بلانیت تکبر شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا حکم

محترم مفتیان کرام آپ حضرات  سے مسئلہ ہذا میں  رہنمائی مطلوب ہے  ،ا مید ہے کہ تفصیلی جواب سے سرفراز فرماکر مشکور  وممنون  فرمائیں گے ۔

فقہائے احناف  میں سے علامہ  عینی، علامہ  کورانی  ، ملا علی قاری  اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہم اللہ ” اسا ل الازار ” کے  بارے میں  یہ مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر تکبر  کے ساتھ ہوتو حرام یا مکروہ تحریمی ہے اور اگر تکبر  کے بغیر ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ ( اور فتاویٰ عالمگیریہ میں  بھی یہ بات مذکور ہے ۔

ملاحظہ فرمائیں : منسلک  پی ڈی ایف

اور دوسرے گروہ میں علامہ انور شاہ کشمیری  ، مولانا بد ر عالم   میرٹھی،مولانا اشرف  علی تھانوی رحمہم اللہ اور مفتی  محمد تقی عثمانی  صاحب زید مجدہم  نے  اس بارے  میں یہ فرمایا ہے  کہ اس مسئلہ  میں تکبر  کی قید کا اعتبار نہیں ہے،اسبال ہر حال  میں  مکروہ تحریمی ا ور ناجائز ہے۔

ملاحظہ ہو: ( امدادالفتاویٰ ، احکام متعلقہ لباس، ٹخنوں سے نیچے پاجامہ یا  تہبند  لٹکانا ودفع  شبہ  متعلقہ مسئلہ مذکورہ، جواب اشکال برکراہت اسبال بدون  خیلاء :4/121۔123، مکتبہ دارالعلوم کراچی )

 ( اصلاح  رسوم ، آٹھویں فصل ، ص 29،30 ، دارالاشاعت )

 ( نوٹ : اس دوسرے  گروہ  کے تمام  مستدلات  کا جواب مسلک  بریلویت  کے شیخ  الحدیث  جناب غلام  رسول سعیدی صاحب  نے اپنی تفسیر  ” بتیان القرآن۔ ( جلد : 4 صفحہ  321تا 331) میں دیاہے)

اس کے علاوہ  علماء دیوبند  کے تما م  فتاویٰ جات میں بھی اسی طرح  ( بہر صورت  مکروہ تحریمی کا قول ) مذکور ہے  ،

 چنانچہ  ! فتاویٰ  دارالعلوم دیوبند : 16/147، امدادالفتاویٰ : 4/121، امدادالاحکام :4/337، فتاویٰ محمودیہ : 19/273 ، کفایت المفتی : ( مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے دومقامات پر اس  فعل کے بارے میں  لکھا ہے کہ ایسا  کرنا ” سخت گناہ ” ہے ،ملاحظہ  ہو : 3/311،9/156،ا ور ایک جگہ  لکھاہے کہ ” مکروہ تنزیہی ” ہے ۔ملاحظہ ہو :3/430) احسن الفتاویٰ : 3/296، فتاویٰ  رحیمیہ : 5/146، فتاوی  حقانیہ : 2/416،3/195، آپ کے مسائل اور ان کا حل :  3/323، فتاویٰ دارالعلوم زکریا: 2/216  ،نجم الفتاویٰ : 2،392، فتاویٰ عبادالرحمٰن  : 5/148 ، میں حرمت  ، کراہت  تحریمی اور سخت گناہ کا  حکم مذکور ہے ۔

مذکورہ بالا تفصیل  ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم یہ کرناہے  کہ

  • فقہاء احناف کے نزدیک   تکبر کی نیت  کے بغیر “اسبال الازار  ” کا کیاحکم ہے ؟ ا س بارے میں   کتب  فقہیہ میں  کیا تفصیلات ہیں ؟
  • “اسبال الازار” سے متعلق مذکور احادیث  میں سے جو احادیث  ( تکبر کی قید سے ) مطلق ہیں، انہیں  فقہائے احناف کے نزدیک  ( تکبر  کے ساتھ ) مقید ( احادیث ) پر محمول کیاجائے گا یا نہیں؟
  • کابرین علماء دیوبند رحمہم اللہ کی اکثریت  نے ا  س مسئلہ میں  فقہائے احناف  ( ملاعلی قاری ، علامہ  عینی، شاہ  عبدالحق ، محدث  دہلوی رحمہم اللہ )   کی  اتباع   کو کس بناء پر ترک کیا؟ بالفاظ دیگر ! اس مسئلہ  میں  فقہائے احناف   ( ملا علی قاری  ، علامہ عینی ، شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہم اللہ  )  کی اتباع کو  کس بناء پر  ترک کیا؟ بالفاظ دیگر  ! ا س  مسئلہ   میں فقہائے احناف  کی عبارات کو چھوڑ کر  براہ راست احادیث  سے استدلال   کیوں کیا گیا؟

فقط والسلام  !

المستفتی : محمد راشد ڈسکوی

استاذ ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

2/6/1436ھ

باسمہ تعالیٰ

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

امابعد 

“اسبال” صرف  ازار  کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ قمیص ، عمامہ ، کوٹ  اور رومال وغیرہ میں بھی متحقق ہوتا ہے ، ٹخنوں کو چھپانا بھی اسبال ہے ، قمیص کی آستینوں کو اس  قدر  لمبا رکھنا کہ ہاتھ  اس میں چھپے  رہیں یہ قمیص کا اسبال ہے ، عمامہ  کے شملہ  کو  سرین  سے زائد  رکھنا عمامہ کا اسبال ہے، رومال  کو کندھے   یا سر  پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں اطراف  باندھے  بغیر  چھوڑی ہوئی  ہوں  رومال میں اسبال ہے، کوٹ معتاد  طریقے   کے خلاف  صرف کندھوں پر  رکھ لینا بھی اسبال ہے ۔

بخاری شریف کی ایک روایت  سے اس  کی تائید ہوتی ہے  ۔

 ” سدل  ” کی تعریف  وتشریح کرتے ہوئے  علامہ قہستانی لکھتے ہیں :

 ( طحطاوی  جلد  : 1،صفحہ : 270)

حضرات  فقہاء نے ” سدل ”  مطلقاً مکروہ قرار دیاہے  خواہ تکبر  سے ہو خواہ بلاتکبر  ہو چنانچہ طحطاوی میں ہے  :

( طحطاوی ، جلد  : 1صفحہ  : 270)

امام ابو حنیفہ اور حضرات فقہاء کے نزدیک  اسبال مطلقاً مکروہ ہے  خواہ ا س کا  منشا تکبر  ہو یا نہ ہو، اسی طرح  “للنھی  من غیر  فصل ” کے الفاظ  سے  معلوم ہوا کہ ” مخیلۃ ”  وغیرہ کے الفاظ  زیادتی   مذمت کے لیے  ہیں ۔ حرمت  اسبال کے ازار اس کے بغیر  بھی ثابت ہوگی ۔

(ب) اگر چہ روایات دونوں  طرح کی ہیں اور اسی طرح  شارحین  کی آراء  بھی دونو ں  طرح کی ہیں تاہم ہمارے خیال   میں وہ روایات  راجح ہیں  جن میں ” مخیلہ  وغیرہ کی قید موجود نہیں ۔ جس کی درج ذیل وجوہ ہیں ۔

( ابوداؤد شریف ، کتاب اللباس ، باب ماجاء فی اسبال الازار، جلد  :2،صفحہ:211)

( ابوداؤد شریف ، کتاب اللباس ، باب ماجاء فی اسبال الازار، جلد  :2،صفحہ:210)

3۔ علامہ ابن العربی  ؒ فرماتے ہیں :

 تحفۃ الاحوذی  علی جامع الترمذی ،ا بواب اللباس، باب ماجاء  فی کراہیۃ جرالازار  )

اس سے معلوم ہواکہ یہ موقف اختیار کرنا کہ جو ” اسبال ازار تکبر  کے طور پر  نہ ہو وہ  نہی میں داخل  نہیں ” یہ مسلم  نہیں ، بلکہ  اس کو بھی  تکبر پر محمول کرتے ہوئے  ممنوع  کہاجائے گا۔

حضرت عمرو بن زراہ انصاری  رضی اللہ عنہ کے واقعہ  سے بھی ا س بات کی تائید ہوتی ہے  کہ تکبر  کی نیت نہ ہو نے کے باوجود  بھی یہ شرعاً ممنوع ہے۔ حضرت  عمرو بن زراہ رضی اللہ عنہ   ایک پوشاک   پہنے ہوئے  تشریف لے جارہے تھے اور انہوں نے اسبال ازار کیاہوا تھا، حضور ﷺ نے اس  کے کپڑے کا ایک کنارا پکڑا  اور یہ فرمایا : ” عبدک  وابن عبدک  وامتک  ” حضرت عمرو بن زراہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ  ” انی  حمش الساقین ” آپ نے فرمایا کہ : ” یاعمرو ! ان اللہ قداحسن  کل شیٰ خلقہ ، یا  عمرو! وان اللہ  لایحب  المسبل  “

( تحفۃ الاحوذی  علی جامع الترمذی ، ابواب اللباس ، باب ماجاء فی کراہیۃ جرالازار )

اس میں یہ بات صراحتاً موجود  ہے کہ انہوں نے  اپنی پنڈلیوں  کے باریک اور کمزور  ہونے کا عذر  پیش کیا کہ میرا سبال ازار  اس  عذر کی و جہ سے  ہے ۔ا س کے باوجود  آپ علیہ السلام  نے ” ان اللہ لا یحب المسبل ” ارشاد فرمایا۔ا س سے معلوم  ہوا کہ تکبر  کے طریق سے  نہ بھی ہو  پھر بھی شرعاً ا س کی اجازت نہیں ۔

 طبرانی  میں یہی  روایت مذکور ہے جس میں یہ اضافہ بھی ہےکہ آپ ﷺ  نے حضرت عمروبن زراہ رضی اللہ عنہ   کے گھٹنے  کے نیچے چارا نگلیاں  رکھیں  اور  فرمایا کہ : ” یا عمر ھذا موضع الازار “

 ( معجم الکبیر  للطبرانی  ، تحفۃ الاحوذی  علی جامع الترمذی  ،ا بواب  اللباس، باب ماجاء فی کراہیۃ جرالازار)

طبرانی  میں ہی  شریر  ثقفی کی روایت میں ہے  کہ آپ علیہ السلام  نےا یک آدمی  کو اسبال ازار  کاک مرتکب پایا  تو  فرمایا  : ” ارفع ازارل ” ا س نے عذر بیان کیا کہ : ” انی  ۔۔۔” اس عذر کے  باوجود  آپ ﷺ  نے فرمایا : ‘ارفع ازارک فکل خلق اللہ حسن “

ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : ” وھذا قبح مما بساقک  ” کہ یہ اسبال ازار اس  عیب  سے  بدتر   ہے جو تیری  پنڈلیوں میں ہے ۔

اسی طرح نسائی، ابن ماجہ  اور صحیح ابن حبان  میں حضرت مغیرہ   بن شعبہ کی روایت   ہے کہ :

رایت رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔فان اللہ لایحب المسلمین “

 یہاں بھی  حضور ﷺ نے حضرت سفیان  بن سہیل  سے یہ تحقیق نہیں  کی کہ یہ اسبال ازار تکبر  کے طور پر  ہے یا نہیں بلکہ مطلقاً  منع فرمادیا ۔

اسی  طرح  ترمذی  ونسائی میں حضرت عبید بن خالد کی روایت  ہے :

 ” کنت  ۔۔۔۔۔فاذا ھو النبی ﷺ “

 اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ   اپنے آس پاس آنے والے ایک نوجوان کو ارشاد فرمایا :

 ” ارفع  ثوبک فانہ ۔۔۔۔

مسند احمد  میں حدیث  ابن عمر موجود ہے   اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے  کہ جرازاریہ یہ ہوتا ہی تکبر کی وجہ سے ہے، چنانچہ  حضور علیہ السلام  نے فرمایا :

 ” ایاک وجر الازار  فان جر الازار  من المخیلۃ “

اس حدیث میں آپ ﷺ  نے گویا ہر   جراز  کا سبب تکبر  کو قرار دیا ۔ا س  کی روشنی  میں وہ روایات  جن میں  ” مخیلہ” وغیرہ کے الفاظ ہیں ان کی  توجیہ بھی آسان  ہوگئی کہ یہ قید  احتراز  ہی نہیں ، بلکہ واقعی  ہےا ور اس کا  تذکرہ  شاید  زیادتی  مذمت کی وجہ سے ہو ۔

سوال : حضرت سیدنا صڈیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے بارے میں ابوداؤد  شریف میں وارد ہے کہ جب انہوں نے تکبر کے  طور پر  کپڑا لٹکانے کی وعید  ” لم ینظر  اللہ الیہ یوم القیامۃ ”   سنی  تو  فرمایا کہ : ”  ان احد جانبی  ازاری  یسترخی  ” اور حضرت عبداللہ  بن مسعود رضی اللہ عنہ  کے بارے میں ابن ابی شیبہ  میں موجود  ہے کہ  ” انہ  کان یسبل ازارہ  ” جب ان کو اس بات  کا تذکرہ   کیاگیا تو  فرمایا کہ ” انی  حمش الساقین’ ان دونوں  حضرات  کا  یہ عمل ا س با ت کی دلیل ہے کہ اسبال ازار  بدوں تکبر بھی ہوتا ہے  اور یہ مطلقا ً حرام نہیں ، کیونکہ ان دونوں حضرات  کے بارے میں یہ تصور    بھی نہیں کیاجاسکتا  کہ یہ حضرات حرام کے مرتکب ہوئے ۔

