بھینس کی قربانی احادیث سے ثابت ہے یا نہیں

فتویٰ نمبر:379

سوال: رسول اکرم ﷺ سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں ہے لہذا  بھینس کی قربانی جائز نہیں ہے اگر ثابت ہوتو تحریر فرمائیں تاکہ ہم سب  بھی ا س پر عمل کریں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہی عمل کرے  جس کو فداہ روحی وابی وامی نے فرمایا ہو، یا خود کیا  ہو یا کسی شخص کو کرتے دیکھا ہو،ا ور اس کو منع نہ کیا ہو، لہذا  حنفیہ حضرات  اس مسئلہ پر مانا  علیہ واصحابی کے مطابق کوئی سنت  رسول یا کم از کم سنت صحابہ  ہو تو  دکھلادیں تو ہم لوگ تسلیم کرنے کو تیار ہیں ورنہ اس کا اقرار  کریں کہ یہ یعنی بھینس کی قربانی کا مسئلہ حدیث پاک کے خلاف  ہے اور حنفیہ  اس مسئلہ میں یتیم  فی الحدیث  ہیں ۔

جواب :  یہ صحیح ہے کہ سوائے اہل وبقرہ وغنم کے اور جانوروں  کی قربانی ثابت نہیں ہے ۔ قال فی الھدایۃ : “ولم ینفل عن النبی ﷺ ولا الصحابہ التضحیۃ بغیر الابل  والبقر  والغنم ” انتھی ‘

اما التضحیۃ بالابل ففی مسلم  فی حدیث  جابر الطویل، واماالبقر  ففی حدیث عائشہ وجابر فی الصحیحین واما الغنم ففی حدیث انس فی الصحیحین۔

لیکن جاموس بقر ہی کی ایک  نوع ہے ہندی  میں اسے بھینس کہتے ہیں اور فارسی میں گاہ میش کہتے ہیں اور عربی میں جاموس قال صاحب  القاموس الجاموس معرب گاہ ومیش اس کا نام فارسی میں خود صراحت کے ساتھ اس پر دال ہے  : وقدصرح بذلک الفقھاء وغیرھم قال النووی  فی شرح المھذب ( 8/393 )

  شرط المجزی فی الاضحیۃ ان یکون من الانعام وھی الابل والبقر والغنم وسواء فی ذلک جمیع انواع الابل من البخاتی والعراب  والدربانیۃ وجمیع انواع الغنم من الضان  والمعز وانواعھا اھ واللہ  اعلم

 علامہ ابو الولید  بن رشد الحفیہ بدایۃ المجتھد1/ 253) میں لکھتے  ہیں  : اجمع العلماء علی جواز الضحایا من جمیع   بھیمۃ الانعام اھ  

اور  بھینس کا  بہائم انعام سے ہونا اظہر من  الشمس ہے تو قربانی گاہ میش کے جواز کے قائل  صرف حنفیہ  ہی نہیں  بلکہ حضرات  شافعیہ بھی ہیں بلکہ جمیع  امت کا یہی مذہب  ہے کما علم  ذلک من کلام ابن رشد وقالہ  ابن المنذر  فیما حکاہ صاحب المغنی ( 2/594 ) والجوامیس صنف من البقر بالاجماع اھ

اور اگر کوئی یہ کہے  کہ امام نووی  نے شرح مسلم میں  ( 2/155)لکھاہے :اجمع العلماء علی انہ لاتجزی التضحیۃ بغیر  الابل والبقر  الا ماحکاہ  ابن المنذر  عن الحسن بن صالح انہ قال یجوز التضحیۃ  ببقرا لوحشی عن سبعۃ وبالظنی عن واحد وبہ قال داؤد فی بقرۃ الوحشی انتھی ۔

 تو ا  س سے معلوم ہوا کہ صرف ابل وبقر وغنم ہی کی قربانی جائز ہے اس کا جواب یہ ہے کہ  خود  سیاق کلام بتارہا ہے کہ حیوانات وحشیہ کی نفی مقصود ہے ،وقال النووی  فی شرح  المھذب  ( 8/39 ) نقل جماعۃ اجماع العلماء ان التضیحۃ لاتصح  الا بالابل  والبقر والغنم ،فلا یجزیٰ شئی من  الحیوان غیر ذالک وحکی ابن المنذر  عن الحسن بن صالح  انہ یجوز ان یضحی ببقر  الوحشی  عن سبعۃ  وبالظنی   عن واحد وبہ قال داؤد  فی بقرۃ الوحش انتھی  اس  عبارت کا  بھی  حاصل وہی ہے کہ حیوانات  وحشیہ کی نفی کرنا مقصود ہے خود امام نووی تصریح  فرماچکے ہیں کہ بقر میں جاموس بھی داخل ہے کما تقدم واللہ اعلم ۔

بندہ محمد یونس غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں