بلا نیت تکبر شلوار نیچے لٹکانے کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:100

دارالعلوم کراچی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 محترمین مفتیان کرام  آپ حضرات سے مسئلہ ہذا میں  رہنمائی  مطلوب ہے ، امید ہے کہ تفصیلی جواب  سرفراز فرماکر  مشکور وممنون  فرمائیں گے ۔

فقہائے احناف  میں سے علامہ کورانی،ملاعلی قاری  اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی  رحمہم اللہ ” اسبال الازار ” کے بارے میں  یہ مسئلہ بیان کرتے ہیں اگر تکبر کے ساتھ ہو تو حرام یا مکروہ  تحریمی ہے اور اگر تکبر   کے بغیر ہوتو مکروہ تنزیہی ہے ۔ ( اور فتاویٰ عالمگیریہ میں  بھی یہ بات مذکور ہے)  

ملاحظہ فرمائیں  : ( عمدۃ القاری ، کتاب اللباس ،  باب : من جرازارہ من غیر  خیلاء : رقم الحدیث  دارالکتب العلمیۃ )

( الکوثر الجاری الی ریاض البخاری  ، کتاب اللباس، باب من جر ازارہ  من غیر خیلاء: رقم الحدیث  دار احیاء التراث  العربی )

 ( مرقاۃ  المفاتیح  ، کتاب الصلاۃ  ، باب الستر ، رقم الحدیث: کتاب اللباس، الفصل  الاول ، رقم   الحدیث ، وکتاب الفضائل  ، باب  فضائل سید المرسلین  رقم الحدیث  ،رشیدیہ )

اور علمائے دیوبند  کےا س مسئلہ  میں دو گروہ ہیں : پہلے  گروہ محمد مولانا محمد ادریس کاندہلوی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری  اور مولانا محمد زکریا  کاندہلوی  رحمہم اللہ اس  بات کے قائل ہیں  کہ “اسبال الازار  ” اگر تکبر  کے ساتھ ہوتو حرام یا مکروہ تحریمی  ہےا ور اگر تکبر کے بغیر  ہو تو مکروہ  تنزیہی ہے ، ( نوٹ  : ان سب حضرات  نے اکثر علامہ نووی رحمہ اللہ وغیرہ  ” شوافع” کی کتب واقوال پر اعتماد  کیاہے )

 ملاحظہ فرمائیں  : ( التعلیق الصبیح ،کتاب اللباس ۔۔الخ )

اور دوسرے گروہ میں علامہ  انور شاہ کشمیری ، مولانا بدر عالم  میرٹھی، مولانا اشرف علی تھانوی  رحمہم اللہ اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم  نے  اس بارے میں یہ  فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں تکبر  کی قید کا اعتبار  نہیں ہے ، اسبال ہر حال میں مکروہ تحریمی  اور ناجائز ہے ۔

  ملاحظہ ہو : (امدادا لفتاویٰ ،ا حکام  متعلقہ لباسم ٹخنوں سے نیچے پاجامہ  یا تہبند  لٹکانا ودفع  شبہ متعلقہ  مسئلہ  مذکورہ، جوابا شکال  برکرہت  اسبال بدون خیلاء :4/121۔123 مکتبہ دارالعلوم  کراچی)

( اصلاح رسوم ، آٹھویں فصل، ص :29،30 دارالاشاعت  )

اعلاء السنن ، کتاب الحظر  والاباحۃ ، باب النھی  عن الثوب   المز عفر  للرجال ، فوائد  شتی تتعلق  باللبس ولااستعمال : 17/366 ادارۃ القرآن کراتشی )

( نوٹ : اس دوسرے  گروہ  کے تمام  مستدلالت  کا جواب مسلک   بریلویت کے شیخ  الحدیث  جناب غلام  رسول سعیدی صاحب  نے اپنی تفسیر  ” بتیان القرآن ، ( جلد  :4 صفحہ  321 تا 331)  میں دیاہے ،ا سے بھی ملحوظ  خاطر رکھ   لیاجائے ،

اس کے علاوہ علماء دیوبند  کے تمام  فتاویٰ جات میں بھی اسی طرح   ( بہر صورت  مکروہ تحریمی کا قول ) مذکور ہے ،