جواب  : حضرت سیدنا صدیق ا کبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں خود  حضور ﷺ  نے صفائی  دیدی کہ  : ” لست  ممن  یفعلہ  خیلاء ” کتاب  المغازی  میں حضرت سیدنا   صدیق  اکبر  کے اس  استرخاہ  کا سبب  بھی بیان کیاگیاہے  کہ :   ” کان  ابوبکر رضی اللہ عنہ  نحیفاً یستمسک ازارہ علیہ بل یسترخی عن حقویہ ” ( بذل المجہود، جلد 16،صفحہ  : 411)

گویا وہ اس بارے  میں  معذور تھے اور حضور ﷺ نے عدم  تکبر کی شہادے دے دی اس  لیے اس  کو  بنیاد  بناکر اعتراض  نہیں کیاجاسکتا ،ا ور حضرت  عبداللہ  بن مسعود رضی اللہ عہ  کے فعل  کی توجیہ  یہ کی گئی ہے کہ ان کا اسبال نصف  ساق سے اسبال تھا، ٹخنوں  سے نیچے  تک کا اسبال  نہیں تھا جو کہ ممنوع  ہے چنانچہ  تحفۃ الاحوذی  میں موجود ہے  :

اورا نہوں نے خود جو اسبال کی توجیہ  کی تھی اس میں  بھی اس  کی طرف اشارہ  نکلتا ہے : ” والتعلیل یر شدالیہ ” ( تحفۃ الاحوذی  )

علامہ ابن البر فرماتے ہیں  :

 ” ان جر القمیص وغیرھم۔۔ ( فتح الباری  لابن  حجر  ، کتاب اللباس ، باب من جرثومہ  من الخیلاء ، جلد : 10 ، صفحہ  263 )

جب اسبال فی القمیص،ا سبال فی العمامۃ ہر حال  میں ممنوع ہے  خواہ ازروئے  تکبر ہوں یا  بدوں تکبر  ، تو اسی طرح  اسبال  ازار مطلقاً ممنوع ہونا چاہیے  ، کیونکہ حضور ﷺ کی تصریح  کے مطابق  اسبال ازار  ہوتا ہی تکبر  کی وجہ سے ہے۔

الحاصل : اسبال   ازار مطلقاً ممنوع  ہے اگر چہ  اس کی علت تکبر نہ ہو، جیسے کہ حضرت عمر و بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ  میں گویا عدم  تکبر کی تصریح  موجود ہے  ، لیکن اس کے باوجود  آپ علیہ السلام  نے ان کو منع فرمایا۔

 نیز ہمارے اکابر  علمائے دیوبند  نے تقریبا ً سب   نےا سبال ازار  کو مطلقاً ممنوع قرار  دیاہے ، انہوں نے ا س بارے میں فقہائے احناف  کی  تصریحات  کو نہیں چھوڑا بلکہ اختیار  کیاہے  جیساکہ شروع  میں ہم نے طحطاوی   بحر ، قہستانی ،ا ور بدائع  کے  حوالہ  سے عبارات  نقل کی ہیں  بلکہ امام ابو حنیفہ  ؒ سے بھی  علی الاطلا ق اس کی مخالفت  منقول  ومصرح  ہے۔اصل علمائے  احناف  اور  مشائخ احناف یہی ہیں ،اکابر  کے فتاویٰ  ان  فقہاٰ ء کی عبارات  کے عین مطابق  ہیں، باقی  حضرت ملا علی القاری ؒ ، علامہ عینی ؒ  وغیرہ  حضرات  مشائخ  احناف  میں سے ہونے  کے باوجود  ان کی محدثانہ  شان  بھی ہے، اس  مسئلہ  میں  بعض  احادیث  میں ” مخٰلہ” وغیرہ کی قید  کے پیچ نظر  اس قید کو احترازی سمجھتے ہوئے  انہوں نے  یہ قول  کیاکہ اگر اسبال  ازار،   جرثوب   تکبر کے  طور پر  ہوتو حڑام  ہے، تکبر  کے  بغیر  ہوتو  پھر مکروہ  تنزیہی ہے  یہ بظاہر  اصل حنفی مسلک  نہیں۔  یہ ان کی محدثانہ  شان  کا اظہار  ہے۔

 الحاصل  :  ہمارے  اکابر رحمہم اللہ کا فتویٰ مسلک احناف  کے بالکل مطابق ہے اور  کسی  شخص کا اسبال ازار  میں عدم  تکبر کا دعویٰ  شرعا مسموع نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب 

بندہ محمد  عبداللہ عفا اللہ عنہ

رئیس دارالافتاء جامعہ خیر المدارس ملتان

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/538309416538308/

اپنا تبصرہ بھیجیں