حضرت مولانا یحییٰ مدنی l مبشرات، مختصر سوانح حیات

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی  کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اﷲ رب العزت نے آپ کو اپنے وقت کا امام اور روحانیت کا مرکز و مرجع بنایا تھا۔ اﷲ نے آپ کو خلفاءاور خدام بھی مخلص اور بے مثال عطا فرمائے۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید  بھی حضرت شیخ الحدیث  کے اجل خلفاءمیں سے تھے۔ صاحب دل اور صاحب قلم بزرگ تھے۔ لوگ آپ کو شہید اسلام کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے حضرت شیخ الحدیث اور آپ کے خلفاءکے حوالے سے ایک کتاب مرتب کرنے کا سوچا۔ چنانچہ حضرت شیخ الحدیث  کے تمام خلفائے کرام سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے اپنے حالاتِ زندگی، خود تحریر کرکے روانہ فرمائیں تاکہ ان کو یکجا جمع کرکے طبع کرایا جا سکے۔ حضرت شیخ الحدیث کے تمام خلفائے کرام نے اپنی اپنی سوانح عمری تحریر کرکے روانہ فرمائی اور اس طرح ایک ضخیم کتاب وجود میں آئی۔ کتاب کا نام ہے: ”حضرت شیخ الحدیث اور ان کے خلفائ۔“
شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی نور اﷲ مرقدہ و اعلیٰ اﷲ مراتبہ نے بھی اسی زمانے میں اپنی خود نوشت سوانح حیات رقم فرمائی جو اس وقت مذکورہ کتاب کی زینت ہے۔ حضرت والا کی زندگی کے حوالے سے یہ ایک مختصر، جامع اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود نوشت ہونے کی وجہ سے مستند ترین سوانح عمری ہے۔ جو ان شاءاﷲ! حضرت والا کے سوانح نگاروں کے لےے بنیادی ماخذ کا کام دیتی رہے گی۔ ہم نے بھی اسی خود نوشت سوانح حیات کو اپنے اس کام کا ماخذ و مصدر بنایا ہے اور کوشش یہ ہی ہے کہ اس پر جو مزید اضافہ جات ہوں وہ حضرت والا کے معتمد اور قریبی متعلقین سے منقول اور مصدقہ ہوں۔ ان شاءاﷲ! ہر اضافے کے ساتھ اس کے ماخذ اور ناقل کا حوالہ بھی اہتمام سے درج کردیا جائے گا۔
حضرت والا کے معزز خلفائے کرام اور مخلص خدام و متعلقین سے گزارش ہے کہ وہ اس مبارک کام میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ اس کے بغیر یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے ای میل ایڈریس نوٹ فرمالیں:
suffahpk@gmal.com
786anasraheem@gmail.com
ولادت:
لدھیانہ، بھارت کے مشرقی پنجاب کا ایک شہر ہے۔ یہ شہر مردم خیزی میں مشہور ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی رشید احمد لدھیانوی، مولانا محمد احمد لدھیانوی یہ سب حضرت لدھیانہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت مولانا یحییٰ مدنی نور اﷲ مرقدہ و اعلیٰ اﷲ مراتبہ بھی لدھیانہ شہر میں پیدا ہوئے۔
حضرت والا اپنی تاریخ ولادت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ”تقریباً مابین 1938ء1940ء(صحیح متعین معلوم نہیں)“
یہ وہ دور تھا جب مقبوضہ اسلامی ممالک میں آزادی کی تحریکات اپنے عروج پر تھیں۔ مصر میں حسن البنا کی تحریک اپنا کام دکھا رہی تھی۔ ملائیشیا کے مسلمان انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف تھے۔ انڈونیشیا کے مسلمان ولندیزی حکومت کے مدمقابل کھڑے تھے۔ شام میں فرانسیسی تسلط کے خلاف مسلمان، علمِ بغاوت بلند کےے ہوئے تھے اور ہندوستان میں، مسلمانان ہند، انگریز کے جبر و تشدد کے خلاف متحد ہوکر انگریزوں کی غلامی سے آزادی کا نعرہ بلند کےے ہوئے تھے۔ ایک ایسے تاریخی اور انقلاب انگیز ماحول میں اﷲ جل شانہ نے حضرت مولانا یحییٰ مدنی قدس اﷲ سرہ جیسی ، مثالی اور انقلابی شخصیت کو پیدا فرمایا۔