چنانچہ ! فتاویٰ دارالعلوم  دیوبند  : 16/147،امدادا لفتاویٰ : 4/121 ،ا مدادالاحکام  : 4/337 ، فتاویٰ محمودیہ : 19/273 ، کفایت المفتی  : ( مفتی  کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے دو مقامات  پرا س فعل  کے بارے  میں لکھا ہے کہ ایسا کرنا” سخت گناہ ”  ہے ،ملاحظہ ہو:3/311، 9/156 اور ایک جگہ  لکھا ہے  کہ  ” مکروہ تنزیہی  ” ہے ، ملاحظہ  ہو: /430) احسن الفتاویٰ : 3/296 ، فتاویٰ رحیمیہ :5/146، فتاویٰ حقانیہ: 2/416، 3/195  ، آپ کے مسائل اور ان کا حل   3/323 ، فتاویٰ دارالعلوم  زکریا : 2/ 216  ، نجم الفتاویٰ : 2/ 392، فتاویٰ عبادالرحمٰن : 5/148 ، میں حرمت  ، کراہت  تحریمی  اور سخت گناہ  کا حکم مذکور ہے۔  

 مذکورہ بالا  تفصیل  ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم  یہ  کرنا ہے کہ

  • فقہاء احناف کے نزدیک  تکبر کی نیت کے بغیر  “اسبال ازار ” کا کیاحکم ہے ؟ اس  بارے میں کتب فقہیہ میں کیا تفصیلات ہیں ؟
  • “اسبال الازار ” سے متعلق مذکورا حادیث میں سے جو احادیث  ( تکبر کی قید سے) مطلق ہیں ، انہیں فقہائےا حناف  کے نزدیک  ( تکبر کے ساتھ) مقید ( احادیث )  پر محمول کیاجائے گا یا نہیں ؟َ
  • اکابرین علماء دیوبند رحمہم اللہ کی اکثریت نےا س مسئلہ میں فقہائے احناف  ( ملاعلی قاری  ، علامہ عینی ، شاہ عبدالحق محدث دہلوی  رحمہم اللہ )  کی اتباع کو کس بناء  پر ترک کیا؟ بالفاظ  دیگر ! ا س مسئلہ میں فقہائے احناف  کی عبارات  کو چھوڑ کر  براہ راست  سے استدلال  کیوں کیا گیا؟

فقط والسلام !

المستفتی :

محمد  راشد ڈسکوی  

استاذ ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف  جامعہ فاروقیہ کراچی  

 الجواب حامداومصلیا

1،2،3) مسئلہ “اسبال ازار  ” سے متعلق  حنفیہ کی کتب  فقہیہ میں  بہت کم تعرض  کیاگیا ہے ، البتہ  مختلف  شراح حدیث  نے اس  مسئلہ  پر کلام  فرمایا ہے،  شروح حدیث  کے مطالعہ  سے اسبال ازار  کی تین صورتیں معلوم ہوتی ہیں:

پہلی صورت:

اسبال ازار بنیت  تکبر ہو ۔ اس کے مکروہ  تحریمی ہونے پر  اتفاق  ہے ۔وتدل علیہ الروایات  المقیدہ بالبطر والخیلاء ۔ ( دیکھیے صفحہ نمبر 4 )

 دوسری صورت :  اسبال ازار  کسی عذر کی بناء پر ہو ، مثلا  پیر پر زخم  چھپانے کی غرض  سے ہو یا اسبال ازار   بے توجہی  کی بناء پر  ہو۔ اس  پر وعید نہ ہونے اور مواخذہ  نہ ہونے میں کسی کا اختلاف   نہیں ۔ وتدل علیہ الروایات  المرخصۃ مثلا رخصۃ سیدنا ابی بکر  رضی اللہ عنہ  ابن مسعود رضی اللہ عنھما ۔

تیسری صورت  : اسبال ازار  عادت  اور فیشن  وغیرہ  کی بناء پر  قصداً ہو، البتہ  تکبر کا قصد نہ ہو۔ اس صورت  کے حکم میں علماء کرام کا اختلاف  ہے۔

قول اول : کراہت تنزیہ  

  بعض علماء  کرام  جیسے علامہ نووہ ؒ اور ملا علی قاری ؒ وغیرھما  کے نزدیک  مکروہ  تنزیہی  ہے۔ اوریہ حضرات  اسبال ازار  کی مطلق  روایات  ( جن میں ” بطر  ” اور ” خیلاء ” کی قید نہیں ہے  ) کو مقید روایات  پر وجوباً محمول کرتے ہیں  ۔ ( دیکھیے  صفحہ نمبر  8)  

 قول دوم  : کراہت تحریم

بعض علماء  کرام  جیسے  علامہ ابن حجر ؒ  اور علامہ  ابن العربی  ؒ کے نزدیک  اگر تکبر  کی نیت نہ بھی ہو، پھر  بھی  اسبال ازار مکروہ تحریمی  ہے، کیونکہ اس میں ” مظنہ  تکبر” بہر حال  موجود ہے ۔ علامہ  ابن  عبدالبر  ؒ نے اس  صورت  کو مذموم  فرمایا ہے جس سے بھی کراہت  تحریمی معلوم  ہوتی ہے ، کیونکہ  چیز کی شریعت  میں  مذمت بیان کی  گئی ہو ،ا س کا درجہ  کراہت تنزیہی  سے بڑھ جاتا ہے  ،ا لبتہ یہ  صورت پہلی صورت  کی بنسبت  کراہت سے کم ہے  ، کیونکہ وہاں قصد  تکبر  ہے اوریہاں ” مظنہ ”  تکبر ہے  ۔ ( دیکھیے صفحہ نمبر 9)

قول بکراہت  کی ترجیح  اور وجود  ترجیح :

 اب تیسری  صورت میں ترجیح  کراہت  تحریمی  کو ہے  یا  کراہت تنزیہی  کو؟ اور جانب  راجح کی وجوہ  ترجیح  کیاہیں ؟ ا س سلسلے میں ہمارے اکابر   علماء پاک وہند  اور علماء عرب   نے کراہت تحریمی  کو ترجیح  دی ہیں ۔ جس کی وجوہ درج ذیل ہیں :

1۔نبی کریم  ﷺ اور صحابہ  کرام رضی اللہ عنہ   اسبال ازار  سے مطلقاً  ممانعت فرماتے تھے  ، کسی سے یہ  نہیں  پوچھتے تھے  کہ آپ نے ایسا تکبر  کی وجہ سے کیاہے یا  بلا تکبر  ؟ نہ مسئلہ بیان کرتے وقت  یہ تفصیل  کرتےتھے  کہ تکبر  کی قصد سے اسبال  ازار  ممنوع  ہے اورا س کے بغیر جائز  ہے ،  صحابہ کرام  کی عام اور مطلق ممانعت   کے اہتمام کا اندازہ   حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ سے   لگایا جاسکتاہے  کہ ان پر جب  خنجر  کے ذریعے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ سخت زخمی حالت میں تھے ۔ا یک شخص ان کی عیادت  کے لیے آئے  جب واپس جارہے  تھے  تو ان کا ازار  ٹخنوں سے نیچے تھا ۔ حضرت عمر رضی  اللہ عنہ  کی جب ان پر نظر  پڑی تو ا س سخت  زخمی ہونے  کی حالت میں بھی ان کو واپس  بلوایا اور ان کونصیحت  کرتے ہوئے فرمایا : یا ابن اخی ارفع  ثوبک  فانہ انقی لثوبک  واتقی  لربل  ۔ ( ملاحظہ ہو صفحہ نمبر  8 )

 2) نبی کریم ﷺ جیسی پیاری  اور عظیم  شخصیت  جن کےا سوہ حسنہ پر عمل پیرا  ہو نے کی طرف  قرآن کریم  تاکید کے ساتھ  دعوت  دیتا ہے ۔ آپ کا مبارک  طرز عمل  ازار  کو ٹخنوں  سےا ونچا  رکھنے کا تھا ،ا ورا سبال ازار   سے عملا ً اجتناب  اور قولا ممانعت  فرماتے تھے  اور آپ کی اقتداء میں جمہور  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول  وعمل بھی یہی تھا ۔ا ور جن قلیل  صحابہ کرام کے بارے میں اسبال ازار   کی روایات منقول ہیں ۔ ان کا یہ عمل  مختلف  اعذار  پر مبنی تھا ۔ پھر ان میں سے بعض  اعذار  کو صاحب  شریعت  نے قبول  فرماکر  ان کو معذور  قرار  دے دیا جیسے کہ حضرت ابوبکر  صدیق اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ۔ اور بعض  کے اعذار  کو سننے  کے بعد  رفع ازار  کی  تاکید  فرمائی  ، جیسے عمرو بن زرا             ۃ ( دیکھیے  صفحہ نمبر 5)  

 لہذا نبی  کریم ﷺ اور جمہور  صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین  کے عملاً اجتناب  اور قولاً ممانعت  کی اقتداء کرتے ہوئے اسبال ازار  سے عملاً اجتناب  کیاجائے گا ۔

3۔ اسبال ازار  سے متعلق  اکثر روایات  مطلق ہیں  اور ا سمیں بطر  اور خیلاء  کی قید نہیں ہے اور وہ اپنے ظاہر  سے  “قصدا اسبال ازار  ” کی اس صورت  کو بھی شامل  ہے جس  میں تکبر   کا قصد  نہ بھی ہو ، لہذا احتیاط  کا تقاضا یہ ہے کہ اسبال ازار  کی مذکورہ  صورت کو  مکروہ تحریمی  سمجھ  کر عملاً خود اس  سے اجتناب  کیاجائے ۔

4۔اگر ان احادیث کو قوت  میں ممانعت  والی احادیث  کے برابر  بھی تسلیم  کرلیاجائے تو بھی احتیاط  ممانعت  والی احادیث   پر عمل  کرنے میں ہے کیونکہ جب  مبیح   اور محرم میں تعارض  ہوجائے توعمل  محرم پر ہوتا ہے ۔  

5 )اسبال ازار  میں اگر قصد  تکبر  نہ بھی ہو تو ا  س میں   ” مظنہ ”  تکبر ” ضرور  ہے،۔اور تکبر  حرام اور  اس پر  وعید  شدید ہے  اور تکبر  ایک پوشیدہ مرض  ہے اور  حضرت تھانویؒ  جو اس فن   کے امام اور  مجدد ہیں ،ا ن کی وضاحت  کے مطابق تکبر کے کئی  سارے اقسام  ہیں اور اکثر  ان میں ادق واعمض  اس قدر ہیں  کہ بجز   محقق کے کسی  کی نظر وہاں تک  نہیں پہنچتی  اور اس میں علماء ظاہرکو   بھی اس  محقق کی تقلید  حقیقت  کی جستجو  کے بغیر  کرنی  پڑتی ہے ۔ ( طریقت  وشریعت  ص 188 ،اسلامیات)  

 پس  جب  تکبر  حقیقت  کے اعتبار  سے اتنی مشکل  اور باریک  بیماری  ہے اور حکم  کےا عتبارسے  حرام اور  وعید  شدید کا سبب  ہے، تو اسبال  ازار  جو اس  کیمتعدد اسباب  میں سے  ایک سبب ہے  وہ کیسے جائز  ہوسکتا  ہے؟  جیسے  دیگر کبائر  مثلا زنا   کے اسباب لمس  اور تقبیل  وغیرہ ہٰں  ۔ا س لیے لمس اور تقبیل  وغیرہ کی طرح اسبال   ازار  سے پوری احتیاط رکھی جائے  گی ۔

 6) اگر تسلیم  کرلیاجائے  کہ ممانعت  صرف تکبر  کی صورت  میں  ہے ، اور تکبر   کے بغیر  اختیاری  طور پر بھی  “اسبال”  کیاجاسکتا ہے  ، توتکبر   کے نہ پائے جانے کا دعویٰ  خود کوئی اپنے بارے میں نہیں کرسکتا  جیساکہ  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے خود اپنے  بارے میں اس کا دعویٰ   نہیں کیا تھا، نیز یہ قرآن کریم  کی اس آیت مبارکہ   کے بھی خلاف  ہے  :

فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿٣٢﴾ ( النجم  )

 7) ” اسبال  ازار”  کی ممانعت  کی علت  تکبر ہے  ، لیکن چونکہ  تکبر ایک  مخفی امر ہے  جس کا  پتہ چلانا دشوار  ہے اور اس  کا کوئی معیار وضابطہ  بھی نہیں ہے لہذا اس کا سببب  یعنی  ” اسبال”  علت  کے قائم مقام  ہوگا، اور ممانعت  محض  ” اسبال”  سے ہی متحقق  ہوجائے گی  ۔ا ورعلت  کے خفاء  کے وقت  سبب کو اس کے قاےم مقام  کرنے کے متعدد  نظائر  شریعت میں موجود  ہیں ایسی صورت  میں حکم کا مدار  علت  پر نہیں ، بلکہ سبب پر ہوتا ہے  ۔

8)  اگر بلاتکبر ا سبال ازار  جائز ہوتا تو بیان  جواز کے لیے شارع  علیہ السلام  کم از کم ایک  مرتبہ اسبال  پر عمل  فرماتے  تا کہ حکم  شرعی واضح  ہوجائے ، لیکن ایسا  ثابت  نہیں ۔

لہذا اپنے عمل  کی حد تک  کراہت تحریمی  کو راجح سمجھ کر احتیاط  پر عمل کرنا لازم ہے  البتہ  دوسرے  پر نکیر  کرنے میں  بھی  احتیاط  ملحوظ رکھنی لازم  ہے ۔

روایات اسبال ازار مقیدہ بالبطر  والخیلاء

نبی کریم ﷺ کا اسبال ازار سے ممانعت

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  کا اسبال ازار سے ممانعت

عبارات متعلقہ  قول کراہت تنزیہہ

عبارات  متعلقہ  بہ قول کراہت  تحریم

 منسلک پی ڈی ایف فائل….

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی  

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/542558326113417/

اپنا تبصرہ بھیجیں