بلانیت تکبر  شلوار ٹخنوں  سے نیچے لٹکانے کا  حکم

جامعۃ العلوم  الاسلامیۃ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 مفتیان کرام  آپ حضرات  سے مسئلہ ہذا میں راہنمائی مطلوب ہے،ا مید  ہے کہ تفصیلی  جواب سے سرفراز  فرماکر  مشکور وممنون  فرمائیں گے ۔

 فقہائےا احناف  میں سے علامہ  عینی ، علامہ  کورانی  ، ملا  علی قاری اور  شاہ عبدالحق محدث دہلوی  رحمہم اللہ  ” اسبال الازار ”  کے بارے میں  یہ مسئلہ  بیان کرتے ہیں اگر تکبر کے ساتھ ہوتو    حرام یا مکروہ تحریمی   ہے اور اگر تکبر  کے بغیر ہوتو  مکروہ تنزیہی  ہے ۔ ( اور فتاویٰ عالمگیریہ میں  بھی یہ بات مذکور ہے )  

اور علمائے  دیوبند  کے اس مسئلہ   میں دو گروہ ہیں: پہلے  گروہ میں مولانا محمد ادریس کاندہلوی  ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری  اور مولانا محمد زکریا کاندہلوی  رحمہم اللہ  اس بات کے قائل  ہیں کہ ” اسبال الازار  ” اگر تکبر  کے ساتھ ہو تو  مکروہ  تحریمی  ہے اور اگر  تکبر   کے بغیر  ہوتو مکروہ تنزیہی ہے ۔ ( نوٹ : ان سب حضرات  نے اکثر علامہ نووی  رحمہ اللہ  وغیرہ ” شوافع” کی کتب  واقوال  پراعتماد کیاہے )

اور دوسرے گروہ میں  علامہ انور شاہ کشمیری  ،مولانا بدر عالم میرٹھی ، مولانا اشرف علی تھانوی  رحمہم اللہ اور مفتی   محمد تقی  عثمانی صاحب  زید مجدہم نے اس  بارے میں یہ فرمایا  ہے کہ ا س مسئلہ  میں تکبر  کی قید کا اعتبار نہیں  ہے  اسبال ہر حال  میں مکروہ تحریمی اورناجائز ہے ۔

ملاحظہ ہو: ( امدادالفتاویٰ ،ا حکام متعلقہ لباس ، ٹخنوں  سے  نیچے پاجامہ  یا تہبند  لٹکانا  سدفع  شبہ متعلقہ  مسئلہ مذکورہ ، جواب اشکال برکراہت  اسبال  بدون خیلاء  4/121۔ 123 ، مکتبہ دارالعلوم  کراچی)

(اصلاح رسوم، آٹھویں  فصل ، ص :29،30دارالاشاعت )

 ( نوٹ : اس دوسرے  گروہ کے تمام  مستدلات  کا جواب مسلک  بریلویت  کے شیخ  الحدیث جناب  غلام رسول سعیدی صاحب  نے اپنی تفسیر ” تبیان القرآن  ” ( جلد  : 4۔ صفحہ  321 تا 331)  میں دیاہے  ،ا سے بھی  ملحوظ  خاطر رکھاجائے ، )

اس کے علاوہ  علماء دیوبند  کے تمام فتاویٰ جات  میں  بھی اسی  طرح   ( بہر صورت   مکروہ تحریمی کا قول) مذکور ہے ،

مذکورہ بالا تفصیل ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم  یہ کرنا ہے  کہ

  • فقہاء احناف کے نزدیک  تکبر  کی نیت  کے بغیر “اسبال الازار ” کا کیا حکم  ہے ؟ اس بارے  میں کتب فقہیہ میں کیا  تفصیلات ہیں ؟
  • “اسبال الازار  ” سے متعلق  مذکورا حادیث میں سے جو احادیث   ) تکبر کی قید )  سے مطلق  ہیں ، انہیں فقہائے احناف  کے نزدیک  (تکبر  کے ساتھ ) مقید ( احادیث )  پر محمول کیاجائے گا یا نہیں ؟
  • اکابرین  علماء دیوبند رحمہم اللہ کی اکثریت  نے اس مسئلہ  میں فقہائے احناف   ( ملا علی قاری خ  ، علامہ عینی  ، شاہ عبدالحق  محدث دہلوی )  کی  اتباع  کو کس   بناء پر  ترک کیا ؟ بالفاظ  دیگر! اس مسئلہ میں فقہائے احناف  کی عبارات  کو چھوڑ  کر  براہ راست  احادیث سےا ستدلال  کیوں کیا گیا ؟

المستفتی : محمد ارشاد ڈسکوی

استاذ ورفیق شعبہ تصنیف  وتالیف  جامعہ فاروقیہ کراچی

 الجواب حامداومصلیاً

استفتاء  کےسوالیہ حصے  کے  جوابات  سےقبل  یہ جاننا چاہیے کہ کسی  بھی مسئلے  میں اختلاف  کا ایک بنیادی  سبب نصوص  کا اختلاف  ہے،  زیر بحث  مسئلے میں  بھی نصوص میں اطلاق وتقیید سے اختلاف  کی نوبت آئی  ہے اور وہ نصوص ہماری   جستجو  کے مطابق  چار قسم  کی ہیں ، جن میں اسبا ل ازار  کےعمل پر سخت وعیدیں   بھی آئی ہیں ، چنانچہ   وہ چار قسم نصوص واحادیث  ملاحظہ ہوں ۔

قسم اول :

وہ احادیث  مبارکہ  ہیں ، جو تکبر  کی قید  کے ساتھ  مقید  ہیں ۔

الجامع الصحیح البخاری  ؒ میں ہے :

 عن ابن عمر  ان رسول اللہ ﷺ قال : عن ابن عمر رضی اللہ عنہ  قال :  لاینظر اللہ الی من جر  ثوبہ  خیلاٰ

 ( کتاب اللباس ، ط قدیمی )

وفیہ ایضاً :

 عن ابی  ھریرۃ رضی اللہ عنہ   ان رسول اللہ  ﷺ قال: لاینظر  اللہ یوم القیامۃ  الی من  جر ازارہ بطرا۔

 ( کتاب اللباس ، باب  من جر ثوبہ  خیلاء  ط قدیمی)

ان احادیث  میں دو گناہ  جمع ہوئے  ہیں ،ا یک  تکبر اور دوسرا ٹخنا ڈھانکنا  یعنی   مطلق ٹخنا ڈھانکنا  مستقل گناہ  کبیرہ  ہے اور تکبر   شامل ہونے کی وجہ سے  اس گناہ  میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے ۔

قسم دوم  :َ

 وہ احادیث مبارکہ  ہیں جن میں تکبر  کی قید  ذکر کیے بغیر   مطلقاً  اسبال ازار کو ناجائز قرار اور حرام کہاگیاہے ۔

 الجامع الصغیر للامام  البخاریؒ میں ہے :

 وعن ابی ھریرہ عن النبیﷺ قال : مااسفل من الکعبین من الازار فی النار ۔

 وفیہ ایضاً ۔ کتاب اللباس ، ط قدیمی )

 پہلی حدیث  سے ظاہر ہے کہ جہنم   کی وعید  گناہ کبیرہ  ہونے کی علامت ہوتی ہے  ۔ا س حدیث  سے معلوم ہوا کہ مطلقاً ٹخنے  ڈھانکنا حرام اور گناہ کبیرہ  ہے ، نیز اس میں تکبر  کا ذکر بھی  نہیں ، حدیث دوم  میں بھی  یہ بات مذکور نہیں کہ وہ تکبر  کی وجہ سے ٹخنے ڈھانک   کر چل رہاتھا ، بلکہ اس  شخص کو مطلقاً ٹخنے ڈھانپنے  پر قیامت  تک  سخت ترین عذاب  میں گرفتار کردیاگیا ۔

قسم سوم  :۔  

وہ احادیث  مبارکہ  ہیں جن  میں اسبال ازار کو تکبر  کی علامت  ونشانی اورنتیجہ  کہاگیاہے  ۔

سنن ابی داؤد میں ہے :

عن ابی جری  جابر بن سلیم ۔۔۔قال قال النبی ﷺ ایاک  واسبال الازار  ، فانھا  من المخلیۃ ، وان اللہ  لایحب  المخلیۃ ۔  

  ( کتاب اللباس  ، باب ماجاء فی اسبال الازار ، ط رحمانیہ )

فتح الباری  شرح صحیح البخاری میں ہے  :

 عن ابن عمر  فی اثناء حدیث  رفعہ ،ا یاک وجر الازار  ، فان  الازار  من المخیلۃ ۔ 

 (کتاب اللباس ، باب  من جر ثوبہ  خیلاء ، ط دارالکتب العلمیۃ )

المبسوط للسرخسی  میں ہے  :

والمخلیۃ حرام لما روی ان النبی ﷺ  قال للمقدار فی ثوب  لبسہ : ایاک  والمخلیۃ ،

ان احادیث   میں تکبر کا  ذکر ہے ۔

 مگر  تکبر ایک مخفی  اور باطنی  چیز ہے ،ا س کا پتہ  لگانا اور فیصلہ  کرنا مشکل  ہے ، کوئی  شخص  جرم کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا  کہ فلاں  شخص  یہ عمل تکبر   کی وجہ سے کررہاہے  اور فلاں تکبر  کے بغیر   یہ عمل کررہاہے تو شریعت نے  ٹخنوں  سے نیچے  کپڑا لٹکانے کو ہی تکبر کا  عمل قرار دیااور اس پر تکبر  کے عمل  کا حکم لگایا ، لہذا اگر  کسی کا تکبر کا قصد نہ  بھی ہو، تب  بھی اس ظاہری عمل  پر گناہ  مرتب ہوگا ، اور  وہ گناہ گار  ہوگا ۔

فتح الباری  شرح صحیح البخاری  میں ہے :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منسلکہ پی ڈی ایف فائل

قسم چہارم :۔ وہ احادیث  ہیں جن میں اسبال ازار  کو دیکھ کر  اصلاح کی گئی  ہے ۔

 ( شمائل الترمذی / سنن ابی داؤد/)

 یہاں پر پہلی حدیث  میں نبی کریم ﷺ  نے ان صحابی  سے یہ نہیں دریافت  فرمایا کہ آپ نے تکبر  کی وجہ سے کپڑا لٹکایا  ہے ، بلکہ مطلقا ً کپڑا  لٹکا ہوا دیکھ کر  ان کو منع فرمایا  اور نہ انہوں نے  عدم تکبر  کا عذر پیش کیا ، اورحدیث  دوم میں  نبی کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تکبر کی وجہ سے  لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی  ، بلکہ مطلق ارشاد فرمایا  ۔

معلوم ہوا کہ ٹخنے ڈھانکنا ہرصورت میں جاجائز ، حرام اور گناہ  کبیرہ ہے  ، اس مضمون کو نصوص  میں  دو طرح  کی تعبیرات  کے ساتھ ذکر  فرمایا گیا۔

1۔ا سبال ازار  مطلقاً منع ہے ۔

2۔  اسبال ازار  بظاہر تکبر ہے اس وجہ سے منع ہے  ۔

اس مختلف احادیث  کے پیش نظر   حنفیہ  بنیادی طور پر اور شافعیہ  کے درمیان  اطلاق وتقیید  میں اختلاف  ہے جس کی تفصیلات  ہم ابھی ذکر کررہے ہیں ،

یہ واضح  رہے کہ عمل  بالنص کے لیے ترجیح  یا تطبیق وتوفیق یا دیگر  اصول کو سامنے رکھاجائے  ، تو ان نصوص پر عمل  احناف اور شوافع  کے پاں  اپنےوضعی  اصولوں  کی بناء پر  اختلاف روکا ہوا ہے  ، چنانچہ  شوافع نے  اپنےا صول  ترجیح  اور حمل  روایات  کے پیش نظر   مطلق  روایات  کو مقید  پر محمول  کیاہے  ۔

 جمع الجامع  فی علم  اصول الفقہ  میں ہے ۔

یعنی اسباب وشروط میں امام  شافعی رحمہ اللہ کے ہاں مطلق کو مقید  پر محمول کیاجائے  گا، اگرچہ  دو حادثہ کیوں نہ ہو،  زیر بحث  میں ا ن کے  مذکورہ اصول پر  پر یہ رائے متفرع ہوئی  کہ اسبال ازار  اگر تکبر  کی  نیت سے ہو تو  مکروہ تحریمی ہے اور اگر  بغیر تکبر  کے ہو تو مکروہ تنزیہی ہے  ، لہذا روایات  مطلقہ کو روایات مقیدہ پر محمول کیاجائے گا،

چنانچہ الشذی العرف میں ہے : ( منسلکہ پی ڈی ایف )

جبکہ دوسری طرف احناف کے اصول  کے مطابق   اسباب وشروط  میں مطلق  اپنے اطلاق  پر اور مقید   اپنی تقیید   پر رہتا ہے  اور مطلق  کو مقید  پر محمول کرنا جائز نہیں ہونا چاہیے  ، ایک واقعہ میں ہو یا دو میں ، کیونکہ بغیر کسی  تضاد کے دونوں پر عمل ممکن  ہوتا ہے ، لہذا  مطلق اور مقید  دونوں ہی  قسم کی نصوص پر حالت  نص ( اطلاق  وتقیید  ) کو برقرار  رکھتے ہوئے  عمل کرنا ضروری  اور واجب  ہوتا ہے  ، جس کی مزید وضاحت   ہم بعد میں امام تمرتاشی  غزی  حنفی  ، علامہ  امیر کاتب  اتقانی  اور کتاب  منتخب  الحسامی  سے ذکر کریں گے  ۔

 حنفیہ  کے اصول کے مطابق  شوافع  کا ذکر  کردہ بالااصول کا شمار   وجوہ فاسد میں سے ہے ۔

نوارالانوار  میں ہے ۔۔

تکبر کی علامت  اور ایک اہم اصول :۔

 یہ ملحوظ  رہے کہ تکبر ایک   امر مخفی  وباطنی  چیز ہے  ، جس کا پتہ لگانا  بسا اوقات  خود متکبر  کو بھی نہیں ہوتا کہ میں  تکبر   میں مبتلا ہوں ،  ایسے مواقع  پر جہاں  امور منضبط  نہیں ہوسکتے  ، تو وہاں  شریعت  باطنی  اور مخفی  امور  کی بجائے  ظاہر کودیکھتی ہے  اور ممانعت  کا  مدارا یسے  امور پر رکھنے  کی بجائے ظاہر  ی علامت  قرار دیتی  ہے جو کہ یہاں  پر وہ علامت ٹخنوں سے نیچے ازار  کا ہونا ہے ۔ جب یہ ظاہری علامت پائی جائے گی  ، تو سمجھیں  گے کہ  تکبر ہے  اور اس  ظاہری عمل   پر ممانعت کا حکم لگایا جائے گا  اور اس پر گناہ  مرتب ہوگا۔

 بسااوقات  نصوص  میں علت  مصرح  نہیں ہوتی  ، وہاں  مجتہد  اپنے اجتہاد  سے  علت تلاش کرتا ہے ، علت  معلوم کرنے  کے عمل کو مناط کہتے ہیں ، جس کی تین اقسام ہیں تحقیق المناط  ، تخریج  المناط  اور تنقیح  الخیاط  ۔

 مناط  کی ان اقسام میں سے تنقیح  المناط  اصولیس کے ہاں یہ  ہے کہ شارع  نے حکم  بتایا ، مگر علت  کی تصریح  نہیں کی تو  مجتہد   علت تلاش کرتا ہے  ، اب وہاں  کئی   اوصاف ہوتے ہیں ، بعض میں علت  کی صلا حیت  تھی  اور بعض میں نہیں ،تو ایسے  مواقع  میں مجتہد  ایک علت  کو  ترجیح  دیتا ہے  ،ا سی  طرح  زیر بحث  مسئلے میں  احادیث  مقیدہ  میں  مذکورہ قید  یا اتفاقی  ہے اوراحترازی  نہیں،  یا یہ قید  بطور حکمت  کے ہے ،  نہ کہ بطور علت  کے، یعنی تکبر  کو بوجہ  امر مخفی  وباطنی  کے علت نہیں بنایاجاسکتا ، لہذا  تنقیح المناط کی رو سے علت ظاہری  علامت (  ٹخنوں سے نیچے ازار کا ہونا )  کو علت  قرار  دے کر  احادیث  مقیدہ بالخیلاء  کا مقصد  اسبال ازار  کے گناہ کی شدت  کو بیان کرنا ہے ۔

 معارف السنن للشیخ  محمد یوسف  بنوری ؒ  میں  ہے ۔۔

 ذیل میں  چند دلائل  اور مزید اصول  ملاحظہ ہوں  ، جن سے ٹخنوں  سے  نیچے کپڑا لٹکانا مطلقاً ممنوع ثابت   ہوتا ہے ۔

1۔ قسم اول  کی احادیث  سے معلوم ہوا کہ تکبر سے  اس قدر لمبا لباس یا تہبند  ، شلوار  پاجامہ   وغیرہ پہننا  جو ٹخنوں سے  نیچے ہو یا اتنا  لمبا  نہ ہو لیکن کوئی تکبر سے  اس کو اتنا نیچے  کردے کہ ٹخنوں  پر یا ا س سے  نیچے تک لٹکے  ، یہ حرام ہے جیسا کہ نفس تکبر  حرام ہے ، خواہ اس کا اظہار  کسی بھی  شکل  میں ہو ،ا س نوع کی احادیث  سے یہ  بھی معلوم ہوا کہ اس طرح تکبر  سے کپڑا لٹکانے  والا اللہ کی نظر  سے گرجاتا ہے  ، قیامت  کے دن بھی  ایسے ( تکبر سے کپڑا لٹکا کر بغیر توبہ مرنے والے)  لوگوں کی طرف   اللہ پاک  نظر رحمت  نہیں فرمائیں گے  ۔

2۔قسم دوم  کی احادیث  سے معلوم ہوا کہ شلوار  ، پاجامہ  وغیرہ ٹخنوں  سے نیچے  لٹکانا حرام  ہے، پہلی اور دوسری  قسم کی احادیث کے درمیان   کوئی تعارض  یا منافات  نہیں ہے، تعارض  یا منافات  تو ا س کو کہتے  ہیں کہ ایک قسم کی احادیث  پر عمل  کرنے سے ثانی قسم  کی احادیث  کو ترک کرنا لازم  آئے ، یہاں پہلی قسم  کی احادیث  میں تکبر  سے ٹخنوں  سے نیچے کپڑ الٹکانے والوں کا  ذکر ہے ا ور ان کے کاربد کی جزاء کا بیان  ہے  ، جبکہ  دوسری قسم  کی احادیث میں مطلق لٹکانے والوں کا ذکر اور ان کے اس  فعل   بد کی جزاء کا بیان  ہے، یعنی ٹخنوں سے نیچے کپڑا ، شلوار  وغیرہ لٹکانے  والے دوقسم  کے لوگ ہیں  ۔

  • بہ نیت تکبر لٹکانے والے
  • بلانیت تکبر لٹکانے والے

توپہلی قسم کی احادیث میں  پہلی قسم کے لوگوں کا ذکر ہے کہ ایسے لوگوں کی طرف قیامت  کے روز اللہ تعالیٰ دیکھیں گے بھی نہیں ، اور دوسری قسم  کی احادیث  میں دوسری قسم کے لوگوں کا ذکر  ہے کہ اس  طرح   کے لوگوں  کے ٹخنوں کا ڈھکا  حصہ جہنم میں  جلے گا ، جب دونوں اقسام  کی احادیث  کا تعلق الگ الگ طبقے سے ہے  تو دونوں پر مستقل  عمل کرنا بھی ضروری  ہوگا، کسی میں تاویل  کی قطعاً  کوئی گنجاش نہیں  ہوگی ،یہی فقہائے احناف  کا مذہب  ہے ۔

یعنی پہلی قسم کی احادیث میں تکبر کی قید  کو اگر احترازی   ( شرطیہ) تسلیم کرلیں ، تو اس صورت  میں پہلی قسم اور دوسری قسم  کی احادیث  کا تعلق الگ الگ  طبقے کے  لوگوں سے  ہوگا، اور ان کی جزائیں  بھی گویو مختلف  ہوئیں  ، یعنی پہلی قسم کی احادیث  میں تکبر  سے کپڑ اٹخنوں  سے نیچےلٹکانا یہ سبب  ہے اللہ کی نظر  رحمت سے، اور قیامت  کے روز محروم رہنا یہ اس کی جزا ( اخروی  حکم )  ہےا ور دوسری قسم  کی احادیث میں مطلق ٹخنوں  سے نیچے کپڑ الٹکانا  یہ سبب ہے ، کپڑا سے ڈھکےہوئے  ٹخنے اور قدم کا جہنم  میں  جلنا اس کی جزاء  ( اخروی حکم ) ہے  ۔

 اسی طرح زیر بحث  مسئلے میں  سبب ( واقعے ) بھی مختلف ہیں  اور جزا  ( حکم  ) بھی  مختلف ،ا ور صرف  حکم مختلف  ہونے سے فقہائے احناف  کے ہاں مطلق   کو مقید پر محمول کرنا  جائز نہیں رہتا  بلکہ  اس طرز  استدلال  کو فقہائے احناف  نے وجوہ  فاسدہ  میں یعنی  فاسداستدلال   میں شمار کیاہے ۔

 چنانچہ منتخب الحسامی میں ہے ۔۔۔ومن الناس ۔۔۔الخ

 نیز اگر کسی حدیث سے یہ ثابت ہوجائے  کہ تکبر  سے کپڑا ٹخنوں  سے نیچے لٹکانے   پر جو وعید  آئی ہے  ، وہی وعید مطلق کپڑا ٹخنوں  سے نیچے لٹکانے کے بارے میں بھی آئی ہے  اور اس طرح  دونوں   پر ایک ہی  جزا  ( ایک  ہی حکم  ) مرتب ہوئی ہے  ،تو بھی کوئی  حرج نہیں کیونکہ قسم اول   سے متعلق احادیث  میں جو  تکبر کی قید آئی ہے  وہ قید  سبب ( جرازار  ) پر داخل ہے اور فقہائے  احناف کا اصول یہ ہے کہ اگر  اطلاق  اور  تقیید  سبب پر داخل ہوں  تو بھی مطلق کو مقید  پر محمول  کرنا جائز نہیں ، بلکہ مطلق  اور مقید  دونوں  ہی قسم کی نصوص  پر حالت  نص ( اطلاق وتقید )  کو برقرار  رکھتے ہوئے  عمل کرنا اس صورت میں  بھی ضروری ہے  ،

 منتخب الحسامی  میں ہے ۔۔۔ وکذلک ،،،الخ

3۔ قسم اول کی احادیث  میں تکبر کی قید  اتفاقی  ( امر وقتی کے طور پر )  ہے ، احترازی ( شرطیہ  ) نہیں ۔

اولاً:۔ تو ا س وجہ سے فقہائے احناف  کا اصول یہ  ہے کہ وصف خاص سے موصوف   شے کی طرف کسی  حکم کی نسبت  اس پر دلالت  نہیں کرتی  کہ جب  وہ وصف  خاص نہ ہو تو وہ  حکم  بھی نہیں ہوگا  ، اگر چہ  نفس شے  ( بلا وصف  خاص )  موجود ہو  ، چنانچہ  علامہ تمر تاشی ؒ  لکھتے ہیں :

الحکم  اذا اضیف۔۔۔الخ

 لہذا قسم اول کی احادیث  میں جو تکبر  کے وصف  کے ساتھ جرازار   ( کپڑ الٹکانے )  کی ممانعت آئی  ہے اس  سے یہ مفہوم  مخالف  سے ( نص کے اندر استدلال  ہے اور اس فقہائے احناف  نے وجوہ  فاسدہ  میں شمار کیا ہے ۔

منتخب الحسامی میں  ہے :

ومن الناس ۔۔۔۔۔الخ

ثانیا ً  :  ( جو کہ علمائے احناف   کے مذکورہ  با لا اصول   کی صحت  کی بھی دلیل ہے )

 وہ کثیر  روایات  جن میں تکبر  کی قید کے بغیر ٹخنوں  سے نیچے  کپڑا  لٹکانے  پر جہنم کی وعید آئی ہے  اور بغیر  وعید  کپڑ الٹکانے  سے  جن روایات   میں منع  کیاگیاہے  وہ بھی ا سپر دلالت کرتی ہیں کہ تکبر  کی قید  جن روایات  میں ہے  ، وہ محض اتفاقی  اور بیان امر واقعی  کے طور پر  احترازی  کے طور پر  اور شرطیہ  قید نہیں ہے۔

 ثالثاً :

 محدثین  نے  تکبر کی قید  والی  روایات  کو  بھی  لباس کے باب میں ذکر کیاہے  ۔ جبکہ اس قید  کو احترازی  اور شرطیہ ماننے کی صورت میں  ان روایات  کا تعلق  تکب ر کی   مذمت  کے باب سے ہوجائے گا  ، نہ کہ لبا س کے باب  معلوم ہوا کہ محدثین  نے بھی اسد  قید کو اتفاقی تسلیم  کیاہے  ۔

علامہ انور شاہ کشمیری  ؒ فیض الباری  میں لکھتے ہیں :

وجد الثوب ۔۔۔الخ

 رابعاً : وہ روایات   جن میں  تکبر  کے علاوہ  دوسری وجوہ  واعذار  کپڑا  ٹخنوں سے  نیچے لٹکانے  پر بیان کیے گئے مگر  پھر بھی آپ ﷺ نے کپڑا لٹکانے کی اجازت  نہیں  دی  ، اگر تکبر  پر مدار  ہوتا ہے  تو ان اعذار  کو سبب  بنانے کی صورت   میں کپڑا لٹکانے کی اجازت  ضرور  مل جاتی ، مگر آپ ﷺ نےا س تکبر  کےعلاوہ  دوسری  وجوہ بتانے  والوں کو کپڑا ٹخنوں  سے نیچے لٹکانے  کی اجازت  نہیں دی، بلکہ سختی سے منع  فرمایا ،ا ن روایات  سے بھی معلوم ہوتا ہے  کہ تکبر کا ذکر جن روایات میں  ہے  ،وہ محض بیان  امر وقتی  کے طور پر  شرطیہ نہیں ۔

خامساً :۔

رسول اکرم ﷺ نے ٹخنوں سے نیچے  کپڑ الٹکاتے  دیکھ کر  جن صحابہ   رضی اللہ عنہ کو   منع  کیا، ان میں سے کسی  سے یہ نہیں پوچھا کہ  آپ تکبر  سے ٹخنوں  سے نیچے کپڑا لٹکاتے ہیں ،یا کسی عادت ، عذر  وغیرہ کی وجہ سے  ؟ اسی طرح    حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن عمر  وغیرہ  صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین  کی  نکیر  کے وقاعات  احادیث   مبارکہ میں آئے ہیں ، ان میں بھی تکبر وعدم  تکبر  کی تفصیل  معلوم کیے بغیر  ہی مطلق کپڑ اٹخنوں  سے نیچے  لٹکانے  سے منع  کیا گیاہے  جو تکبر  کے ذکر  کے اتفاقی  ہونے کی واضح دلیل  ہے۔ اس قبیل سے  متعلق واقعات  اور روایات  کا  تعلق قسم چہارم  والی احادیث  سے ہے جن کو ہم نے ذکر  کیاہے  ۔

4۔ قسم  سوم والی احادیث سے معلوم  ہوا کہ شریعت  نے کپڑ الٹکانے کو تکبر  کی  علامت  اور نشانی  قرار  دے کر اسی  (  کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے)  کو سبب ممانعت  بنایا ہے ،ا ور  ممانعت  کو اس  کپڑا لٹکانے کی طرف منسوب  کردیاہے  یعنی تکبر   جو ایک  امر باطنی  ہے ، کپڑا لٹکانے  کو شریعت  نے اس ( تکبر ) پر حجت  اور اس کا قائم مقام ٹھہرایا ہے  اور اس بارے  میں فقہائے احناف کا اصول یہ ہے کہ :

متی قام السبب مقام الباطن  یدار الحکم  معہ  وجوداً وعدماً۔۔

اسی اصول کی رو سے  ٹخنوں  سے نیچے کپڑا لٹکانا  جو کہ حدیث مذکورہ  سابقہ  کی رو سے  تکبر کا قائم مقام  ہے اس کا وجود گویا تکبر کا وجودہوگا ،ا ور عین   تکبر ممنوع  اور حرام ہے  ، لہذا اس کا قائم مقام ( ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا ) بھی حرام ہوگا ، اس  لیے کہ  حسب اصول  مذکورہ  اس جیسے  امور میں  اثر  ظاہری  کا وجود  اثر باطنی  کا وجود ہوتا ہے  ، یا یوں کہیں کہ قائم مقام  کا وجود اصل  شے کا وجود ہوتا ہے  اور اصل شے  پر جو حکم  مرتب ہوتا ہے ا  س کے قائم مقام  پر بھی بعینہ  وہی حکم مرتب ہوتا ہے  ۔

فتاویٰ شامی میں ہے : قولہ ۔۔۔۔۔۔الخ

 یعنی اگر میل وغیرہ  صاف کرنے کا رونال تکبر   کے لیے  رکھے  تو  مکروہ ہےاور قیمتی  قسم کا رومال تکبر  کی دلیل ہے، مطلب  یہ ہے کہ رومال رکھنے  والے سے پوچھنے  کی ضرورت نہیں  ، رومال  کی ہئیت  سے ہی تکبر   ہونے  نہ ہونے کا فیصلہ کیاجائےگا ۔

  5۔ تکبر  کی قیدوالی احادیث   محتمل  ہیں کہ قید میں اشتراط  والفاق ( شرطیہ  اور اتفاقیہ )  دونوں  ہونے کا احتمال ہے، جبکہ حنفیہ   کے اصول  کی روسے تکبر  کی قید  سے خالی احادیث  غیر  متحمل  ہیں ، لہذا غیر متحمل  روایات پر عمل  کیاجائے گا   اور متحمل  میں  غیر متحمل  روایات   کے مطابق  تاویل کی جائےگی  ، یعنی  غیر معارض   احتمال لیاجائے گا  ، تاکہ  کسی حدیث کا ترک لازم نہ آئے ۔

 نیز ” الزائد۔۔۔کا تقاضا بھی یہی ہے  ۔

یہ چند بنیادی دلائل اور اصول تھے  جن سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا  مطلقاً ممنوع   ثابت ہوا۔

 نیز تکبر کی حرمت  کسی خاص صورت  کے ساتھ خاص نہیں ہے مثلا ً ایسا نہیں ہے کہ شلوار  ، پاجامہ   یا تہبند  وغیرہ لٹکانے  کے ساتھ  حرام  ہونا خاص ہے، کسی اور صورت  میں نہیں ، بلکہ  تکبر کی تمام تر شکلیں حرام ہیں ، اگر تہبند  وغیرہ   لٹکانے  کے ساتھ  حرام  ہونا خاص ہے،  کسی اور صورت  میں نہیں ، بلکہ تکبر   کی تمام   تر شکلیں  حرام ہیں ، اگر تہبند  وغیرہی چڑھا کر انسان تکبر   کرے تو وہ بھی  حرام ہی ہوگا ، حقیقت   تو یہ ہے کہ  جہنم  کی وعید  ٹخنوں سے نیچے  کپڑ الٹکانے   پر جن  احادیث  میں وارد ہوئی  ہے، وہتقریباً سب مطلق ہیں کہ ”  تہبند  کا جو حصہ ٹخنوں  سے نیچے  ہوگا،  وہ جہنم  میں جائےگا  ۔ا ور اللہ تعالیٰ کی نظر  سے گرجانے  کی وعید  کی احادیث  تکبر کی قید کے ساتھ  مقید ہیں کہ   تکبر سے  تہبند لٹکانے  سے انسان اللہ کی نظر سے گرجاتا ہے  ، کیونکہ  جو اپنے آپ کو جتنا

بڑا  سمجھتا ہے  اللہ اس کو اتنا  بے حیثیت  کردیتا ہے  ۔

 اور  مطلق  روایات کا مطلب یہ ہے کہ  متکبرانہ وضع قطع  اختیار  کرنے سے وہ متکبرانہ  طرز والی جگہ  ( مثلاً ٹخنے  ) جہنم  کی مستحق ٹھہرتی ہے  ۔ دونوں  مستقل نوع  کی احادیث ہیں ۔اور  حنفیہ  کےا صول  نص مطلق مقید  نہیں کیا جاتا ،بلکہ دونوں  کو الگ  الگ شمار کیاجاتا ہے  ، مطلق کو مشروط  اور مقید   نص  کی بناء پر  مقید  قرار  دینا جائز نہیں ،

اگر چہ مطلق ومقید دونوں  نص ایک ہی مسئلہ کے بارے میں ہوں ۔

الغرض  تہبند ، پاجامہ  وغیرہ  ٹخنوں سے  نیچے لٹکانا  ممنوع ہے  ،ا س میں تکبر   ہونا  شرط نہیں ،ا مام بخاری  جیسے  مدقق نے تکبر  سے تہبند  لٹکانے کی ممانعت  اور وعید  پر مشتمل  احادیث  کولباس  کے باب میں  ذکر کیاہے ، اگر تکبر  اس وعید  کاوارد  ہوتا تو تکبر  کے باب ان احادیث  کو ذکر  فرماتے  ، جبکہ امام بخاری  ؒ  کی عادت یہ ہے کہ معمولی مناسبت  کی وجہ سے  کسی حدیث  کو کسی  باب  میں ذکر  کرکے گویا  یہ بتادیا کہ ان احادیث کا مقصد تکبر  کی مذمت  نہیں ، بلکہ  ٹخنوں سے  نیچے  تہبند  وغیرہ لٹکانے  کی شناعت بیان  کرنا ہے  اور احادیث  میں تکبر  کا ذکر  محض  امر واقعی  کے بیان  کے طور پر   ہے  ، شرطیہ  کے طور پر نہیں ،  جسے قرآن مجید  میں  لے پالک   بچیوں سے نکاح کے جواز کے ذکر کے ساتھ یہ مذکور  ہے  کہ ” جو کہ تمہاری  پرورش میں ہیں ”  حالانکہ  ” جوکہ”  کے بعد  جو وصف  مذکور ہے   تقییدی  یعنی شرط  کے طور پر نہیں ، بلکہ  امرواقعی  کے طور پر  ذکر ہوا ہے کہ لے پالک  بچیاں  عام طور  آدمی کی  پرورش  میں ہی ہوتی  ہیں ۔

اسی طرح  عام  ٹخنوں  سے نیچے  کپڑ الٹکانا  چونکہ   تکبر  کا  نتیجہ  ہوتا ہے  اس لیے  احادیث  میں تکبر  کا ذکر  آگیاہے ، اگر   تکبر  نہ ہو تب بھی  ایسا لٹکانا  گناہ عظیم  کا باعث  ہے ۔

 البتہ  کسی  کے ٹخنے پر یا ا س سے نیچے  کوئی ایسا زخم  یا  مرض  ہو جس  پر  مکھی وغیرہ  بیٹھ کر ا س کو تکلیف  پہنچاتی  ہے اور کپڑا  اس سے ٹخنے  سے نیچے لٹکا کر  چھپانے کے علاوہ  اور کوئی   صورت اس  تکلیف  سے بچنے کی نہ ہو تو پھر ضرورت  کی حد تک  شرعا کپڑا لٹکانے کی اجازت ہوگی جسے  کوئی علاج  نہ ہونے پر حرام   چیز  سے بھی علاج  کی شرعاً اجازت  ہے۔

اسی طرح  اگر غیر اختیاری  طور پر  بے خیالی اور غفلت کی بناء پر  کسی وقت   ڈھیلا ہو کر  لٹک جائے  تو پھر گناہ نہیں ہوگا لیکن  اس شرط  کے ساتھ کہ اس کے لٹک  جانے پراس کی اصلاح  میں ٹال مٹول  نہ کرے  بلکہ تنبیہ ہوتے ہی اس کی اصلاح  کرلے  ۔

علامہ بدر الدین  عینی ؒ  عمدۃ القاری  شرح صحیح البخاری  میں لکھتے ہیں:

یجوز لدفع ۔۔۔الخ

شیخ الحدیث مولانا زکریا  صاحب ؒ  خصائل نبوی   شرح  شمائل  ترمذی میں لکھتے ہیں  :

 ” ٹخنوں سے نیچی لنگی  یا پاجامہ  وغیرہ لٹکانا  حرام  ہے لیکن  علماء نے ضرورت  کو ا س سے  مستثنیٰ  کیاہے  ، کہ اگر کسی شخص  کے ٹخنے  میں پھنسی ہو جس سے  مکھی وغیرہ بیٹھتی ہے ،ا یسے شخص کو ا س کی حفاظت  کے لیے لنگی یا پاجامہ  لٹکا لینا  جائز ہے، جب تک  کہ زخم  اچھا ہو ۔”

 علامہ  شبیر احمد عثمانی ” فتح الملہم  شرح  صحیح مسلم ؒ میں لکھتے ہیں :

والاسبال عندنا ۔۔۔الخ  

 مذکورہ بیان کردہ  اعذار  کے علاہو   مذکورہ تفصیلات  سے  معلوم ہوا کہ حنفیہ  کے ہاں اسبال ازار مطلقاً ممنوع ہے  ۔

 حنفیاور شافعی مسالک  اپنے  اصول وفروع کے امتیاز کے   باوجود  خلط ملط ہوئے بایں طور پر کہ حنفی  کتب میں حںفی اصل وفرع  اپنی جگہ برقرار  اور غیر  مشتبہ رہنے کی بجائے شافعی مذہب  فقہ حنفی  کا حصہ اور بعض علمائے احناف کی رائے عام ہونے لگا،ا ور  انہوں نے  وہی رائے اختیار کی جو  حنفی  کی  بجائے شافعی  اصول کے مطابق  ہے جیسا  کہ یہیرائے  استفتاء  میں ذکر کردہ  بعض علمائے  کرام کی بن چکی ہے  ۔

؎ ہمارے بعض علمائے احنا ف  کی کتب میں شوافع  کا مذہب  نقل   میں  تسامح کی بناء پر  حنفی مذہب  کر کے پیش کیا گیاہے   جن تب  میں اسبال  ازار سے متعلق   کراہت کی تقسیم کا  ذکر  ہے کہ اگر تکبر  کے ساتھ ہو تو حرام یا مکروہ تحریمی  ہے اور اگر تکبر  کے بغیر ہوتو مکروہ تنزیہی  ہے  تو ہماری تحقیق  اور جستجو کے مطابق  اسبال ازار  کے  معاملہ  پر حنفی  وشافعی  آراء کا اختلاف  نقل مذھب  کے بعض  معمولات کا  نتیجہ ہے ۔

مثلاً کسی حنفی فقیہ نے شافعی  مسلک کی روایت محض نقل  وحکایت  اور تعدد اقوال  کے طور پر  ذکر کی،  یا کسی  اور امر کی خاطر   غیر مسلک  کی  روایت نقل   کی اور بعد  کے ناقلین  نے ا س منقول  اور محکی روایت کو فقہ  حنفی  کی کتاب میں موجود  ہونے کی بناء پر  فقہ حنفی کے طور پر ذکر کردیا اور وہ نقل متعدد  کتب میں نقل  کی بناء پر  فقہ حنفی کا مسلک  مشتہر ہونے لگا ، اور ایسی  نقل در نقل  متعدد  کتابوںکا ایسا حصہ بن جاتی ہے کہ مذہب اور  غیر مذھب  کا امتیا ز  اوجھل ہوجاتی ہے اور یہ امر واقعی ہے  کیونکہ یہ تو نقل کی بات ہے کبھی ایسا ہونا نقل  میں  غلطی کے نتیجے  میں ہوجایا کرتا ہے  چنانچہ  علامہ ابن عابدین ؒ  شرح عقود  رسم المفتی  میں فرماتے ہیں   :

 ( قلت )  وقد،،،الخ

اب مسلک غیر سے ہماری کتب   حنفیہ  میں نقل درنقل خطا  اور رنج کی چند مثالیں  خاتمۃ المتحقیقین  السید محمد  امین الشہیر  بان عابدین  الشامی ؒ  کے حوالے سے  ملاحظہ    فرمائیں  ، چنانچہ شرح عقود رسم المفتی  میں ہے  :۔

 ( ومن ذلک  )  ۔۔مسئلۃ ضمان ۔۔۔الخ

 الغڑض اسبال ازار یا جر  ثوب  سے متعلق وارد شدہ  متعدد  روایات   حنفی اصول کے مطابق  قیود  احترازی  نہیں ہے  بلکہ وہ ایسی   اوصاف  زائدہ ککے قبیل   سے ہیں  جو اسبال ازار  کے حکم کے لیے علت کے طور پر  مذکور نہیں ، اس لیے  جر ثوب  کو مستقل  گناہ کہاگیاہے اور تکبر  وخیلاء کو مستقل گناہ قرار دیاگیاہے  ۔

 نیز  محدثین کے اسلوب بیان  سے بھی یہی مترشح ہورہاہے کہ جر ثوب  اور اسبال ازار والی احادیث کا  تعلق ” لباس ”  کے شرعی  وغیر شرعی  ہونے سے ہے تکبر  اور عدم تکبر  کی علت پر منحصر  نہیں ہے ، جیسا کہ امام  بخاری  ؒ کے اسلوب  کے حوالے سے ابھی گزرا  ۔

 باقی جہاں تک احناف   کی کتب میں  کراہت  تنزیہی کا قول مذکور ہے  یا اسبال ازار   کے عدم جواز کی قید  کے ساتھ مقید   کرنے کا ذکر  ملتا ہے  تو ا س کی  معقول اور متداول وجہ یہی ہے جیسا کہ ہم ذکر  کرکے آئے ہیں  کہ ناقلین نے شوافع  کا مسلک اپنی کتب  میں نقل میں تسامح کی بناء پر  ذکر کیاہے  جسے بعد میں  ناقلین  نے شوافع  کی نقل کی بجائے  فقہ حنفی کی نقل قرار  دیاجو کہ نقل  در نقل  غلطی کے قبیل  سے ہے یا کم از کم  ان کتب کی ذکرکردہ  عبارات   پر اعتماد  کرتے ہوئے  اپنی کتب  میں ذکر کیاہے  ۔

  علی سبیل  التزل اگر مکروہ  تنزیہی  ہونے کا ثبوت   مضبوط  اور ٹھوس دلائل  سے بھی   مل جائے تب بھی  فقہائے احناف  کے مذکورہ اصول  اس کے لیے رکاوٹ  اور مانع ہیں ،ا ور وہ اصول  کبھی بھی مکروہ تنزیہی  ہونے کے قول کی اجازت  نہیں دیتے  ، فقہائے احناف  کا اصل اور راجح  مذہب  یہی ہےکہ اسبال ازار  مطلقاً مکروہ تحریمی یا حرام ہے  ۔

 بظاہر بریلوی  مسلک کے مذکورہ عالم  دین کے علمی  مغالطہ  کی وجہ بھی یہی ہے کہ یعنی انہوں نے بعض نقول مذھب کو پیش نظر  رکھا اور دیگر  دلائل اور اصول  مذہب کو نظر انداز کردیا ۔

دلائل کے وزن اور قوت  کے اعتبار سے  احناف  کا مذھب جتنا مضبوط  ہے  ، وہ روز روشن  کی طرح عیاں ہے،ا سی وجہ سے   تو علامہ ابن العربی رحمہ اللہ  مالکی نے ٹخنوں سے   نیچے   کپڑا لٹکا نے  کے بارے میں حنفی مذہب   کو دلائل  کی قوت  کی بناء پر  راجح قرار  دیاہے ، ورنہ  مالکیہ کا مذہب وہ نہیں ہے جس کی انہوں نے تائید  کی ہے (  کما صرح ۔۔۔الخ)

چنانچہ  علامہ ابن حجر القسقلانیؒ  ابنا لعربی  کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ چونکہ  خیلاء  ( تکبر)  کی صفت   مجھ میں نہیں پائی جاتی۔ا س لیے   میں جر ثوب ( ٹخنوں سے  نیچے کپڑا  لٹکانا ) کرتا ہوں  ، تو  اس  شخص کا یہ  دعویٰ  تسلیم نہیں کیاجائے گا ،بلکہ اسبال ازار  اس کے تکبر  پر دال ہے  چنانچہ  

 فتح الباری   شرح صحیح البخاری میں ہے :

عارضۃ الاحوذی  شرح سنن الترمذی  میں ابن العربی  ؒ  نے ا س مضمون کو ان  الفاظ  میں  ذکر کیاہے  ۔ جر الازار۔۔۔الخ

اسی طرح اس بات نے حافظ  ابن حجر العسقلانی  کو اس  پر مجبور  کیا کہ وہ اپنے مذہب  کے اصولوں  سے تو انحراف نہیں کرسکتے  تو دوسری  طرف توجیہات  اور کچھ دوسرے  دلائل  قائم کرکے  فتح الباری  میں ٹخنوں  سے نیچے کپڑا لٹکانے کو مطلق  حرام ثابت کیا اور ان دلائل  کو فتح الباری  کے حوالے سے شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب  ؒ نےا وجز المسالک میں نقل کیا ہے، حالانکہ احناف  کا مذہب  خارجی دلائل  کا محتاج نہیں اور ( حنفی اصولوں کی رو سے )  غیر متعارض  احادیث  مذھب  حنفی  کی تائید میں موجود ہیں اور احناف  کے  مدلل اور ٹھوس  اصول بھی احادیث  کے عین  مطابق ہیں جن سے احناف کا مذہب   بالکل ہی واضح  ہوجاتاہے ۔

یہ چند   بنیادی دلائل اور اصول تھے  جن سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا مطلقاً ممنوع ہونا ثابت  ہوا، اب ا س کی حرمت  کے کچھ دلائل  ملاحظہ فرمائیں ۔

1۔ٹخنوں سے نیچے  کپڑا لٹکانے پر جہنم   کی وعید  اور اللہ تعالیٰ کی نظر  سے گرجانا   ( جو کہ قیامت  کے روز ذلت وخواری  می ں مبتلا ہونے  کو متلزم ہے) جو  حدیث   میں ہے ان سب وعیدات  شدیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فعل  بد حرام ہے ۔

مجمع الانہر میں  ہے  : قال ابن الساعدی۔۔الخ

مرقاۃ المفاتیح   میں ہے: والمراد۔۔۔مالا یحل ۔۔۔الخ

2۔ٹخنوں سے نیچے  کپڑ الٹکانے کی ممانعت  کی احادیث  احناف کے اصول  کی روس ے  بالکل  غیر متعارض  ہیں، یعنی  ساری روایات  ممانعت   پر متفق  ہیں  اور اس قسم کی روایات  سے حرمت ثابت ہوتی ہے ۔

مجمع الانہر میں ہے: وفی الشرع ( المکروہ ) کراھۃ ۔۔۔الخ

مذکورہ عبارت کی رو سے  شیخین  نے حرمت  وعدم حرمت  میں دلائل کے متعارض  ہونے کی بناء پر  عین حرام کی بجائے  اقرب  الی الحرام  قرار دیا، تو جب حرمت  کے دلائل  غیر متعارض  ہوں  تو وہ فعل عین  حرام ہوگا، باقی مفہوم مخالف  فقہاء اورکلام الناس میں معتبر  ہوتا ہے ۔

3۔ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر جو وعیدیں آئی ہیں ، ان کے ثبوت  پر سب کا اجماع  ہے جو کہ حجت  قطعیہ  ہے اور دلائل  بھی باعتبار  اصول قطعی  ہے اور  جس کا ثبوت  بھی قطعی ہو اور دلائل بھی قطعی ہوں تو ا س سے حرمت ثابت ہوتی ہے ۔

مجمع الانہر میں ہے :

کما فی الحرام ۔۔۔الخ

معارف السنن للشیخ بنوی ؒ میں ہے :

ماکانت الدلالۃ علی الحکم۔۔۔الخ

4۔ ماقبل صرف اس  موضوع کی  چند احادیث کے مختلف  متون کو  پیش  کیاگیاہے ، اگر مختلف  اسانید کے ساتھ ان احادیث  وعید کو پیش کیاجائے تو وہ اس  عدد  سے کہیں زیادہ ہوں  گی  اور ان کا مجموعہ  یقیناً تواتر  کو  پہنچے گا  اور متواتر  سے ثابت  نہی سے حرمت  ثابت ہوتی ہے  ،ا  س لیے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام ہونا متعین ہے،  

 علامہ  محلاوی الوصول  الی علم الاصول  میں رقمطراز  ہیں :

الدلیل  الشرعی۔۔۔۔الخ

 5۔ ٹخنوں  سے نیچے  کپڑ الٹکانے   کی احادیث   کو امت مسلمہ کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے  ، چنانچہ  ارباب صحاح  کا ا س نوع  کی احادیث  کی تخریج  پر اتفاق  اور ائمہ  مجتہدین  کا اس نوع  کی احادیث   کو قبول  کرلینا  اور تعامل  امت اس  کی واضح  دلیل ہے ،ا ور اس  طرح  کی احادیث  سے حرمت اوع فرضیت  بھی  ثابت ہوتی ہے ،  

چنانچہ وقوف  عرفہ کا فرض حج  کا رکن  ہونا صرف ایک  ہی حدیث  سے ثابت  ہے ، جس کو امت  کی طرف تلقی  بالقبول  حاصل  ہے اور  اس  کی وجہ سے رکنیت  ثابت ہورہی ہے  ۔فتاویٰ  شامی میں ہے :

 قالوا انہ ۔۔۔الخ  

فقہائے احناف کی تصریحات  :۔

 فتاویٰ  ھندیہ میں ہے :

تقصیر الثیاب سنۃ۔۔۔الخ

 فقہ حنفی کی ابتدائی کتاب ” مالا بدمنہ ”  میں ہے  :

” ومسنون  آنست ۔۔الخ

 ترجمہ: ۔ اورسنت  یہ ہے کہ ایسا لباس نہ پہنے   جس کی طرف لوگ انگلی سے اشارہ کریں اور دامن  نصف  پنڈلی  تک ہو،ا ور ٹخنوں تک لٹکانا بھی جائز ہے لیکن  اس سے نیچے لٹکانا  حرام ہے ۔

اس کے محشی  نے حاشیہ میں لکھا ہے :

قولہ ” حرام  است  ” آنحضرت ﷺ ۔۔۔الخ

 ترجمہ :  ” حرم ہے ”  کیونکہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا کہ جو کپڑ اٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ جہنم میں  جلے گا ۔

 فتاویٰ شامی میں ہے :

 ویکرہ للرجال  السراویل  التی ۔۔الخ

یہاں مکروہ سے  درج بالا  دلائل اور  فقہ حنفی  کے ” مطلق کراہت ”  والے اصول  کی بناء پر حرم مراد ہے  اور مکروہ  کہہ کر حرام مراد لینا ثابت اور فقہاء  کے ہاں مستعمل ومشہور  بھی ہے  ۔

 چنانچہ فتاوی شامی میں  ہے :

( قولہ ومکروھہ ) ھو ضد المجنوب۔۔الخ ۔

الدر المختار میں ہے :

( وکرہ الباس الصبی ۔۔۔۔الخ

مکروہ  کہہ کر حرام مراد لینے  کی اور بھی  بہت سی مثالیں  فقہائے احناف  کی کتابوں  میں موجود ہیں ، بہرحال  ٹخنوں سے   نیچے کپڑا  ، شلوار  ، پاجامہ  اور لنگی  وغیرہ لٹکانا   مردوں کے  لیے فقہائے احناف  کے ہاں حرام ہے ،ا ور  حرام سے  بچنا فرض ہے  ، لہذا ٹخنوں سے اوپر کپڑ اوغیرہ  چڑھانا  بھی فرض  ہے لہذا ٹخنوں سے اوپر  کپڑا وغیرہ  چڑھانا  بھی فرض ہے  ، جسا کہ شمس الائمہ  علامہ ستخسی  کی عبارت سے  معلوم ہوتا ہے چنانچہ   المبسوط للسرخسی  ہے :

 ان الکتمان ۔۔۔الخ

ان تفصیلات کی روشنی میں اگر دیکھاجائے  تو اسبال ازار  سے متعلق  فقہ حنفی  کا اصل فتویٰ مکروہ تحریمی  بلکہ بعض   کے نزدیک    حرام ہونے کا ہے جیسا کہ علامہ شامی  رحمہ اللہ اور مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کے حوالے سے  گزرا۔

 باقی مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ،مولانا  خلیل احمد سہارنبپوری  اور مولانا محمد زکریا  کاندہلوی ؒ  جیسے حضرات نے تکبر  کی قید کے ساتھ مقید فرمایا ہے، وہ شافعی مسلک  کی حکایت   ونقل  کے ذریعہ  مذھب  حنفی کا جزء بننے کی بنیاد  پر ہوا ہے ، اور جن احباب  کو اس  رائے   پرا صرار   ہے، شاید ان کو حنفی اصو ل وفروع  کے پس منظر  میں نہ  جانے کی وجہ سے محض مغالطہ ہوا ہے۔  

 لہذا ان مذکورہ بالا احادیث  مبارکہ ، دلائل ، فقہائے احناف  کے اصولوں اور  ان کی عبارات  فقہیہ سے ثابت ہوا کہ :

  1۔ فقہائے احناف  کے نزدیک   تکبر کی نیت کے بغیر   بھی “اسبال ازار  ” حرام  ہے یا کم از کم  مکروہ تحریمی ہے، محض  مکروہ تنزیہی  نہیں ہے۔

2۔اسبال ازار ”  سے متعلق  مذکور احادیث  میں سے جو احادیث  تکبر کی قید سے  مطلق ہیں ،ا نہیں  فقہائے احناف  کے مذکورہ  دلائل ،اصول او ر  عبارات  فقہیہ کی بناء پر تکبر کے ساتھ  مقید احادیث  پر محمول نہیں کیاجائے گا ، بلکہ اپنے اطلاق   پر برقرار  رکھاجائے گا ، اور ان احادیث  کے مطابق عمل کرنا ضرروی ہوگا  ۔

3۔ اس کا ذکر ماقبل ہوچکا،وہاں ملاحطہ  کیجیے ، مذکورہ  بالا تفصیل کے پیش نظر   فقہائے احناف   کے دلائل  ، عبارات  فقہیہ  اور اصول کی  روشنی  میں یہ بات معلوم  ہوگئی کہ اس مسئلے میں فقہائے احناف  نے صرف احادیث  سے استدلال نہیں کیا  ہے، بلکہ فقہائے احناف   کی عبارات  اور اصول  ودیگر  دلائل بھی زیر بحث  مسئلے کی  مؤید  ہیں۔ فقط واللہ اعلم

 متخصص فی الفقہ الاسلامی ‘

جامعۃ العلوم  الاسلامیۃ

علامہ بنوری ٹاؤن کراچی 5

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/542156916153558/

اپنا تبصرہ بھیجیں