بیعت کا ثبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں

 عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے  کہ ” بیعت تصوف  ” یا  ” بیعت طریقت ” کاشریعت  میں کوئی  ثبوت نہیں یہ فکر اور سوچ بہت بڑی غلطی ہے۔ احادیث، آثار  صحابہ  اورتاریخ  اور تاریخ  اسلام میں  جس طرح بیعت اسلام ،بیعت جہاد اور بیعت  خلافت  کا ذکر  آتا ہے  ایسے ہی ‘ بیعت اعمال “کا بھی  ذکر  ملتا  ہے اور “ بیعت  تصوف ” درحقیقت یہی  “ بیعت  اعمال ” ہی  ہوتی ہے ۔

خطبہ  مسنونہ پڑھ کر   بیعت ہونے والے کو کلمہ پڑھایا جاتا ہے  اور پھر تمام  بدا عمالیوں  سے دور رہنے اور نیک اعمال  پر کاربند رہنے  کا عہد لیاجاتا ہے  اور پھر تمام  بداعمالیوں  سےدور رہنے اور  نیک  اعمال  پر کار بند رہنے  کا عہد  لیاجاتاہے ۔

حضورﷺ نے مختلف مواقع میں صحابہ  وصحابیات ( رضوان اللہ اجمعین) سے ان کے اسلام اور جہاد وقتال   کے علاوہ  دیگراعمال  پر بھی  بیعت لی  ہے ۔ قرآن  وحدیث کی نصوص  میں جن اعمال  پر بیعت لیے  جانے  کا ذکر ہے ۔ سرسری  تلاش کے بعد وہ ذیل  میں لکھے جاتے ہیں ۔

  • نماز قائم کرنا
  • زکوۃ ادا کرنا
  • روزے رکھنا
  • حج کرنا
  • ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی  کرنا۔
  • امر بالمعروف  ونہی عن المنکر  کرنا۔
  • تنگی معاش  ہو یا فراخی س ،ہر حال  میں انفاق  فی سبیل اللہ کرنا ۔
  • ہر حال  میں سمع وطاعت کرنا ۔
  • ہجرت کرنا
  • گناہ کے بعد فورا نیکی  کرنا۔
  • کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا
  • شریعت کے معاملے  میں  کسی کی  ملامت  اور طعن  سے خائف  نہ ہونا۔
  • ہر معاملے میں اللہ کا  تقویٰ اور خوف رکھنا ۔
  • اللہ تعالیٰ کی رضا  اور خوشنودی  والی بات کہنا ۔
  • اللہ کے لیے کسی سے محبت  کرنا۔
  • شرک سے بچنا ۔
  • زناکاری سے دور رہنا۔
  • چوری کرنا۔
  • لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کرنا
  • شوہر سے خیانت نہ کرنا
  • غمی میں چہرہ نہ نوچنا
  • نوحہ نہ کرنا
  • گریبان  نہ پھاڑنا
  • بالوں کو نہ بکھیرنا
  • قتل ناحق نہ کرنا

ذیل میں دی گئی  قرآن  وحدیث کی نصوص  کو غور سے  پڑھیے  اور پھر ٹھنڈے   دل و    دماغ سے  فیصلہ  کیجیے  کہ کیا حقیقت  ہے اور کیا پروپیگنڈا ؟

بیعت تصوف اورقرآن

 سورۃ  ممتحنہ میں اللہ جل شانہ  یہ ارشاد فرماتے ہیں :

“ا ے پیغمبر  ! جب مسلمان  عورتیں  آپ کے پاس  آئیں کہ  آپ ان سے  ان باتوں  پر بیعت کریں کہ اللہ  کے ساتھ کسی  شے کو  شریک  نہ کریں  گی اور نہ  اپنے بچوں  کو قتل کریں گی اور  نہ کوئی بہتان  کی اولاد  دلائیں گی جس کو اپنے ہاتھوں  اور پاؤں  کے درمیان  بنالائیں  اور مشروع باتوں  میں وہ آپ  کے خلاف  نہ کریں  گی ۔ تو آپ ان  کو بیعت  کرلیا کیجیے ۔”

 فائدہ : آیت سے بیعت  کے متعلق  تین  باتیں معلوم  ہوئیں  :

1۔بیعت یعنی بیعت تصوف کی اصل ثابت ہوئی ۔

2۔بیعت کی غرض معلوم  ہوئی کہ بیعت کی غرض  یہ ہے کہ بیعت  کرنے والا شریعت  پر عمل  کرنے کا عزم  رکھے ۔

3۔اسی سے یہ بات  بھی معلوم ہوگئی  کہ  رسمی بیعت جس میں  عمل کا اہتمام  نہ ہو یہ  بے کار ہے۔

 بیعت تصوف احادیث کی روشنی میں

  • بیعت  حضرت عوف بن مالک  اشجعی  رضی اللہ  عنہ فرماتے ہیں  :

 ہم سات  آٹھ یا نو آدمی حضورﷺ کی خدمت  میں حاضر تھے کہ  آپ نے فرمایا :  ” کیاتم اللہ کےرسول سے بیعت نہیں ہوتے ؟

اور اس جملے کو تین  مرتبہ دہرایا  تو ہم حضورﷺ سےبیعت ہونے کے لیےآگے بڑھے  اورعرض کیا  :  ” یا رسول اللہ  ! ہم  توپہلے سے آپ سے بیعت ہیں ۔ اب ہم  آپ سے  کس  چیز پر بیعت  ہوں  “؟

 آپ نے فرمایا  : ”  اس پر بیعت ہوجاؤ کہ   تم اللہ کی عبادت کرو گےاسکے ساتھ  کسی  چیز کو شریک  نہ کروگے  پنج  وقتہ نماز یں  پڑھو گے ( اور ایک جملہ  آہستہ فرمایا کہ )  لوگوں سے  کوئی چیز نہ مانگو گے”

  • حضرت ابوذر غفاری  رضی  اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ حضور ﷺ  نے پانچ  مرتبہ  مجھے بیعت  فرمایا  اورسات  مرتبہ مجھ سے  عہد لیا  اورسات مرتبہ  آپ نے اللہ تعالیٰ  کو میرے  اوپر گواہ بناکر  فرمایا کہ میں اللہ  کے بارے  میں کسی کی ملامت سے نہ ڈروں ۔

 ایک روایت  میں یہ ہے کہ  حضور ﷺ نے چھ دن  فرمایا ”  جو  بات تمہیں  بعد میں   بتائی جائےگی  اسے اچھی طرح  سمجھ لینا  ” ساتویں  دن آپ نے فرمایا  : ” میں تم کو ہر  معاملہ میں  اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتاہوں  چاہے  وہ لوگوں کے سامنے  ہو یا ان  سے  پوشیدہ  اور جب تم  سے کوئی  گناہ  ہوجائے تو فوراً نیکی کرلو  اور کسی سے  کوئی چیز  ہر گز  نہ مانگنا۔

  • حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ   رسول اللہ ﷺ صحابہ کی ایک جماعت  کے درمیان بیٹھے ہوئے  تھے اس وقت آپ نے فرمایا  :آپ  حضرات   مجھ سے  اس پر بیعت  ہوجاؤ کہ  آپ لوگ  نہ  تو شرک  کروگے  ، نہ چوری کروگے ، نہ بدکاری  کروگے، نہ اپنی  اولاد کو قتل کروگے نہ اولاد کا  بہتان  باندھوگے  جسے اپنے ہاتھوں  اور پیروں کے درمیان  گھڑا  ہواور  نہ  کسی مشروع عمل میں نافرمانی کروگے ۔

فائدہ:  ان تمام احادیث میں جن حضرات  صحابہ سے بیعت  لی گئی ہے  ایسا نہیں  کہ انہوں نے بیعت اسلام  کی ہے کیوں کہ  ان احادیث سے ظاہر  ہے کہ وہ پہلے  ہی اسلام لاچکے تھے( چنانچہ  پہلی  حدیث میں یہ الفاظ کہ ۔۔۔” ہم  تو پہلے ہی آپ سے بیعت ہوچکے  ہیں اب   ہم آپ سے  کس  چیز پر بیعت  ہوں ”  اس  پر صریح  ہیں کہ  وہ پہلے  ہی اسلام   لاچکے تھے  اورحضورﷺ نے ان سے  یہ بیعت ” بیعت  اعمال” لی تھی ۔ا سی طرح دوسری حدیث میں حضرت ابو ذر  رضی اللہ عنہ  سے پانچ ۔۔پانچ اور سات۔۔سات مرتبہ بیعت  لینا اس  پر دلیل ہے  کہ یہ بیعت ” بیعت اسلام ” نہ  تھی ۔ تیسری  حدیث میں  یہ الفاظ کہ  ” رسول اللہ  ﷺ صحابہ  کی ایک جماعت کے درمیان  بیٹھے ہوئے تھے”اس پر دلیل  ہیں کہ  وہ جماعت پہلے ہی ایمان  لاچکی تھی  تبھی  تو انہیں  ” صحابہ کی جماعت ”  کہاہے ) بلکہ یہ بیعت  ” بیعت اعمال  ” تھی جو  اہل تصوف  کے ہاں رائج  ہے کیا اب  بھی اسے  غیر ثابت  کہنے  کی گنجائش رہ جاتی ہے ؟

تنبیہ :  بیعت اعمال  سے متعلق اور بھی بہت  سی احادیث ہیں۔ حضرت مولانا یوسف  کاندہلوی  ؒ نے حیاۃ  الصحابہ  جلد اول  میں ایسی  بہت سی احادیث کو  جمع  کردیاہے  شائقین  وہاں رجوع کرسکتے ہیں ۔

 بیعت سے متعلق   چند  فوائد ومسائل

  • بیعت سنت ہے  چنانچہ  حضرت ولی  اللہ محدث  دہلوی ؒ  اپنی کتاب   “القول الجمیل  “میں فرماتے ہیں کہ بیعت سنت ہےاس لیے حضور ﷺسے  صحابہ  نے بیعت کی اورقرب خداوند ی حاصل  کیا۔اس پر کوئی  دلیل نہیں  کی  کہ بیعت  نہ کرنے  والا گناہ گار ہوگا  اور نہ ہی ائمہ  میں سے کسی نے تارک بیعت پر نکیر کی ہے ۔
  • حضورﷺ نے عورتوں سے بیعت کی ہے لیکن جاہل  اور فاسق پیروں   کی طرح  عورت کا  ہاتھ پکڑا کر بیعت  نہیں کی۔چنانچہ ایک روایت میں ہے  کہ چندعورتوں نے  حضورﷺ کے ہاتھ   پر بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی  توحضورﷺ نے فرمایا  :

 ” میں عورتوں  سے مصافحہ نہیں  کرتا۔ زبانی  بیعت ہی خواتین  کے لیے کافی  ہے چاہے  ایک ہو یا سو اور اگر کوئی عورت کا ہاتھ پکڑ کر بیعت  کرتا ہے  یا حجاب  عورتوں  سے میل   ملاپ  رکھتا ہے  تو اہل  حق صوفیہ سے  اس کا کوئی  تعلق نہیں ۔

  • بعض  بزرگوں  کا یہ معمول  ہے کہ وہ نابالغ  بچوں  کو بیعت  نہیں کرتے  جبکہ دوسرے   بعض  حضرات  بچوں  کو بھی بیعت  کرلیتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں ۔ جو حضرات  نہیں  کرتے  وہ اس لیے  بیعت  نہیں کرتے  کہ بیعت کا مقصد احکام  شرعیہ  لازمہ  کا اپنے اوپر   التزام کرنا ہے اور نا بالغ  احکام کا مکلف ہی نہیں ۔چنانچہ ایک حدیث  میں ہے  کہ عبداللہ  بن ہشام  رضی اللہ عنہ  کوان کی والدہ  زینب   بنت حمید  حضورﷺ کی خدمت میں بیعت  کرانے  کی غرض  سے لے کر حاضر  ہوئی تو حضورﷺ نے فرمایا  ۔۔” یہ ابھی بالغ  نہیں ہوا “۔

پھر حضور ﷺ نے بچہ  کے سر پر  ہاتھ پھیرا  اور برکت کی دعا فرمائی ۔ اور جو حضرات بیعت  کرلیتے  ہیں وہ محض   صورت  بیعت  ہوتی ہے  برکت  کے لیے ۔ چنانچہ  حضورﷺ  نے حضرات  حسنین رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ  بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت  عبداللہ بن جعفر  رضی اللہ عنہ  اور حضرت  عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ  کو بچپن  ہی میں  جبکہ وہ  بالغ  نہ ہوئے تھے  بیعت  فرمالیا تھا ۔ یہ بیعت  محض برکت کے لیے تھی ۔

  • مشا ئخ میں یہ طریقہ  رائج  ہے کہ طالب علم  کی حاضری  کے بغیر اس کی درخواست  پر بیعت  کرلیتے ہیں ۔ یہ ” غائبانہ بیعت ” کہلاتی ہے ۔حضور ﷺ نے صلح حدیبیہ  کے موقع پر  ” بیعت رضوان  ” کرتے وقت  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی طرف سے  غائبانہ  بیعت کی تھی۔ غزوہ  بدرکے موقع پر بھی حضور ﷺ نے حضرت عثمان  کی طرف سے غائبانہ  بیعت کی تھی ۔اسی وجہ سے  غائبانہ بیعت کو ” بیعت عثمانی  ” بھی کہتے ہیں ۔
  • بعض لوگوں کی حالت تجربہ سے یہ معلوم  ہوتی ہے کہ  وہ بیعت پر قائم نہیں  رہ سکتے  یا مجاہدات  کا حق ادا  نہیں  کرسکتے  لیکن پھر بھی انہیں  حضرات مشائخ   بعض ا وقات بیعت کرلیتے  ہیں اس کی اصل  یہ حدیث ہوسکتی ہے : ” المرء مع من احب   ولہ ما اکسب  ” یعنی بروز قیامت  آدمی اس شخص کے ساتھ ہوگا  جس سے  وہ دنیا  میں محبت رکھتا ہوگا  اور ثواب  اس چیز کا ملے گا  جو عمل  کیاہوگا۔ا س لیے  کہ  بیعت   میں یہ خاصیت  ہے کہ اپنے  مشائخ  ے محبت کا  سبب ہوجاتی ہے اور بعید نہیں  کہ یہی چیز قیامت کے دن  اسے اپنے مشا ئخ  کے ساتھ کردے ۔

تحریر : مفتی انس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں