بلانیت تکبر شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا حکم

دارالافتاء جامعۃ الرشید

بسم اللہ 

بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب مد ظلہم 

ا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

درج ذیل مسئلے میں شرعی رہنمائی درکار ہے : 

موضوع : فی زمانہ پینٹ شرٹ کو ضابطہ لباس بنانے کا حکم 

آج کل پینٹ شرٹ کا بر صغیر پاک وہند سمیت ساری دنیا میں رواج عام ہوگیا ہے ، مختلف ممالک ، اقوام اور مذہب والے افراد عموماً

اور نوجوان اور بچے خصوصاً یہی لباس استعمال کررہے ہیں ۔ا ن میں غیراسلامی ہر قسم کے ممالک شامل ہیں۔

٭ نیز اسلامی وغیراسلامی ممالک کے اداروں میں بحیثیت یونیفارم یا ضابطہ لباس کے اس کانفاذ بھی جاری ہے مثلا : پولیس ، فوج ،

اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز وغیرہ ۔ 

٭ بعض جگہوں میں مسلمان اہل علم بھی اسے پہنتے ہیں ،۔ مثلاً ترکی یا مصر وغیرہ 

٭ بعض اداروں میں کام کی نوعیت ہیا س طرح کی ہوتی ہے جس کے لیے پینٹ شرٹ ناگزیر ہوتا ہے، اور کرتا شلوار میں کام کرنا مشکل ودشورا ہوتا ہے مثلا پلانٹس پر یا تکنیکی اداروں میں کام کرنے والے، یا جنگی مشقیں کرنے والے ، یا فوج کی ٹریننگ وغیرہ میں ۔

٭ بعض کاموں میں اس لباس کا عرف ہوتا ہے یا بعض عہدوں پرا س کا عرف ہوتا ہے مثلا کمپنی کے سیلز مین وغیرہ اور چونکہ اس کا رواج اور عرف عام ہوتا ہے اس میں کسی دوسرے لباس کو پسند نہیں کیاجاتا ۔ 

٭ کمپنیوں اور آفسز میں اسٹاف کے لیے ضابطہ لباس بنایا جاتا ہے ( تاکہ لوگ مختلف قسم کے الگ الگ لباس نہ پہنیں اور ماحول میں یکسانیت رہے ) ا س میں بھی فی زمانہ عموماً پینٹ شرٹ کو متعین کیا جارہاہے ۔

خلاصہ یہ کہ اس لباس کا شیوع مختلف اقوام ، ممالک ،اداروں ، کمپنیوں اور ہر عمر کے افراد میں اس کثرت کے ساتھ ہوگیاہے کہ کسی خاص قوم یا مذہب کے ساتھ اس کو مخصوص نہیں سمجھا جارہا ۔ 

ب۔ برصغیر پاک وہند میں پینٹ شرٹ کا لباس انگریزوں نے متعارف کروایا جو کہ غیر ملکی اور عیسائی تھے، چونکہ اس زمانے میں یہ لباس انگریزوں ہی کےساتھ خاص سمجھا جاتا تھا اورا س کے پہننے والے بہت قلیل تعداد میں اور نمایاں ہوتے تھے ، لہذا حضرات علماء کرام نےا س لباس کو تشبہ بالکفار کی علت بناء پر ناجائز قرار دیا ۔ 

تاہم علماء نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ حکم زمان یا مکان کے لحاظ سے تبدیل ہوسکتا ہے ۔

• حضرت حکیم الامت سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ جو شخص لندن میں مسلمان ہو اور وہاں کوٹ پتلون پہنے تو تشبہ ہوگا یا نہیں ؟

حضرت علیہ الرحمۃ نے فرمایا : وہاں تشبہ نہیں ہوگا کیونکہ وہاں یہ نہیں سمجھاجاتا کہ یہ غیر قوم کا لباس ہے وہاں تو سب کا لباس یہی ہےکوئی امتیاز نہیں۔ اگر یاہں پر بھی کوٹ پتلون عام ہوجائے کہ ذہن سے خصوصیت جاتی رہے تو ممنوع نہ ہوگا ۔

ج۔ نیز اس سلسلے میں ہمارے اردو فتاویٰ جات میں بھی اس قسم کے لباس کے حکم کا مدار عرف وزبان پر رکھاگیا ہے،چند حوالے درج ذیل ہیں :

• فتاویٰ محمودیہ ( ج 19ص 283، مکتبہ فاروقیہ ) 

سوال : زید کا کام کپڑےسینے کا ہے اور مختلف قسم کے کپڑے بنانے ہوتے ہیں جس میں کوٹ پتلون بھی تیار کرنا ہوتا ہے اور پتلون اس وقت اس قسم کی تیار کی جارہی ہے کہ رانوں میں پھنسی ہوتی ہے ، جواب عنایت فرمائیں کہ کوٹ اور پتلون سینا جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب : اس طرح کا کپڑا سینے میں انکشاف ستر کا تو احتمال نہیں ہے یعنی اس سے مرد کا وہ حصہ بدن نہیں کھلتا جس کا چھپانا فرض ہے ۔

رانوں میں اگر پتلون اس طرح پھنسی ہو کہ ران کی ہیت ادھر سے ظاہر نہ ہوتی ہو تو کچھ اشکال نہیں البتہ خود ایسے کپڑے پہننا مکروہ ہے تو اس وجہ سے ان کے سینے میں بھی ایک قسم کی کراہت ہوگی لیکن اگر یہ لباس عامۃ مسلمان پہنتے ہوں تو کراہت بھی نہیں ہوگی ۔

• فتاویٰ محمودیہ (ج 19 ص 280 ، مکتبہ فاروقیہ ) 

سوال : کوٹ اور پتلون پہننے والوں ا ور سر پر انگریزی بال رکھنے والوں کا حق میں اب اس حدیث تشبہ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس یا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا ، اگر اب بھی اطلا ق ہوتا ہے تو کیا انگریزی بال رکھنے والا ہر وقت گناہ میں مبتلا رہتا ہے یا صرف ایک گناہ ہے کہ انگریزی بال رکھے ہیں ؟

جواب : اب اس میں اتنا تشدد نہیں،ا تنا ضرور ہے کہ ان اطراف میں یہ صلحاء کا لباس نہیں، اس سے بچنا چاہیے ، کراہت کا درجہ ہے ۔ انگریزی بالوں میں بھی کراہت ہے جو مستر ہے ۔

٭ احسن الفتاویٰ ( ج 8 ص 92) 

کوٹ پتلون کی سلائی اور پہننے کا حکم 

پتلون اگر اتنی تنگ ہو ہ اعضاء مستورہ کا حجم نظر آتا ہے تو ا س کا پہننا اور سینا حرام ہے لہذا اس سے حاصل شدہ آمدن حرام ہوگی ۔ اور اگر اتنی چست نہ ہو بلکہ ڈھیلی ہو تو اس کے پہننے اور سینے کی گنجائش ہے مگر تقویٰ کے خلاف ہے۔ 

کفایت المفتی ( ج 9 ص 164) 

سوال ؛ کیا انگریزی بال ، ہیٹ ، کوٹ پتلون یہ چیزیں تشبہ بالقوم میں داخل ہیں یا نہیں ؟ نیز صرف ہئیت مجموعی میں ہوگا یا جز سے بھی ہوجائے گا ؟

جواب: ان میں سے ہر چیز تشبہ کافی ہے مگر تشبہ کا حکم اسی صورت میں ہوتا ہے کہ دیکھنے ولاا سے دیکھ کر شبہ میں پڑجائے کہ یہ شخص اس قوم کا فرد ہے مثلا ً ہیٹ لگانےوالے کو کرسٹن سمجھاجائے ۔ 

تو جو چیزیں کہ غیر لوگوں میں بھی عام طور پر استعمال ہونے لگی ہوں مثلا ً بوٹ ، پتلون کوٹ ان میں تشبہ کی جہت کمزور اور کراہت خفیف رہ جاتی ہے ۔

یہ قاعدہ ہے کہ جواحکام عرف پر مبنی ہوتے ہیں ، ان کا حکم بھی عرف کے تابع رہتا ہے ۔

جاء فی رد الحکام شرح مجلۃ الاحکام (1/41) 

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں :

سوالات

موجودہ زمانے میں پینٹ شرٹ کے شیوع کے لحاظ سے کہ اس میں شہری نوجوانوں کی غالب اکثریت کا لباس ہر وقت یہی ہوتا ہے اور اب یہ لباس دنیا کے ایک بڑے حصے کے مسلمانوں میں عام ہوچکا ہے اور اس کو محض غیر مسلموں کا لباس نہیں شمار کیاجاتا، سوال یہ ہے کہ :

1۔ پینٹ شرٹ میں تشبہ والی علت فی زمانہ باقی رہی ہے یا نہیں ؟

2۔کیا حضرت حکیم الامت تھانوی صاحب ؒ کی وہ بات جو لندن والو کے بارےمیں آپ نے ( کم از کم 70 سال قبل ) ارشاد فرمائی تھی آج لندن کے علاوہ دیگر ممالک بشمول پاکستان میں صادق آتی ہے یا نہیں ؟ 

3۔اگر علت باقی ہے ، تو پھر شیوع کا بالکل درست پیمانہ کیا ہوگا جس کے بعد اس کو تشبہ سے خالی سے کہنا درست ہوگا؟

4۔اگر علت باقی نہیں تواب انفرادی حیثیت میں اس لباس کو پہننے کا کیا حکم ہے؟ 

5۔ نیز ( بشرط ستر) اس کو پہن کر امامت کرانے کا کیا حکم ہے ؟ ( کیونکہ اکثر اداروں میں مصلوں پر جماعت کرانے کے لیے یہ صورت روز پیش آتی ہے ) 

6۔ اجتماعی طور پر کسی ادارے میں اس کو ضابطہ لباس بنانے کا کیا حکم ہے ؟ ( چاہے وہ کاروباری ادارہ ، کمپنی ، آفس ہو یا تعلیمی یا فنی ادارہ ) 

7۔ جس جاب کے لیے پینٹ کا استعمال زمانے کی تبدیلی کے ساتھ عمومی عرف بن گیا ہے ۔ ( مثلا ً کمپنیوں کے سیلز مین وغیرہ) اس جاب کے لیے اس لباس کو ضانبطہ بنا نے کا کیا حکم ہے ؟

8۔ پینٹ عموماً ٹخنوں سے نیچے ہوتی ہے جس میں اسبال ازار کا پہلو معلوم ہوتا ہے ، تاہم یہ بطور رواج کے کیاجاتا ہے بوجہ اس کے کہ اس لباس کی بناوٹ ہی ایسی ہے اور ٹخنوں سے اونچا ہونا معاشرے میں عجیب معلوم ہوتا ہے، اس میں تکبر کا پہلو عموماً ذہن میں نہیں ہوتا نہ ہی یہ طریقہ محض سرداروں یا طبقہ اشرافیہ کے ساتھ خاص ہے بلکہ پینٹ پہنے والا ہر امیر غریب آدمی اس کو ایسے ہی پہنتا ہے ،ا س سارے تناظر میں کہ جب یہ طریقہ آج کے معاشرے میں متکبرین کے ساتھ خاص نہیں سمجھاجاتا نیز پہننے والے کی نیت بھی تکبر کی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے ٹخنوں سے نیچے رکھنے کا کیا حکم ہوگا ؟

حضرت مولانا منظور احمد نعمانی صاحب نے من جر ثوبہ خیلا ۔ والی حدیث کی شرح میں فرمایا : 

” علماء نے لکھا ہے کہ اگر ٹخنوں سے نیچا تہبند یا پاجامہ تفاخر واستکبار کے جذبہ سے ہو تو حرام ہے اور اسی پر جہنم کی وعید ہے ، اور اگر صرف عادت اور فیشن کی بناء پر ہے تو مکروہ ہے اور اگر نادانستہ بے خیالی اور ب بے توجہی کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہوتو اس پر کوئی مواخذہ اور عتاب نہیں ، معاف ہے۔ ” ( معارف الحدیث جلد 6 صفحہ 292)

جبکہ تکملہ فتح المسلم ( از حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ) جلد 10 صفحہ 108۔107 میں تکبر کے علت خفیہ ہونے کی وجہ سے مطلقاً اسبا ل ازار کو ہی ممنوع قرار دیا گیاہے ۔

9۔اگر اسبال کو مطلقاً ممنوع قرار دیاجائے تو کیا جو کثیر تعداد مسلمانوں کی اس کو پہنتی ہے ۔ وہ ( ستر پوشی کا خیال رکھنے کے باوجود ) ناجائز یا حرام کہلائے گا ؟ کیونکہ پہننے والے زیادہ سے زیادہ نماز کے دوران اس کو ٹخنوں سے اوپر کرتے ہیں باقی وقت میں اس کواوپر کرنے کا تعامل معدوم ہے کیونکہ ایسا کربا بالکل اچھانہیں سمجھا جاتا ۔ تو کیا ایسی صورتحال میں پینٹ پہننا بالکل ممنوع قرار پائے گا ( بوجہ ایک مستقل گناہ کا سبب بنے گے ) 

