چھوٹے نابالغ بچوں کے ملے ھدایا کا حقدار کون؟

1) چھوٹے نا بالغ بچے کو کوئی چیز انعام یا ہدیہ میں مل جائے وہ صرف بچوں ہی کا حق ہے اور وہ رقم والدین کے ہاتھ میں امانت ہے بلا ضرورت شدیدہ وہ رقم والدین اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے۔

فتاوی حقانیہ میں ہے

جو وظیفہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے حکومت مقرر کرتی ہے وہ صرف بچوں ہی کا حق ہے اس کو صرف بچوں کی دیکھ بال اور تعلیم پر خرچ کیا جائے گا وظیفہ کی یہ رقم والدین کے ہاتھوں میں امانت ہوتی ہے. والدین کے لئے جائز نہیں کہ بلا عذر شرعی اس کو اپنے اوپر خرچ کریں یا اپنے کسی رشتہ دار یا احباب کو تحفہ کے طور پر دیں اگر وہ اس طرح  کریں گے تو ضامن ہوں گے۔

لما قال الحصکفی. ولا یجوز ان یھب شیئا من مال طفلہ ولو بعوض (الدر المختار علی ھامش رد المحتار ٤/٧٠٧ از فتاوی حقانیہ ٣/٨٨, و کذا فی تسہیل بہشتی زیور و فتاوی رحیمیہ )

احسن الفتاوی میں ہے

نا بالغ کی مملوکہ اشیاء کا استعمال والدین ,استاذ, مرشد, وغیرہ سب کے لئے نا جائز اور گناہ کبیرہ ہے (٧/٢٦٣)

فتاقی محمودیہ میں اسی طرح کا سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکور ہے

جب نالغ بچے کو پیسہ دئے جائے اور وہ  کوئی چیز بازار سے خرید کر لایا تو ماں باب بھائی بہن کو اس سے محض اپنی خواہش پر لیکر کھانا نہیں چاہئے. البتہ اس کی تربیت کی نیت سے اس کی عادت ہو جائے کہ وہ تنہا نہ کھائیں بلکہ سب کو کھلایا بھی کریں. اس کو نصیحت کرنی چاہئے کہ وہ سب کو تقسیم کرکے خود بھی کھائیں پھر جتنی مقدار اس نے جس کو دی ہے دوسرے وقت اندازے سے وہ بھی اس کو دے دیا اور کھلا دیا کریں اس طرح نا بالغ کے مال میں تصرف کا اشکال بھی نہیں رہے گا اور اس کی تربیت بھی اچھی ہوگی

(فتاوی محمودیہ ١٨/١٤٠)

ملاحظہ ہوں جامعہ فاروقیہ کراچی کا فتوی

بچوں کے مال میں والدین کا تصرف کرنا

سوال:

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلےکےبارے کہ ماں اورباپ بچوں کےوہ پیسےجورشتےداران کو دیتے ہیں خرچ کرسکتےہیں یانہیں اوربچوں کےکپڑے دوسروں کے بچوں کو دے سکتے ہیں یا نہیں ؟

1664فتوی نمبرPakistan ملکPrevious Recordسائل

جواب:

صورت مسئولہ میں وہ رقم بچوں کو دی جائے اس رقم میں والدین کےلیے بلاضرورت شدیدہ تصرف کرناجائزنہیں ہے، نیز بچوں کےجوکپڑے ان کےاستعمال کےقابل نہیں رہےوہ کپڑےدوسرےبچوں کودینا جائزہے البتہ قابل استعمال کپڑے کسی اورکو دینا درست نہیں ہے۔

٢) نا بالغ کسی کو ہدیہ دے تو اس کا لینا درست نہیں کما احسن الفتاوی “ھبۃ الصغیر جائز نہیں”

قال فی شرح التنویر وشرائط صحتھا فی الواھب العقل والبلوغ والملک فلا تصح ھبۃ صغیر و رقیق ولو مکاتبا (رد المحتار ٤/٥٦٧ از احسن الفتاوی ٧/٢٥٣)

٣) نا بالغ کی بیع وشراء کے متعلق مذکور ہے.

عقد بیع منعقد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عاقدین بالغ ہوں نابالغ بچوں کی بیع وشراء منعقد نہیں ہوتی.البتہ جو بچے اور بچیاں نفع اور نقصان کی تمیز کر سکتے ہوں باپ دادا یا جو بھی اس وقت ولی ہو اس کی اجازت سے ان بچوں کی بیع وشراء نافذ ہوگی اجازت صراحتا ہو یا دلالۃ دونوں طرح درست ہے. بچوں کو کوئی چیز خریدتے یا فروخت کرتے دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا بھی سر پرست کی طرف سے اجازت سمجھی جاتی ہے .

قال فی الھندیہ اذا اذن لصبی یعقل البیع والشراء یجوز یرید بہ انہ یعقل معنی البیع والشراء بان عرف ان البیع سالب للملک والشراء جالب عرف الغبن الیسیر من الفاحش لا نفس العبارۃ کذا فی الصغری

(فتاوی ھندیہ ٥/١١٠ از جدید معاملات کے شرعی احکام ١/٣٦ )

عربی فتوی ملاحظہ ہوں

ما حكم بيع الصغير إذا كان مميزا أو غير مميز؟

الإجابــة

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فالصبي إذا كان غير مميز فبيعه باطل غير منعقد أصلا، وإن كان مميزا فبيعه منعقد بإذن وليه أو إذا أجاز تصرفه عند الحنابلة والمالكية والحنفية خلافا للشافعية ورواية عند الحنابلة.

قال ابن قدامة في المغني: ويصح تصرف الصبي المميز بالبيع والشراء، فيما أذن له الولي فيه. في إحدى الروايتين. وهو قول أبي حنيفة. والثانية، لا يصح حتى يبلغ. وهو قول الشافعي  لأنه غير مكلف، أشبه غير المميز. ولأن العقل لا يمكن الوقوف منه على الحد الذي يصلح به التصرف; لخفائه، وتزايده تزايدا خفي التدريج، فجعل الشارع له ضابطا، وهو البلوغ، فلا يثبت له أحكام العقلاء قبل وجود المظنة. ولنا، قول الله تعالى: وَابْتَلُوا اليَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آَنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ . ومعناه; اختبروهم لتعلموا رشدهم. وإنما يتحقق اختيارهم بتفويض التصرف إليهم من البيع والشراء; ليعلم هل يغبن أو لا. ولأنه عاقل مميز، محجور عليه، فصح تصرفه بإذن وليه، كالعبد. وفارق غير المميز، فإنه لا تحصل المصلحة بتصرفه; لعدم تمييزه ومعرفته، ولا حاجة إلى اختياره ; لأنه قد علم حاله. انتهى.

وقال الخرشي في شرحه لمختصر خليل المالكي: والمعنى أن شرط صحة عقد عاقد البيع وهو البائع والمشتري لتمييز،ا وهو إذا كلم بشيء من مقاصد العقلاء فهمه وأحسن الجواب عنه فلا ينعقد من غير مميز لصبا أو جنون أو إغماء منهما أو من أحدهما عند ابن شاس والمؤلف وابن راشد. انتهى.

وقال الحطاب في مواهب الجليل في شرحه لمختصر خليل: والمعنى أنه يشترط في لزوم البيع أن يكون عاقده مكلفا، فلو باع الصبي المميز أو اشترى انعقد بيعه، وشراؤه، ولكن لا يلزمه ولوليه النظر في إمضائه، ورده بما يراه أنه الأصلح للصبي. انتهى.

٤) چھوٹے بچے کو زکوۃ کی رقم دینے کے متعلق فتاوی رحیمیہ میں ہے

اگر نابالغ عقلمند اور سمجھدار ہو قبضہ کو سمجھتا ہو تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے اور جو بچہ بہت چھوٹا ہو قبضہ کو نہ سمجھتا ہو اور لین دین کے قابل نہ ہو تو ایسے بچے کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی.  ہاں اگر بچہ کا ولی اس کی طرف سے قبضہ کر لے تو ادا ہو جائے گی. (فتاوی رحیمیہ ٧/٣٦٨)

در مختار میں ہے. دفع الزکوۃ الی الصبیان اقاربہ برسم عید………. جاز (قولہ الی الصبیان اقاربہ ) ای العقلاء والا فلا یصح الا بالدفع الی ولی الصغیر (در مختار و شامی ٢/ ٩٩ از فتاوی رحیمیہ)

فقط واللہ تعالی اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں