بلانیت تکبر شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا حکم

  • دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
  • محترمین  مفتیان کرام آپ حضرات  سے مسئلہ ہذا میں رہنمائی مطلوب  ہے، امید ہے کہ تفصیلی جواب سے سرفراز فرماکر  مشکور وممنون  فرمائیں گے  ۔
  • فقہائے احناف  میں سے علامہ  عینی  ، علامہ کورانی،  ملا علی قاری  اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی  رحمہم اللہ  ” اسبال الازار ”   کے بارے میں یہ مسئلہ  بیان کرتے ہیں اگر تکبر  کے ساتھ ہو تو حرام یا مکروہ تحریمی  ہے اور اگر تکبر   کے بٖیر ہوتو مکروہ تنزیہی  ہے ( اور فتاویٰ عالمگیریہ میں بھی یہ بات مذکور ہے )
  •  ملاحظہ  فرمائیں  : ( عمدۃ القاری  ، کتاب  اللباس ، باب : من جر ازارہ  من غیر  خیلاء : رقم الحدیث : 5784 ،21۔5887/437،441، دارالکتب  العلمیۃ )
  •  الکوثر الجاری الی ریاض البخاری  ، کتاب اللباس ، باب  : من جز ازارہ  من غیر خیلاء : رقم الحدیث  5788۔ 9/338، داراحیاء التراث العربی )
  •  ( مرقاۃ المفاتیح  ، کتاب  الصلاۃ  ، باب الستر  ، رقم الحدیث  ،744،2/439، کتاب  اللباس، الفصل الاول ، ۔۔۔
  •  ( اشعۃ المعات  ،کتاب اللباس ، فصل اول : 3/535 مکتبۃ رضویہ ،نوریۃ ، سکھر )
  •  اور علمائے دیوبند  کے اس مسئلہ  میں دو گروہ ہیں  : پہلے  گروہ میں مولانا  محمد ادریس کاندہلوی ، مولانا  خلیل احمد سہارنپوری  اور مولانا  محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ  ا س بات کے قائل ہیں  کہ ” اسبال الازار  ” اگر تکبر  کے ساتھ ہو تو حرام یا مکروہ تحریمی ہے اور اگر  تکبر  کے بغیر ہوتو مکروہ تنزیہی  ہے (نوٹ  : ان سب حضرات   نے اکثر علامہ نووی ؒ  وغیرہ  ” شوافع  ” کی کتب  واقوال پر اعتماد  کیاہے )
  • ملاحظہ فرمائیں  : ( التعلیق  الصبیح  ، کتاب اللباس ،ا لفصل الاول  : 4/383 ، المکتبۃ العثمانیۃ ، لاہور )
  • اور دوسرے گروہ میں علامہ انور شاہ کشمیری  ، مولانا بد عالم میرٹھی  ، مولانا اشرف  علی تھانوی  رحمہم اللہ اور مفتی  محمد تقی عثمانی صاحب زید مجد  ہم نے اس  بارے میں  یہ فرمایا کہ اس  مسئلہ میں تکبر  کی قید  کا اعتبار  نہیں ہے ، اسبال  ہر حال میں مکروہ تحریمی  اور ناجائز ہے ۔
  •  ملاحظہ ہو : ( امدادا لفتاویٰ ،ا حکام   متعلقہ لباس، ٹخنوں سے نیچے پاجامہ  ی اتہبند  لٹکانا ، ودفع  شبہ  متعلقہ مسئلہ  مذکورہ ، جواب اشکال  برکراہت  اسبال بدون خیلاء : 4/121۔123، مکتبہ دارالعلوم  کراچی  )
  • (اصلاح  رسوم ،آٹھویں   فصل ص :  20 ، 30 دارالاشاعت )
  • ( نوٹ :ا س دوسرے  گروہ  کے تمام مستدلات  کا جواب مسلک  بریلویت  کے شیخ الحدیث  جناب غلام  رسول  سعیدی صاحب  نے اپنی تفسیر ” بتیان القرآن  ، (جلد : 4  صفحہ  321تا 331) میں دیاہے ،ا سے بھی  ملحوظ خاطر رکھ لیاجائے  ، )