10۔ نیز اگر یہ ممنوع ہوتو پھر اس کو ضابطہ لباس بنانے کا کیا حکم ہوگا؟ جبکہ کمپنی کی طرف سے ٹخنوں کو کھولنے یا بند کرنے کے بارے میں کوئی ہدایات نہیں لیکن لوگ تو عمل عرف کے مطابق ہی کرتے ہیں ۔ تو کیا کمپنی گناہ گار ہوگی ؟

11۔ اسکولز ، کالجز ، یونی ورسٹیز، فوج، پولیس،ا سلامی وغیوہ اسلامک بنک ، فیکٹریاں ، آفسز میں کام کرنے والے دنیا کے مختلف خطوں کے بلا مبالغہ کروڑوں مسلمان روزانہ عموماً اس لبا س کو پہننے کی بناء پر کیا مسلسل کبیرہ گناہ میں ملوث قرار پائیں گے ؟

اور جبکہ یہ عمل چھپا ہوا نہیں بلکہ سب کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ، تو کیا وہ حدیث شریف کے مطابق داسقین اور مجاھرین کی وعید میں داخل ہوں گے ؟

12۔ عموماً فتاویٰ میں ایسی پینٹ سے منع کیاجاتا ہے جو ا س قدر تنگ ہو کہ ا س سے ستر ظاہر ہو جیساکہ اوپرا حسن الفتاویٰ کے حوالے سے گزرا ، اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ کسی پینٹ کے ساتر قرار نہیں پائے گی کیونکہ ہر پینٹ میں رانوں کا حجم اور کولہوں کی بناوٹ تقریباً واضح ہوتی ہے ۔ ( خصوصاً نماز کی حرکات کے دوران تو یہ اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے ) تو کیا اس کا معیار عورت متقدمہ کا ظہور ہے یا کیاہے ؟ یہ سوال کثرت ابتلاء کی وجہ سے بہت اہم ہے اور نماز اورا مامت وغیرہ کے مسائل میں بھی اس کی بہت ضروری پڑتی ہے ۔

مندرجہ بالا تمام سوالات کا منشا یہ معلوم کرنا ہے کہ اس معاملے میں انفرادی واجتماعی طور پر اب کس حد تک تشدید یا تخفیف شریعت کے مطابق ہے؟ تا کہ اس کے لحاظ سے افراد اور اداروں کو رہنمائی دی جاسکے ۔

براہ کرم جواب دے کر ممنون فرمائیں ۔

والسلام 

اظفر اقبال رشید 

الجواب باسم ملہم الصواب 

1۔ تشبہ والی علت باقی نہیں رہی۔

2۔، 3 ۔ بظاہر ایسے ہی ہے ،ا س لیے کہ کوٹ پتلون کو اب ہمارے ہاں بھی عام لباس سمجھاجاتا ہے ۔

4۔ گنجائش ہے ، البتہ ہمارے دیار میں یہ لباس صلحاء کا نہیں سمجھاجاتا ،ا س لیے بلاضرورت نہیں پہننا چاہیے ۔

5۔ بہتر تو یہ ہے کہ امام ل کا لباس ہر لحاظ سے ساتر و ، جیسا کہ ہمارے لباس علماء وصلحاء کا لباس ہے اور اگر پینٹ ہے تو اس میں بلاکراہت نما ز ادا کرنے کے لیے بہر حال ضروری ہے کہ وہ اتنی ڈھیلی ڈھالی ہو کہ اس میں واجب الستر حصہ کا حجم نمایاں نہ ہو، ورنہ ا س میں نماز مکروہ تحریمی ہوگی اور ایسا شخص گناہگار ہوگا، اور مستحق امامت نہیں ہوگا، البتہ کسی مجبوری میں یا ویسے ہی ا س نے نماز پڑھادی تو اس نماز کا اعادہ واجب نہ ہوگا کیونکہ نماز کا اعادہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب نماز کی ہئیت اور اجزاء میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے نہ کہ مطلقاً جبکہ یہ واجب ا س قسم کا نہیں، بلکہ یہ اجزاء سے خارج ہے، ( شامیہ 3/422) 

6،7۔ چونکہ پینٹ شرٹ عام لباس بن گیا ہے اور اب انگریز کا خاص شعار نہیں رہا، اس لیے اس طرح کا ضابطہ بنانے کی گنجائش ہے ، البتہ بہتر گنجائش نہیں ہے۔

8۔ احادیث مبارکہ اور مختلف فقہاء کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹخنے ڈہاھنکنے کی کل تین صورتیں بن سکتی ہیں جن کے احکام بھی مختلف ہیں لہذا ذیل میں تینوں صورتیں مع حکم تحریر کی جاتی ہیں :

1) تکبر کے قصد سے ٹخنے ڈھانکے جائیں ، یہ صورت بالاتفاق حرام اور کبیرہ گناہ ہے ،ا سی پر درد ناک عذاب کی وعید شدید وارد ہوئی ہے ، لہذا قصداً ایسا کرنے والا فاسق ہوگا اور امامت کا اہل نہ ہوگا۔ 

2) ٹخنے اپنے اختیار سے قصداًڈھانکے لیکن تکبر کی نیت نہ ہو، یہ صورت اہل علم کے درمیان مختلف فیہا ہے ، حنابلہ کے ہاں یہ صورت بھی نکروہ تحریمی ہے ، گوی اان کے نزدیک ہیلی اور دوسری صورت میں کوئی فرق نہیں ، دونوں کا ایک ہی حکم ہے اس لیے ان کے نزدیک ایک حدیث میں شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت کا مطلق حکم دوسری حدیث میں مذکور تکبر کی علت کے ساتھ مقید ومعلوم نہیں کیاجاسکتا ، کیونکہ یہ ا س صورت میں ہوسکتا ہے جب مورد ایک ہو ، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے، ایک حدیث کپڑے کو زمین میں گھسیٹنے کے بارے میں ہے جو تکبر کے قصد کے ساتھ مقید ہے اور دوسری مطلق ٹخنے ڈھانکنے کے بارے میں ہے جس پر جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے ۔ا سی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی مطلقاً اسبال کے حرام ہونے کے قائل ہیں ،مالکیہ میں بعض تحڑیم کے اور بعض صرف کراہت کے قائل ہیں اسی وجہ سے بعض مالکی علماء نے ا س اختلاف کی کا حاصل یہ نکالا کہ مطلق ٹخنے ڈھانکنے میں بھی کراہت شدیدہ ہے ، اگر چہ تکبر کا ارادہ نہ ہو، تکملہ فتح المسلم میں مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہ کا رجحان بھی کراہت تحریمیہ کی طرف معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ حضرت نے اس بحث کے شروع میں جمہور کا قول نقل کرنے کت بعد آخر میں اپنی رائے یہ بیان کی کہ یہاں اصل حرمت خیلاء مخفی ہے۔ اس لیے مطلق اسبال ہی علت تکبر کے قائم مقام ہے، کالسفر فی القصر ۔ 

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں بہرحال ٹخنے ڈھانکنا مطلقاً ممنوع اور ناجائز ہوگا اور جو شخص بھی ٹخنے ڈھانکے گا وہ نار جہنم کی اس وعید کا مستح ق ٹھہرے گا ۔خواہ وہ بقصد تکبر نہ ڈھانکے ، اس لیے ایسے شخص کو جو عادۃً ایسا کرتا ہو امام مقرر کرنا بالکل مناسب نہیں ، تاہم چونکہ جمہور اہل علم کے نزدیک تکبر کی نیت کے بغیر اسبال یعنی ٹخنے ڈھانکنا صرف مکروہ تنزیہی ہے ۔ ولامہ نووی ، علی قاری ، ابن المالک بھی اسی کے قائل ہیں اور فتاویٰ ہندیہ میں بھی اس کو مکروہ تنزیہی لکھا ہے اس لیے ایسے شخص پر حتمی طور پر فسق کا حکم لگانا مشکل ہے۔

واضح رہے کہ تکبر کا تعلق آدمی کے امیر یا غریب ہونے کے ساتھ نہیں ہوتا یعنی یہ ضروری نہیں کہ متکبر صرف مادار ہی ہو اور نہ یہ کہ مالدار ضرور متکبر ہوگا ،بلکہ متکبر وہ ہوگا جس میں تکبر پایا جائے گا اور حدیث کی رو سے تکبر نام ہے ” حق بات کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا ” لقولہ علیہ السلام : ” ان اللہ یحب الجمال ولکن الکبر ( ای ذالکبر) من بطراق وغمص الناس ” ( ترمذی ثانی ) اس لیے صرف اتنی بات کہ ” نہ ہی یہ طریقہ محض سرداروں یا طبقہ اشرافیہ کے ساتھ خاص ہے ، بلکہ پینٹ پہننے ولاا ہر امیر غریب آدمی اس کو ایسے ہی پہنتا ہے ” ٹخنے ڈھانکنے کی گنجائش یا جواز کی وجہ نہیں بن سکتی ۔