خاندانی مزاج:
حضرت والا رحمہ اﷲ اپنے خاندانی مزاج کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ”بندہ کا تعلق دہلی کی پنجابی برادری کے ایک تاجر گھرانے سے ہے۔ اس برادری کا شعار صوم و صلوٰة (نماز، روزہ) کی پابندی، فریضہ¿ حج کی ادائیگی، علماءکے ساتھ محبت، ان کے درس قرآن کے حلقوں میں بیٹھنا اور ان کی خدمت و مدارت کرنا رہا ہے۔ اگر اس سے آگے بڑھے تو خاندان کے کسی ایک دو افراد کو قرآن پاک حفظ کروایا ۔ بس اس کے علاوہ تجارت میں مشغولی و انہماک…. بچے اسکول میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ چھٹی کے بعد شام کو دکانوں پر بلا لےے جاتے ہیں تاکہ بے کار فضولیات میں بھی نہ پڑیں اور ابتداءہی سے تجارت گھٹی میں پڑے۔ میرے دادا، تایا، والد سب کے سب بسلسلہ¿ تجارت دہلی میں مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں آکر اقامت پذیر ہوگئے تھے۔ میری پیدائش لدھیانہ میں ہوئی۔“
ماہنامہ ”بینات“ کے مدیر معاون مولانا محمد اعجاز مصطفی صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :
جس بچہ نے اسکول اور کالج کے امتحانات میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی ہو، گھر میں مال و دولت کی ریل پیل ہو، افراد خانہ کاروبار میں لگے ہوئے ہوں، ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر اوائل عمری میں تبلیغ دین کے لےے نکل جانا، بزرگوں کی صحبت اور خدمت میں لگے رہنا اور ان کے ذوق کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا اور زندگی بھر ان کے مسلک و مشرب سے سرمو انحراف نہ کرنا، یہ صرف آپ ہی کا خاصہ تھا۔ “
(ماہنامہ ”بینات“ جمادی الاولیٰ والاخریٰ ۴۳۴۱ءاپریل، مئی 2013ءصفحہ نمبر ۶)
دہلی کے مہمان:
قارئین نے ملاحظہ کیا کہ حضرت والا اصلاً دہلی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس پر ایک نکتہ کی بات ذہن میں آتی ہے کہ حضرت والا کی پیدائش دہلی برادری میں ہوتی ہے۔ مدینہ منورہ سے ہجرت کے بعد، کراچی میں اقامت بھی دہلی مرکنٹائل سوسائٹی میں اختیار فرماتے ہیں۔ دین کی نشر و اشاعت اور اصلاح و ارشاد کی اوّلین مسند بھی دہلی برادری میں قائم فرماتے ہیں اور وفات کے بعد تدفین کا عمل بھی دہلی والوں کے آبائی قبرستان، شفیق پورہ میں ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل علم و ارشاد کو سب سے پہلے اپنی برادری اور قبیلے کے لوگوں پر محنت کرنی چاہےے! اور ان کا بھائی اور انہیں کا ایک فرد بن کر اپنی زندگی بسر کرنی چاہےے! چنانچہ انبیائے کرام علیہم الصلاة والتسلیمات کا طریقہ اور ان کی دعوت کا منہج یہ ہی رہا کہ وہ اپنی اپنی قوم کے لےے نبی اور مصلح بنا کر بھیجے گئے۔ خود نبی آخرالزمان ختم المعصومین w کو بھی اﷲ جل شانہ کی طرف سے شروعات میں یہ حکم دیا گیا کہ و انذر عشیرتک الا¿ قربین (الشعراء: ۴۱۲ پارہ ۹۱) یعنی اے نبی w! سب سے پہلے اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو دین کی دعوت دیجےے!
ادھر عالم ارواح میں حضرت مولانا یحییٰ مدنی رحمہ اﷲ کے ساتھ ”دہلی“ کی نسبت اس حد تک معروف ہوئی کہ حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اﷲ اپنی ایک صاحبزادی (جو حضرت مفتی حمد الرحمن صاحب رحمہ اﷲ کی اہلیہ ہیں) کے خواب میں تشریف لاتے ہیں اور صاحبزادی سے ارشاد فرماتے ہیں:
”نفسیہ! اچھی سی چائے بناو¿! دہلی سے مہمان آرہے ہیں۔ دودھ الگ رکھنا، پانی الگ رکھنا، پتی الگ رکھنا اور انڈے بھی ابال لو! اچھا سا ناشتہ تیار کرلو!“ (یہ چائے بنانے کی وہ ہی ترتیب ہے جو حضرت مولانا یوسف بنوری کو اپنی زندگی میں مرغوب اور پسند تھی) پھر خواب میں ہی حضرت بنوری بازار سے دیسی انڈے خریدلاکر دیتے ہیں۔ حضرت مولانا یوسف بنوری کی صاحبزادی دل ہی دل میں سوچتی ہیں کہ اس سے کون بزرگ مراد ہیں؟ جب خواب سے بیدار ہوئیں تو اسی وقت فون پر اطلاع موصول ہوتی ہے کہ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی صاحب کا وصال ہوا ہے۔
(ناقل :صاحبزادہ حضرت مولانا محمد اسماعیل مدنی زید مجدہم)
اسم گرامی:
حضرت والا اپنے نام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
”محمد یحییٰ مدنی بن الحاج شیخ محمد یونس مرحوم“
دنیا میں سب سے پہلے یحییٰ نام حضرت یحییٰ علیہ السلام کا رکھا گیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یا زکریا انا نبشرک بغلٰم اسمہ یحییٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا  (سورہ مریم: آیت نمبر ۷، پارہ ۶۱)
”اے زکریا! ہم تم کو ایک فرزند کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ اس سے پہلے کسی کو ہم نے اس کا ہم نام نہیں بنایا۔“
تاریخ اسلام میں یحییٰ نام کے مشاہیر کئی گزرے ہیں۔ مثلاً: امام یحییٰ بن شرف النووی، جو امام نووی کے نام سے مشہور ہیںاور صحاح ستہ میں صحیح مسلم کے مشہور زمانہ شارح ہیں۔ اسی طرح شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اﷲ کے والد ماجد حضرت مولانا یحییٰ کاندھلوی جو حضرت گنگوہی کے ترمذی شریف کے دروس اور املائی افادات“ الکوکب الدری“ کے مرتب و مولف ہیں۔ یحییٰ نام کے مشاہیر علماءو مشائخ کی فہرست میں حضرت مولانا یحییٰ مدنی کا اضافہ ان شاءاﷲ! ایک سنہرا باب شمار ہوگا۔
ویسے ”یحییٰ“ یہ عبرانی نام ہے یا عربی؟ اس میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک یحییٰ عبرانی زبان کا لفظ ہے جبکہ دوسرے بعض علماءکا کہنا ہے کہ یحییٰ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کا مادہ ہے حیاة (زندگی)۔ عربی گرامر کے واقف کار جانتے ہیں کہ عربی زبان میں بعض نام ایسے بھی ہیں جو ماضی یا مضارع کے وزن پر ہوتے ہیں لیکن اصلاً وہ مصدر سے منقول ہوکر اس لبادے میں آتے ہیں جیسے : یعمر، یعیش، یموت وغیرہ یہ سب عربی نام مضارع کے وزن پر ہیں۔ لیکن اصلاً مصدر سے منقول ہیں۔ بالکل اسی طرح یحییٰ بھی فعل مضارع کے لبادے میں اپنے مصدر ”حیاة“ سے منقول ہے۔ یحییٰ کا معنی ہے زندگی اور یہ بات اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ناموں کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ اسی لےے والدین کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ایسے نام رکھیں جس کے معنی اچھے ہوں۔ یحییٰ نام کے اندر مختلف حوالوں سے معنویت اور گہرائی پائی جاتی ہے:
