرمانہ

مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی

بے جا طلاق پر جرمانہ

سوال:- آج کل سماجی بگاڑ بہت بڑھ گیا ہے ، لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف باقی نہیں رہا ، اس کی وجہ سے طلاق کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے ، بلا قصور طلاق دے دی جاتی ہے ،ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں ، طلاق کے بعد مرد پر کوئی بڑی مصیبت نہیں آتی  لیکن عورت کے لئے یہ بڑی آزمائش ہوتی ہے اور وہ نہ صرف اپنا بوجھ اُٹھاتی ہے بلکہ اکثر اگر چھوٹے بچے اس کی پرورش میں ہوں تو اسی کو ان کی ضروریات کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے  اگر عورت کورٹ کے ذریعہ نفقہ حاصل کرے تو یہ جائز نہیں اور اگر سماج اور خاندان کے لوگ جسمانی سزا دیں تو یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے  ایسی صورت میں کیا مرد پر مالی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے کہ اس سے جرمانہ لیا جائے اور اس کی بیوی کو دے دیا جائے ؟ (ریاض احمد قاسمی ، دہلی)

جواب :- واقعی یہ مسئلہ بڑا اہم ہے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ طلاق کے جو واقعات فریقین کی رضامندی یا باہمی مصالحت کے بغیر پیش آتے ہیں وہ تقریباً نوے فیصد مرد کی زیادتی پر مبنی ہوتے ہیں ،اور یہ بھی صحیح ہے کہ عملاً اس کی سزا عورتوں کو بھگتنی پڑتی ہے اب جہاں تک مالی جرمانہ کی بات ہے تو قرآن مجید میں مالی جرمانے کے جائز ہونے کا صریح ذکر ہے اور نہ اس کے ناجائز ہونے کا ، حدیث میں صراحتاً تو مالی جرمانے کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے  لیکن مختلف جرائم پر مالی سرزنش کی بنیاد حدیث میں موجود ہے جیسے آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا میں اس سے زکوٰۃ بھی لوں گااور اس کے مال کا کچھ حصہ بھی بطور جرمانہ کے لوں گا

’’ ومن منعھا فانا آخذھا وشطر مالہ غرمۃ من غرمات ربنا عزوجل‘‘ ( ابوداؤد ،کتاب الزکوٰۃ باب زکوٰۃ السائمۃ :،حدیث نمبر:۱۵۷۵ )

جرمانہ ہی کی ایک شکل یہ ہے کہ جس نے مال غنیمت میں سے چوری کی ہو تو آپ انے فرمایا کہ اس کے سامان جلادو اور اس کی پٹائی بھی کرو :

’’ حرقوا متاع الغال وضربوہ‘‘ (ابوداؤد ، عن عمرو ابن شعب ، باب عقوبہ الغال : کتاب الجھاد،۲۷۱۵)

اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ ابتداء اسلام میں مالی جرمانہ عائد کرنا جائز تھا : ’’ التعزیر بأخذ المال کان فی ابتداء الاسلام ، ثم نسخ ‘‘ ( النہر الفائق : ۳؍۱۶۵) بعد کو چل کر چوںکہ سرکاری افسروں نے اس کا غلط استعمال کرنا شروع کردیا، وہ جرمانہ کے نام پر لوگوں سے ظلماً مال لے لیتے اور اس کو اپنے استعمال میں لاتے  اس لئے علماء نے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا 

’’ ولا یفتی بھذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ‘‘ ( ردالمحتار : ۴؍۶۱)

فقہاء میں امام ابویوسفؒ مالی جرمانہ کو جائز قرار دیتے ہیں : ’’ روی عن أبی یوسف أن التعزیر من السلطان بأخذ المال جائز‘‘ (البحر الرائق : ۵؍۴۴)

امام ابویوسف چوںکہ خود قاضی تھے اور انھیں مجرموں سے نمٹنا پڑتا تھا  اس لئے بظاہر ان کی رائے تجربہ پر مبنی ہے ۔

موجودہ دور میں خاص کر غیر مسلم ممالک میں ایسے خدا ناترس لوگوں کو اس کے سوا سزا دینے کی کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے، جسمانی سزا دینا خلافِ قانون بھی ہے اور اس سے مظلوم عورت کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا ، اگر مالی جرمانہ عائد کیا جائے ، دارالقضاء ، شرعی پنچائت یا مسلمانوں کے معتبر ادارے اور تنظیمیں اس کا فیصلہ کریں اور وہ رقم مطلقہ عورت کو حوالہ کردی جائے تو مرد کی سرزنش بھی ہوگی اور عورت کو کسی حد تک سہولت بھی حاصل ہوگی  اس لئے موجودہ حالات میں طلاق کے بے جا استعمال پر مالی جرمانہ عائد کرنے کی گنجائش نظرآتی ہے ؛ البتہ عوام اس کا فیصلہ نہ کریں ، دارالقضاء ، محکمہ شرعیہ یا مسلمانوں کے کسی معتبرادارہ کو مرد کی زیادتی کی تحقیق کرکے اور اس کی مالی استطاعت کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہے ، واللہ اعلم بالصواب ۔

دوسرے مذاہب کی کتابوں کی ڈیزائننگ اور کمپوزنگ

سوال:- جو مسلمان آئی ٹی ماہرین ڈیزائننگ اور کمپوزنگ کا کام کرتے ہیں ان کے پاس بعض دفعہ غیر مسلم حضرات کی جانب سے ان کے مذہبی لٹریچر کی کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کا کام آتا ہے  کیا ایسا کام قبول کرنا اور اس کی اُجرت لینا جائز ہے ؟ ( رفیق احمد ، ہائی ٹیک سٹی )

جواب :- چوںکہ کمپوزنگ اور ایسی ڈیزائننگ جس میں ذی روح کی تصویر شامل نہیں ہو اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے اس لئے مسلمانوں کے لئے بہتر تو اس سے بچنا ہے  لیکن ایسا آرڈر لینے کی گنجائش ہے اور اس کی آمدنی حلال ہے ،

علامہ ابن نجیم مصریؒ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص یہودی و عیسائی چرچ کی تعمیر اُجرت پر کرے تو جائز ہے اور اُجرت بھی اس کے لئے حلال ہے 

’’ لو استأجر المسلم لیبنی لہ بیعۃ أو کنیسۃ جاز ویطیب لہ الأجر‘‘ ( البحر الرائق : ۸؍۲۳)

اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھا گیاہے کہ اگر مسلمان چرچ میں کوئی اور ایسی خدمت انجام دے جس پر اس کو اُجرت حاصل ہو تو یہ بھی جائز ہے : ’’ لو اٰجر نفسہ لیعمل فی الکنیسۃ ویعمّرھا لا بأس بہ لأنہ لا معصیۃ فی عین العمل‘‘ ۔ ( ردالمحتار : ۶؍۳۹۱ )

کپڑا سِلنے کو دیا جائے اور واپس نہ لیا جائے

سوال:- میں ایک ٹیلر ماسٹر ہوں ، بعض دفعہ لوگ مجھے کپڑے سِلنے کودیدیتے ہیں اور واپس لینے نہیں آتے ، مدت گذر جاتی ہے ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ، کیا میں اس کپڑے کو خود استعمال کرسکتا ہوں ؟ ( شمیم اختر ، یاقوت پورہ)

جواب :- اگر کوئی شخص امانت رکھ دے اور واپس نہ لے تواس کا وہی حکم ہے جو گری پڑی چیزوں کا ہوتا ہے ، جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’لقطہ‘‘ کہتے ہیں ، اگر کپڑا دینے والے شخص کا پتہ معلوم ہو تو اس کو دینے اور باخبر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اور اگر اس کا پتہ معلوم نہیں ہو اور آنے کی اُمید بھی نہیں ہوتوصدقہ کردینا چاہئے   البتہ ایسی صورت میں اگر وہ بعد میں آجائے تو اسے سمجھانا چاہئے کہ وہ اس صدقہ کو قبول کرلے؛تاکہ اس کو اس کا ثواب پہنچ جائے ،اور اگر وہ اس کو قبول نہیں کرے تو پھر اس کو اس کی قیمت ادا کردی جائے اور یہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا : ’’ فإن جاء صاحبھا وإلا تصدق بھا ، ایصالا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان … فإن جاء صاحبھا یعنی بعد ما تصدق بھا ، فھو بالخیار إن شاء أمضی الصدقۃ ولہ ثوابھا؛لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم یحصل بإذنہ فیتوقف علی اجازتہ ‘‘ ( الہدایہ : ۲؍۲۱۸) — بہتر صورت یہ ہے کہ آپ کپڑے لیتے وقت ایک فارم پر گاہک سے دستخط کروالیں کہ کپڑا دینے کی جو تاریخ ہے ، اگر آپ اس تاریخ پر نہیں آئے تو ایک ماہ تک انتظار کیا جائے گا ،اگر آپ نہیں آئے تو اس کپڑے کو فروخت کرکے سلائی کے پیسے لے کر بقیہ پیسے آپ کی طرف سے صدقہ کردیا جائے گا ، اگر وہ اس پر دستخط کردے تو یہ زیادہ بہتر شکل ہوگی ؛ چوںکہ اس صورت میں صدقہ کرنے میں اس کی مرضی شامل ہے ؛ اس لئے اگر صدقہ کرنے کے بعد وہ آجائے تو پھرآپ کے لئے اس کی قیمت ادا کرنا واجب نہیں ہوگا ۔

مہر میں مکان ، زمین وغیرہ دینا

سوال:- آج کل بہت سے لوگ مہر میں پیسے دینے کے بجائے زمین کے پلاٹ یا فلیٹ دے رہے ہیں ، کیا اس طرح مہر مقرر کرنا درست ہے ؛ حالاںکہ اس سے اندیشہ ہے کہ زیادہ مہر رکھنے کا مزاج بنے گا اور شادی مزید شوار ہوجائے گی ؟ ( زبیدہ خاتون ، نامپلی)

جواب :- کوئی ایسی چیز جو شریعت کی نظر میں مال ہو اور قابل قیمت ہو مہر ہوسکتی ہے ؛ بشرطیکہ اسے متعین کردیا جائے ، چاہے سونا چاندی ہو ، سکہ ہو ، زیورات ہوں ، جانور ہو ، زمین و مکان ہو یا کپڑے وغیرہ ہوں : ’’ المھر: وھو کل مال متقوم معلوم مقدور علی تسلیمہ ، فیصح کون المھر ذھبا أو فضا … حیوانا أو عقارا ، أو عروضا تجاریۃ کالثیاب وغیرھا ‘‘ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۹؍۶۷۶۹) اس لئے پلاٹ اور فلیٹ وغیرہ کے ذریعہ مہر مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں ؛ بلکہ یہ بہتر ہے؛ کیوںکہ آج کل عموماََکرنسی میں مہر مقرر کیا جاتا ہے اور اسے اُدھار رکھا جاتا ہے ،اس میں عورت کا سخت نقصان ہوتا ہے ؛ کیوںکہ اگر مہرتاخیر سے ادا کیاگیا،اورعام طورپرایساہی ہوتاہے تو اس کی قدر نہایت کم ہوجاتی ہے ،اور یہ یقینا عورت کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے ؛ البتہ مہر کی مقدار ایسی ہونی چاہئے جو مرد کی مالی گنجائش سے ہم آہنگ ہو ، ایسی مقدار نہ ہو جسے وہ ادا ہی نہ کرپائے ۔

ٹورسٹ کے لئے گائیڈ کا کام کرنا اور اس کی اُجرت لینا

سوال:- آج کل ٹورزم آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے ، مختلف ملکوں کی معیشت میں اسے بڑی اہمیت دی جاتی ہے ، بعض ملکوں میں تو یہی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، ڑورزم کا شعبہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے ٹورسٹ کی رہنمائی کے لئے گارڈ کی ضرورت پیش آتی ہے اوراس کام میں کم وقت میں زیادہ آمدنی حاصل ہوتی ہے ، کیا اس کو بطور ذریعہ معاش اختیار کرنا جائز ہے ؟ ( حسین احمد ، عابڈس)

جواب :- کسی جگہ کی رہنمائی کرنا ، اس کی تاریخ بتانا اور اس کی خصوصیات پر روشنی ڈالنا جائز عمل ہے ، اور کسی بھی جائز عمل کی اُجرت لینا درست ہے ؛ بشرطیکہ پہلے سے کام کی تعدادونوعیت اور اس کی اُجرت متعین ہو ، امام محمدؒ سے صراحتاً منقول ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ اگر کوئی مجھے فلاں جگہ پہنچادے تو اس کی یہ اُجرت ہے اور وہ شخص اس کو وہاں تک پہنچادے تو اس کی اُجرت واجب ہوگی: ’’ قال امیر السریۃ: من دلنا علی موضع کذا فلہ کذا یصح ، ویتعین الأجر بالدلالۃ فیجب الاجر ‘‘ ۔ ( الاشباہ والنظائر : ۱؍۲۳۱ ، نیز دیکھئے : ردالمحتار : ۶؍۹۵)

سادھو ، سَنْتوں کے کپڑے سلنا اور فروخت کرنا

سوال:- غیر مسلم مذہبی رہنماؤں کے بھی مخصوص لباس ہوتے ہیں ، جیسے عیسائی ، پادری مخصوص قسم کے کپڑے استعمال کرتے ہیں ، ہندو مذہبی قائدین زعفرانی کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے لباس کا اپنا خصوصی ڈیزائن ہوتا ہے ، کیا مسلمان درزی کے لئے ایسے لباس سلنا یا ایسے لباس فروخت کرنا جائز ہے ؟ ( ابو بکر ، بنارس )

جواب :- کسی خاص ڈیزائن کے کپڑے سلنا یا کسی خاص رنگ یا ڈیزائن کے کپڑے فروخت کرنا چوںکہ اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے ؛ اس لئے مسلمان درزی کے لئے ایسے کپڑے سِلنے یا فروخت کرنے کی گنجائش ہے ، فقہاء کے یہاں اس کی صراحت ملتی ہے ، جیساکہ مجوسیوں کی ٹوپی وغیرہ کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے : ’’ اسکاف أمرہ انسان أن یتخذ لہ خفا مشھوراً علی زی الفسقۃ أوالمجوس وزادلہ فی الأجرۃ لہ أن یفعل ذلک ، وکذلک الخیاط إذا أمرہ انسان أن یخیط لہ ثوبا علی زی الفساق … وبیع قلنسوۃ المجوس من المجوسی جائز من غیر کراھۃ ‘‘ ۔ ( المحیط البرہانی : ۵؍۳۵۸)

(بصیرت فیچرس)

٭ ٭ ٭

آپ کے شرعی مسائل

اپنا تبصرہ بھیجیں