3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ٹخنے کھلے رکھنے کے ا ہتمام کے باوجود کبھی غیر اختیاری طور پر شلوار یا پینٹ نیچے ہوجائے یا تکبر کی نیت کے بغیر کسی ضرورت سے نیچے کرلے تو ا س میں کوئی گناہ نہیں ۔

( الفتاویٰ الھندیہ 43/183) ( الموسوعۃ الفقھیہ الکویتیہ 36/162) ( تکملۃ فتح المسلم 4/119) ۔ کلہا من الشاملہ الا التکملہ ۔ 

9،10 ۔ کوئی بھی ایسا کاما جس پر حدیث میں سخت وعید آئی ہو وہ محض تعامل یا عرف کی وجہ سے کسی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا، ” مااسفل من الکعبین من الازار دخل فی النار” اس صریح حدیث کے بعد بھی جو لوگ ٹخنے کھلے رکھنے کو بر اسمجھتے ہیں تو سوچنے کی بات ہے وہ بطرق الحق یعنی حق ٹھکرانے کا ارتکاب کرکے تکبر نہیں کررہے اور جو لوگ ٹخنے کھلےرکھتے ہیں ان کو معیوب اور برا سمجھ کر ” غمط الناس ” یعنی لوگوں کو حقیر نہیں سمجھ رہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے بہر صورت مطقاً ٹخنے ڈھانکنے کو حرام وناجائز کہا ہے ، جیساکہ نمبر 8 میں کچھ تفصیل گرگئی ہے ا س لیے اس قسم کے ناجائز عرف کے وقت بھی بہر صورت شلوار اور پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر رکھنے کا حکم دیاجائے گا ۔اور ٹخنے ڈھانکنا بہر حال ناجائز ہی ہوگا۔

اگر کمپنی کے لیے خلاف شرع پینٹ پر باضابطہ طور پر پابندی لگانا عملا مشکل ہو تو پھر کمپنی والوں پر حسب استطاعت لازم ہے کہ وقتا فوقتاً اپنے ملازمین کے سامنے اس برائی کی نکیر کرتے رہیں،ا س کے باوجود وہ باز نہ آئیں تو کمپنی والے گناہگار نہ ہوں ۔

11۔اس کے لیے جواب نمبر 8 اور نمبر 9 ملاحظہ کیجیے ۔

12۔ مرد کے ستر کے تحقق کے لیے ضروری ہے کہ گھٹنوں سے لے کر ناف تک اس کا جسم کسی ایسے موٹے کپڑے کے ساتھ ڈھکا ہوا ہو جس میں جسم کی کھال نظر نہ آتی ہو ، ورنہ نماز سرے سے ہی صحیح نہ ہوگی ۔ اور بلاکراہت نماز ادا کرنے کے لیے ضرورری ہے کہ وہ موٹا کپڑا اتنا ڈھیلا ہو کہ اس میں اعضاء مستورہ کا حجم ظاہر نہ ہوتاہو، ورنہ نماز مکروہ ہوگی ، گوکہ کپڑا موٹا ہونے کی وجہ سے نفس ستر حاصل ہوگیا، اس لیے فرض ادا ہوگیا لیکن چونکہ تنگ ہونے کی وجہ سے اعضاء مستورہ کا حضم ظاہر ہوجاتا ہے جس میں ستر کامل فوت ہوجاتا ہے نیز دیکھنے والوں کے لیے بھی انتہائی ناپسندیدہ ہوتا ہے اور بعض اوقات باعث فتنہ بھی بن سکتا ہے ، س لیے فقہاء کرام نے اس کو مکروہ قرار دیاہے ، تاہم ایسے کپڑے میں پڑھی ہوئی نماز واجب الاعادہ نہیں ، جیساکہ نمبر 5 کے جواب میں مذکور ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب 

حماد عفااللہ عنہ 

دارالافتاء جامعۃ الرشید

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/542576979444885/

اپنا تبصرہ بھیجیں