بیع فاسد اور بیع باطل میں فرق

فتویٰ نمبر:482

سوال :بیعِ فاسد اور بیع ِباطل کے درمیان کیا فرق ہےاور ہر دو کا حکم کیا ہے؟

الجواب حامداًومصلیاً

خريد و فروخت كے معاملہ میں  اگر مبیع اور ثمن دونوں یا مبیع و ثمن میں سے کوئی ایک ایسا ہو کہ شریعتِ  محمدیہ اور سابقہ ادیان میں سے کسی بھی شریعت میں اس کی خرید وفروخت کی اجازت نہ ہو تواس صورت میں  بیع باطل ہےاور اگر وہ چیز کسی دینِ سماوی میں مال ہو اور ہم اسے ثمن بنا سکیں مثلاً خمر اور خنزیر جو کہ دیگر ادیان ِسماویہ میں مال ہیں ان کی بیع کپڑے وغیرہ کے بدلے ہو یا بیع میں کوئی ایسی شرط شامل کر لی جائے جس کی شریعت اجازت نہ دیتی ہوتو اس صورت میں بیع فاسد ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (5 / 50)

ثُمَّ الضَّابِطُ فِي تَمْيِيزِ الْفَاسِدِ مِنْ الْبَاطِلِ أَنَّ أَحَدَ الْعِوَضَيْنِ إذَا لَمْ يَكُنْ مَالًا فِي دِينٍ سَمَاوِيٍّ فَالْبَيْعُ بَاطِلٌ سَوَاءٌ كَانَ مَبِيعًا أَوْ ثَمَنًا، فَبَيْعُ الْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَالْحُرِّ بَاطِلٌ، وَكَذَا الْبَيْعُ بِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي بَعْضِ الْأَدْيَانِ مَالًا دُونَ الْبَعْضِ إنْ أَمْكَنَ اعْتِبَارُهُ ثَمَنًا فَالْبَيْعُ فَاسِدٌ فَبَيْعُ الْعَبْدِ بِالْخَمْرِ أَوْ الْخَمْرِ بِالْعَبْدِ فَاسِدٌ وَإِنْ تَعَيَّنَ كَوْنُهُ مَبِيعًا فَالْبَيْعُ بَاطِلٌ فَبَيْعُ الْخَمْرِ بِالدَّرَاهِمِ أَوْ الدَّرَاهِمِ بِالْخَمْرِ بَاطِلٌ۔

حکم بیعِ باطل کا یہ ہے کہ مشتری کسی حالت میں بھی مبیع کا مالک نہیں بن سکتا بلکہ بائع ہی اس کا مالک رہتا ہے ، اگر مشتری نے  مبیع لے لی تو واپسی کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح اگر بائع نے ثمن لے لی تو واپس کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر مبیع مشتری کے پاس ہلاک ہو گئی تو اس کا ضمان لازم ہوگا ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (5 / 59)

(وَ) الْبَيْعُ الْبَاطِلُ (حُكْمُهُ عَدَمُ مِلْكِ الْمُشْتَرِي إيَّاهُ) إذَا قَبَضَهُ (فَلَا ضَمَانَ لَوْ هَلَكَ) الْمَبِيعُ (عِنْدَهُ) ؛ لِأَنَّهُ أَمَانَةٌ وَصَحَّحَ فِي الْقُنْيَةِ ضَمَانَهُ، قِيلَ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى.

اور بیعِ فاسد کا حکم یہ ہے کہ اگر مبیع پر مشتری نے قبضہ نہ کیا ہو یا مشتری کے قبضہ کے بعد مشتری کے ہاتھ میں ہی مبیع ہو تو بائع و مشتری دونوں پر لازم ہے کہ بیع کو ختم کر دیں اور اگر مشتری بائع کی صریح یا دلالةًاجازت سے مبیع پر قبضہ کر لے اور بائع اس کو منع بھی نہ کرے تو مشتری اس مبیع کا ملکیتِ خبیثہ کے ساتھ مالک بن جائے گایعنی شرعاً اس پر ملکیت کے احکام تو لاگو ہوں گے لیکن اس سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے جائز نہ ہوگا لہٰذا اس بیع کو ختم کر کے واپس کرنا ضروری ہوگا ۔

البتہ اگر مشتری نے بیع ِفاسد سے خریدی ہوئی مبیع کو بیع ِ صحیح کر کے بائع کو بیچ دی یا کسی اور طریقے سے واپس کردی تو یہ بیعِ اوّل کو ختم کرنا ہوا ،اسی طرح اگر بائع کے علاوہ کسی اور کو بیعِ صحیح کے  ساتھ بیچی یا ھبہ  کردی یا کوئی اور تصرف کر لیا تو یہ تصرف یا بیع کرنا صحیح ہو جائے گا ،بیع فاسد نافذ ہو جائے گی اور پھر بیعِ فاسدکو فسخ نہیں کیا جا سکتا ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (5 / 88)

 (وَإِذَا قَبَضَ الْمُشْتَرِي الْمَبِيعَ بِرِضًا) عَبَّرَ ابْنُ الْكَمَالِ بِإِذْنِ (بَائِعِهِ صَرِيحًا أَوْ دَلَالَةً) بِأَنْ قَبَضَهُ فِي مَجْلِسِ الْعَقْدِ بِحَضْرَتِهِ (فِي الْبَيْعِ الْفَاسِدِ) (وَلَمْ يَنْهَهُ) الْبَائِعُ عَنْهُ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ خِيَارُ شَرْطٍ (مَلَكَهُ)  (بِمِثْلِهِ إنْ مِثْلِيًّا وَإِلَّا فَبِقِيمَتِهِ) يَعْنِي إنْ بَعْدَ هَلَاكِهِ أَوْ تَعَذُّرِ رَدِّهِ (يَوْمَ قَبَضَهُ) (وَ) يَجِبُ (عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فَسْخُهُ قَبْلَ الْقَبْضِ) (أَوْ بَعْدَهُ مَا دَامَ) الْمَبِيعُ بِحَالِهِ جَوْهَرَةٌ (فِي يَدِ الْمُشْتَرِي إعْدَامًا لِلْفَسَادِ) ؛ لِأَنَّهُ مَعْصِيَةٌ فَيَجِبُ رَفْعُهَا بَحْرٌ (فَإِنْ بَاعَهُ) أَيْ بَاعَ الْمُشْتَرِي الْمُشْتَرَى فَاسِدًا (بَيْعًا صَحِيحًا بَاتًّا) فَلَوْ فَاسِدًا أَوْ بِخِيَارٍ لَمْ يَمْتَنِعْ الْفَسْخُ  (لِغَيْرِ بَائِعِهِ) فَلَوْ مِنْهُ كَانَ نَقْضًا لِلْأَوَّلِ كَمَا عَلِمْت (وَفَسَادُهُ بِغَيْرِ الْإِكْرَاهِ) فَلَوْ بِهِ يَنْقُضُ كُلَّ تَصَرُّفَاتِ الْمُشْتَرِي (أَوْ وَهَبَهُ وَسَلَّمَ أَوْ أَعْتَقَهُ) (أَوْ رَهَنَهُ أَوْ أَوْصَى) أَوْ تَصَدَّقَ (بِهِ) نَفَذَ الْبَيْعُ الْفَاسِدُ فِي جَمِيعِ مَا مَرَّ وَامْتَنَعَ الْفَسْخ

اپنا تبصرہ بھیجیں