  • اس کے علاہو دیوبند کے تمام فتاویٰ جات  بھی اسی طرح  ( بہر صورت  مکروہ تحریمی کا قول ) مذکورہ ہے،
  • چنانچہ ! فتاویٰ دارالعلوم دیوبند  ، امدادالفتاویٰ ،امدادالاحکام ، فتاویٰ محمودیہ ، کفایت المفتی : ( مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی  رحمہ اللہ نے دو مقامات پر  ا س فعل کے بارے میں لکھا ہے کہ ایسا کرنا ” سخت گناہ ” ہے ، اور ایک جگہ لکھا ہے کہ ” مکروہ تنزیہی ” ہے ۔
  • احسن الفتاویٰ، فتاویٰ رحیمیہ ، فتاویٰ حقانیہ، آپ کے مسائل اور ان کا حل ، فتاویٰ دارالعلوم  زکریا، نجم الفتاویٰ ، فتاویی عبادالرحمٰن ، میں حڑمت، کراہت تحریمی اور سخت گناہ کا حکم مذکور ہے  ۔
  • مذکورہ  بالا تفصیل  ملاحظہ کرنے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ
  • فقہائے احناف کے نزدیک تکبر کی   نیت   کے بغیر “اسبال الازار ”  کا کیا حکم ہے ؟ اس  بارے میں کتب فقہیہ میں  کیاتفصیلات  ہیں ؟
  • “اسبال الازار ” سے متعلق مذکوراحادیث  میں سے جو احادیث  ( تکبر کی قید سے )  مطلق ہیں ،ا نہیں فقہائے احناف  کے نزدیک  ( تکبر کے ساتھ ) مقید )احادیث ) پر محمول کیاجائے گا یا نہیں ؟
  • اکابرین علماء دیوبند   رحمہم اللہ کی اکثریت نے اس مسئلہ میں فقہائے احناف ( ملا علی قاری ، علامہ عینی، شاہ عبدالحق محدث  دہلوی رحمہم اللہ ) کی اتباع  کو کس بناء پر ترک کیا؟ بالفاظ دیگر ! اس مسئلہ میں فقہائے احناف  کی عبارات کو چھوڑ کر براہ راست  احادیث  سے استدلال کیوں کیاگیا؟
  • 1)ٹخنے سے نیچے پاجامی یا لنگی  وغیرہ لٹکانا مردوں کے لیے علی الاطلاق مکروہ تحریمی ہے خواہ لٹکانے والا تکبر کی نفی  کرکے قصد زینت وغیرہ  کا دعویٰ کرتاہوں ، کیونکہ مردوں کے حق میں یہ متکبرانہ عمل ہے، عام  طور پر لوگ براہ تکبر ہی لٹکاتے ہیں اور اگر کوئی شخص تکبر سے خالی ہوتو آہستہ آہستہ اس کے اندر تکبر آہی جائے گا، اس لیے علی الاطلاق مکروہ تحریمی ہے  ۔
  • اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ حنفی کی مشہور ترین  تین کتابوں : فتاوی ٰ عالمگیری ،فتاوی تاتارخانیہ اور رد المختار  میں ابو نصر  احمد بن محمد عتابی  کی فتاویٰ عتابیہ کے حوالے سے یہ مسئلہ آیاہے کہ مردوں کے لیے ایسا پاجامہ  پہننا مکروہ  ہے جو ٹخنے سے نیچے  لٹک کر   پیروں کی  پشت ( پنجوں) پر پڑتا ہےہو، اور یہاں تک کراہت کا لفظ مطلق  ہے اور مطلق کراہت سے حظر واباحۃ کے باب   ہی میں نقل کیاگیاہے ،اس  لیے یہاں  سے کراہت  سے کراہت تحریمی  ہی مراد ہوگی ،ا ور چوں کہ اس میں  تکبیر  یا عدم  تکبر کی کوئی قید نہیں ہے اس لیے یہ اپنے اطلاق کی وجہ سے دونوں صورتوں کو شامل ہوگا اور مردوں   کے لیے پاجامہ و غیرہ لٹکانا  علی الاطلاق  مکروہ تحریمی ہوگا۔
  • اور دوسری دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث  میں ٹخنوں  سے  نیچے  کپڑ الٹکانے  کو صراحت    کے ساتھ علی الاطلاق  متکبرانہ عمل قرار دیاگای ہے پس جب یہ متکبرانہ  عمل ہے یعنی  : متکبرین  کی خصلت  ہے یا ایسا کرنے والوں میں تکبر  آہی جاتا  ہے تو یہ علی الاطلاق مکروہ تحریمی ہوگا کیوں کہ ا س عمل میں اہل تکبر  کا عمل اختیار  کرکے ان کے ساتھ مشابہت  پائی جاتی ہے  اور شریعت  میں کفار وفساق کی مشابہت  سے منع کیاگیا ہے ۔ ( دیکھیے : اوجز المسالک  مطبوعہ  : دارا لقلم  دمشق اور تحفۃ الاحوذی   مطبوعہ : مکتبہ اشرفیہ دیوبند) ۔
  • اور فقہائے احناف  نے متعدد  مسائل  میں تشبہ کی صورت  میں علی الاطلاق کراہت تحریمی کا قول لیاہے  خواہ  تکبر کا قصد  ہویا نہ ہو جیسا کہ علامہ شامی  اور علامہ  سید احمد  طحطاوی  نے سدل   ثوب  کے مسئلہ میں علامہ  ابن نجیم  مصری کے حوالے  سے اس  کی صراحت  فرمائی ہے ۔ ( دیکھیے  : حاشیۃ الطحطاوی علی الدر  ، کتاب الصلاۃ ، باب مایفسد  الصلاۃ ومایکرہ  فیھا : مطبوعہ  : مکتبہ اتحاد   دیوبند  ، اور ردالمحتار ، 2/405)
  • اور فتاویٰ عالمگیریہ  میں جو کراہت  تحریمی اور تنزیہی کا قول آیا ہے وہ  غرائب  کی روایت  ہے جو فتاوی عتابیہ کے مقابل میں قابل اعتبا نہیں ہوسکتی  جب کہ فتاوی عتابیہ  کا  مسئلہ احادیث  سے مبرہن  اور اصول کے مطابق ہے جیسا کہ آگے معلوم  ہوجائے گا ۔
  •  2) اسبال ازار کی بعض احادیث  میں جو تکبر  کی قید آئی ہے۔ فقہایئ احناف  کے نزدیک  وہ قید واقعی  ہے ، قید  احترازی  نہیں ہے پس ازار  کی ممانعت  تکبر  کی قید  کے ساتھ مقید  نہیں ہے، بلکہ اسبال ازار علی الاطلاق ممنوع وناجائز ہے البتہ عدم تکبر  کی صؤرت ،تکبر کی صورت سے کچھ اخف  ہوگی اور ناجائز ومکروہ تحریمی بہرحال  دونوں  ہیں  جیسا کہ مولونا تھانوی  نے اپنے فتوی میں صراحت فرمائی ہے  ۔ ( دیکھیے  : امدادالفتاویٰ  4:122 مطبوعہ دارالعلوم  کراچی)
  •  اور یہاں تکبر  کی  قید  کو قید احترازی مان کر مطلق  احادیث کو مقید  کرنا اصول احناف  کے مطابق صحیح نہیں ہے، کیونکہ احناف  کے نزدیک  مطلق اور مقید  اگر ایک حکم میں آئیں  تو مطلق کو مقید   پر محمول کیاجاتا ہے  تاکہ حکم میں  تضاد  لازم نہ آئے  اورا گر  مطلق ومقید  ایک حکم کے بجائے  اسباب یا شروط  وغیرہ میں  آئیں  تو مطلق مقید پر محمول نہیں کیاجاتا ، بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر  اور مقید  اپنی  تقیید  پر رہتا ہے ( نورالانوار  ص 162 ،مطبوعہ  : مکتبہ رحمانیہ ، غزنی  اسٹریٹ  ، اردو بازار  ، الہور  ، حسامی  مع نامی  ص 60، امدادالفتاویٰ  4,122)
  • اور زیر بحث  مسئلہ میں مطلق اور مقید  کا ورواسباب میں ہوا ہے  ، کسی حکم  میں نہیں ہوا ہے کیونکہ  جرازاریا اسبال ازار  سبب ہے  ان  وعیدوں  کا جو اس   عمل پر وارد   ہوئی ہیں اور وہ وعیدیں  اس عمل کا مسبب ہیں اس لیے یہاں مطلق کو مقید   پر محمول کیاجائے گا  بلکہ یہ ساری وعیدیں  تکبر  کے ساتھ اسبال  ازار  بھی مرتب  ہوں گی  اور تکبر  کے بغیر اسبال ازار    پر بھی مرتب  ہوں گی،البتہ غفلت  میں لنگی  یاپاجامہ  ٹخنے  سے لٹک جائے  یا کسی مجبوری  سےا یسا ہو تو اس صورت   میں یہ وعیدیں  نہ ہوں  گی  جیسا کہ  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ  عنہ  کی حدیث  سے معلوم ہوتا ہے  ۔ اور چوں کہ دیگر ائمہ  کے نزدیک  حکم واحد  کے علاوہ  میں بھی مطلق  مقید پر محمول  ہوتا ہے  نیز ان  کے نزدیک  نصوص شرع میں  بھی مفہوم مخالفت   حجت ہوتا ہے  اس لیے ان حضرات  نے تکبر  کی  قیدکو  قید احترازی  قرار دے کر  مطلق احادیث  کو مقید  پر محمول کیا ہے جو اصول  احناف  کے خلاف ہے۔ا ور احناف  میں جن شراح حدیث  میں عدم تکبر  کی صورت  میں کراہت   تنزیہی  کا قول کیاہے  ،انہوں نے امام نووی   کی بحث   پر اعتماد  کیا جو مسلکاًشافعی  ہیں اور ان حضرات  نے احناف کا مذہب  بھی یہی سمجھ لیا۔اور غرائب  کاقول  بھی دیگر ائمہ  کے مسلک کی نقل پر مبنی ہے  ۔
  • ان شراح حدیث ( ملا علی قاری ، علامہ عینی ،ا ور شاہ  عبدالحق محدث دہلوی )  نے اپنی  اپنی کتابوں میں جو کچھ  تحریر  فرمایا ہے ، وہ شرح حدیث  کے طور پر  تحریر فرمایا ہے،ا ور شرح حدیث  میں امام نووی  کی بحث پر اعتماد  کیاہے جب کہ وہ مسلکاً شافعی ہیں اور انہوں نے اپنے امام  کے اصول  اور مسلک  کے مطابق اسبال ازار   سے متعلق احادیث   کی شرح   فرمائی ہے ، اور زیر بحث  مسئلہ میں فقہی نصوص  بھی ہیں جیسا کہ  نمبر ایک  میں ذکر کیا گیا،  ہمارے اکابر  علمائے دیوبند  نے فقہی  نصوص وتصریحات  یکسر انداز فرماکر  مجتہدانہ   طور پرا ستدلال  نہیں فرمایا  ہے ، البتہ  احادیث کے ذریعہ  صحیح وقوی قول  کو مزید  مبرہن  ومدلل  فرمایا ہے، جس سے  غرائب کے قول کا ضعیف  ومرجوح  ہونا بھی  اچھی طرح  واضح ہوجاتا ہے ۔
  • ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • اس فتوے میں جو حکم  تحریر کیاگیاہے  بندے  کے نزدیک  وہ صحیح اور درست ہے۔
  • از محمد نعمان سیتا پوری غفرلہ
  • الجواب الصحیح : حبیب الرحمن عفااللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری  غفرلہ ، محمد اسداللہ غٖفرلہ
  • مفتیان دارالافتاء ، دارالعلوم دیوبند
  • عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
  •  https://www.facebook.com/groups/497276240641626/542152269487356/

اپنا تبصرہ بھیجیں