1…. یحییٰ (زندگی) سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ اس شخص کی زندگی لمبی ہوگی۔
2…. یحییٰ (زندگی) سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ یہ شخصیت اصلاح و ارشاد کے ذریعے اپنی قوم میں ایک نئی روح اور نئی زندگی پھونک دے گا۔
3…. یحییٰ (زندگی) سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ یہ شخصیت اپنے کارناموں اور اپنے کاموں کی وجہ سے دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
4….یحییٰ (زندگی) سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ یہ شخصیت شہید ہوگی۔ کیونکہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔
یحییٰ نام کے اندر معنویت ملاحظہ فرمائیں اور حضرت والا کے اندر ان خوبیوں کو ایک ایک کرکے دیکھتے چلے جائیں۔ حضرت والا رحمہ اﷲ کو اﷲ رب العزت نے عمر بھی لمبی عطا فرمائی۔ (عیسوی لحاظ سے 76 سال اور اسلامی تقویم کے لحاظ سے 78 سال) آپ نے اپنی برادری بلکہ ایک خلق کو اپنے اصلاح و ارشاد سے نئی زندگی بخشی۔ آپ کے کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اور آپ شہید بھی ہوئے اس لےے کہ آپ پیٹ کی بیماریوں کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور صحیح حدیث کے مطابق جو شخص پیٹ کے مرض میں وفات پاتا ہے اﷲ اس کو شہادت کا رتبہ عنایت فرماتے ہیں۔ آپ کی وفات کے بعد کئی معتبر اور مستند لوگوں نے ایسے خواب دیکھے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ نے حضرت والا رحمہ اﷲ کو ”شہادت“ کے مرتبہ پر فائز کیا ہے ان میں سے سر دست دو خواب ملاحظہ فرمائیں!
1…. مفتی سلمان یاسین صاحب مدظلہ کا خواب:
حضرت مفتی سلمان یاسین صاحب، حضرت والا کے خلیفہ مجاز اور چہیتے داماد ہیں۔ حضرت کے سفر و حضر کے رفیق شمار ہوتے ہیں۔ وہ بیان فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے حصرت مولانا کی مرقد مبارک کی سلپ اُٹھائی ہے اور قبر کو پورا کھول دیا ہے۔ پھر اندر دیکھتا ہوں تو حضرت مولانا قبر میں اس طرح آرام فرما رہے ہیں جیسے ایک زندہ انسان آرام کر رہا ہوتا ہے یعنی پاو¿ں بھی ہلارہے ہیں اور اپنا ہاتھ نکال کر سر کے نیچے بھی رکھ رہے ہیں۔
جانشینِ حضرت مولانا یحییٰ مدنی،حضرت مفتی سعید احمد صاحب مدظلہ العالی اس خواب کی تعبیر یوں بیان فرماتے ہیں: حضرت کا اس طرح زندوں کی طرح محوِ آرام ہونا اشارہ ہے کہ حضرت کو اﷲ جل شانہ نے شہادت کے مقام پر فائز کیا ہے اور قبر کشائی کا مطلب یہ ہے کہ حضرت والا رحمہ اﷲ کا فیض پورا پورا آپ (یعنی حضرت مفتی سلمان صاحب مدظلہ) کو ملے گا۔
2…. معہد کے ایک فاضل کا خواب:
معہد الخلیل الاسلامی کے ایک فاضل اور حضرت مولانا کے ایک ادنیٰ خادم نے خواب دیکھا کہ مولانا ارقم یونس اور ایک اور صاحب جن کو وہ نہیں پہچانتے حضرت والا کے پاس بیٹھ کر حضرت کو غالباً قرآن سنا رہے ہیں اور حضرت کے سامنے کسی کتاب کے مسودے ٹریسنگ کی صورت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ کام بھی ساتھ ساتھ ہورہا ہے۔
حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم اس خواب کی تعبیر یوں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا کو شہادت کا مرتبہ حاصل ہوا ہے اور معہد الخلیل اور اس کی شاخوں میں حضرت کے قائم کردہ درس و تدریس اور کتب خانہ ان سب شعبہ جات کا ثواب حضرت کو پہنچ رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں