حضرت مولانا یحییٰ مدنی l مبشرات، مختصر سوانح حیات

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَا ٓ اِنَّ اَو±لِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَو±ف’‘ عَلَی±ھِم± وَلَا ھُم± یَح±زَنُو±نَo الَّذِی±نَ اٰمَنُو±ا وَکَانُو±ا یَتَّقُو±نَ o لَھُمُ ال±بُش±رٰی فِی ال±حَیٰوةِ الدُّن±یَا وَفِی ال±اٰخِرَةِ ط لَا تَب±دِی±لَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ط
(سورة یونس : ۲۶-۴۶ )
ترجمہ : ”یاد رکھو! اﷲ کے دوستوں پر نہ قیامت میں کوئی خوفناک واقعہ پیش آئے گا اور نہ وہ دنیا کے چھوٹ جانے پر غمگین ہوتے ہیں۔ اﷲ کے دوست وہ لوگ ہوتے ہیں جو حقیقی مومن ہوتے اور گناہوں سے پرہیز رکھتے ہیں۔ اﷲ کے ان ولیوں کے لےے دنیا کی زندگی میں بھی بشارتیں ہیں اور آخرت میں بھی۔ “
ان آیات میں اﷲ رب العزت نے دو حقائق بیان فرماتے ہیں:
۱…. ”ولی اﷲ“ کی تعریف
۲…. ولی اﷲ کے لےے دنیوی و اخروی بشارتیں
ولی اﷲ کی تعریف:
ولی اﷲ کسے کہتے ہیں؟ اس کو ایک مثال سے سمجھےے! جیسے : ایک روپیہ بھی مال ہے۔ ہزار روپے بھی مال ہے اور ایک لاکھ روپے بھی مال ہے۔ لیکن عوام و خواص میں مالدار و کہلاتا ہے جس کے پاس بہت زیادہ مال اور روپیہ پیسہ ہواور جس کے پاس جس قدر زیادہ مال و دولت ہوتا ہے وہ اتنا بڑا مالدار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح جس نے بھی توحید و رسالت کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرلی وہ ایمان اور ولایت والا ہوگیا۔ لیکن عوام و خواص کی نظر میں حقیقی مومن اور صحیح معنوں میں ولی اﷲ وہ ہوتا ہے جو ایمان و تقویٰ میں ممتاز اور اعلیٰ مقام کا حامل ہو۔
جس بندہ¿ مومن کے دل کی حالت یہ ہو کہ اﷲ رب العزت کی ذات و صفات سے اس کو کامل عقیدت ہو، اﷲ جل شانہ سے لگاو¿، محبت اور اﷲ تعالیٰ کا دھیان اسے نصیب ہو اور ظاہری حالت یہ ہو کہ اس کی زندگی اﷲ کے احکام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، سنتوں کا اتباع اور حلال و حرام پر عمل اعلیٰ درجہ کا حاصل ہو وہ اﷲ جل شانہ کا دوست اور ولی اﷲ ہے۔ یہ ظاہری اور باطنی خوبیاں جس کے اندر جس قدر زیادہ ہوں گی وہ اتنا بڑا ”ولی اﷲ“ ہوگا۔ الذین امنوا میں ولی اﷲ کے قلبی (دل کے) جذبات و کیفیات کا ذکر ہے اور وکانوا یتقون میں ولی اﷲ کے ظاہری حلےے کی طرف اشارہ ہے۔
ولی اﷲ کے لےے بشارتیں:
مذکور الصدر آیات میں ولی اﷲ کے لےے دو قسم کی بشارتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے:
۱…. دنیوی بشارتیں
۲….خروی بشارتیں
دنیوی بشارتیں:
دنیوی بشارت کیا ہے؟ اس حوالے سے یہ احادیث ہماری راہ نمائی کرتی ہیں:
۱…. مصر کے ایک شخص نے حضرت ابو الدرداءرضی اﷲ عنہ سے لھم البشری فی الحیوة الدنیا کی تفسیر پوچھی کہ دنیا میں اﷲ کے ولیوں کو خوش خبری کس طرح ملتی ہے؟ تو حضرت ابوالدرداءbنے فرمایا: جب سے میں نے یہ بات نبی کریم w سے پوچھی ہے کسی نے مجھ سے آپ کے علاوہ یہ بات نہیں پوچھی، ہاں! ایک اور شخص نے بھی یہ بات پوچھی تھی اور جب میں نے نبی کریم w سے اس کی تفسیر پوچھی تو آپ w نے فرمایا: ”جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے آپ کے علاوہ کسی نے مجھ سے ”بشری“ کے بارے میں نہیں پوچھا۔ اس آیت میں بشری سے مراد ”نیک خواب ہے جس کو مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی دیکھتا ہے۔
 (ترمذی: ابواب الرو¿یا حدیث نمبر ۱۷۲۲)
٭…. حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے رسول اﷲ w سے لھم البشری فی الحیاة الدنیا کی تفسیر پوچھی کہ اس سے کیا مراد ہے؟ تو اﷲ کے نبی w نے ارشاد فرمایا: ھی الرو¿یا الصالحة یراھا المو¿من او تُری لہ اس سے مراد نیک خواب ہے جو مسلمان اپنے بارے میں دیکھتا ہے یا کوئی اور اس کے بارے میں دیکھتا ہے۔
(ترمذی: حدیث ۳۷۲۲ ابواب الرو¿یا)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ، حضرت جابر رضی اﷲ عنہ، حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ ان سب حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم سے بُشریٰ کی تفسیر ”نیک خواب“ ہی منقول ہے۔
(روح المعانی: ۱۱۱۰۲ یونس : آیت ۴۶)
۲…. حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم w سے ایک صحابی نے عرض کیا: لوگ کسی شخص کی مدح و ثناءاور ذکر خیر کریں تو یہ کس چیز کی علامت ہے آپ w نے ارشاد فرمایا: ”یہ ایک مومن کے لےے دنیا میں ہی عطا کی جانے والی بشارت ہے۔“
(مسلم شریف: ۲/۲۳۳ کتاب البروالصلة)
اخروی بشارتیں:
اﷲ کے ولیوں کو آخرت میں کیا بشارت دی جاتی ہے؟ اس حوالے سے یہ نصوص مبارکہ ہماری راہ نمائی کرتی ہیں:
۱…. ”متقی پرہیز گاروں کی روح کو فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ شرک سے پاک ہوتے ہیں (یعنی مرتے دم تک توحید پر قائم رہتے ہیں اور) فرشتے ان سے یہ کہتے جاتے ہیں سلام علیکم تم روح قبض ہونے کے بعد جنت میں چلے جانا۔“
(سورة النحل: آیت ۲۳ پارہ ۴۱)
۲…. ”جن لوگوں نے شرک سے بیزاری ظاہر کرکے توحید اختیار کرلی اور پھر اس پر استقامت اور جماو¿ کا مظاہرہ کیا ان لوگوں پر (مرتے وقت، پھر قبر میں پھر قیامت میں) فرشتے اتریں گے اور کہیں گے تم اندیشہ نہ کرو اور نہ رنج کرو اور جنت کی خوش خبری سنو جس کا تم سے وعدہ تھا۔ ہم تمہارے دوست تھے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی دوست رہیں گے۔
(سورہ حم سجدہ: آیت ۰۳، ۱۳ پارہ ۴۲)
۳…. حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ دیہات کا ایک شخص رسول اﷲ w کی خدمت میں حاضر ہوا اور الذین امنوا وکانو یتقون لھم البشری کی تفسیر پوچھی۔ آپ w نے ارشاد فرمایا: دنیا میں بشارت سے مراد اچھا خواب ہے جو مومن کو اپنے بارے میں دکھایا جاتا ہے جس سے دنیا میں ہی اسے خوش خبری حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بشارت سے مراد یہ ہے کہ موت کے وقت اس کو یہ مژدہ سنا دیا جاتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے تجھے بھی بخش دیا ہے اور جو تجھے قبر تک اٹھا کر لے جائیں گے ان کی بھی تیرے صدقے میں مغفرت کردیں گے۔“
 (روح المعانی: ۱۱/۱۰۲)
٭٭٭
یہ ۳ ربیع الثانی ۴۳۴۱ ہجری، ۴۱ فروری ۳۱۰۲ عیسوی جمعرات کا دن ہے۔ مدرسہ تعلیمات قرآنیہ کے نصفی امتحانات کی تعطیلات چل رہی ہیں۔ صبح گیارہ بجے کے قریب ہمارے موبائل کی ”Message tone“ بجتی ہے۔ میسیج مولوی زبیر سعید زیدہ مجدہ کا ہے (جو جامعہ معہد الخلیل کے دورہ حدیث کے طالب علم اور حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم کے چھوٹے صاحبزادے ہیں)
”بانی معہد الخلیل الاسلامی حضرت مولانا یحییٰ مدنی صاحب وفات پاگئے ہیں۔“
یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گرتی ہے۔ بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے: انا ﷲ و انا الیہ راجعون!
دل زبانِ حال سے کہتا ہے:
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

یہ حالت ہوگئی ہے ایک ساقی کے نہ ہونے سے
کہ خم کے خم بھرے ہیں مئے سے، اور میخانہ خالی ہے
وہ بزم اب کہاں؟ وہ طرب کا سماں کہاں؟
ساقی کہاں؟ وہ جام و مئے ارغواں کہاں؟
ڈھونڈیں ہم اب نقوشِ سبک رفتگاں کہاں؟
اب گردِ کارواں بھی نہیں، کارواں کہاں؟
٭٭٭
حضرت مولانا یحییٰ مدنی قدس اﷲ سرہ کی پیکرِ شخصیت ،جیسے عالمِ بیداری میں ہم ناقصوںکے مصلح تھے۔ عالمِ خواب میں بھی وقتاً فوقتاً ہماری اصلاح کرتے رہتے تھے۔ ابھی وفات سے ایک ماہ پیشتر جب حضرت والا رحمہ اﷲ صاحب فراش تھے خواب میں اپنی مخصوص فرشی نشست پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ آخری جمعرات کا سماں ہے (ہر اسلامی مہینے کی آخری جمعرات کو جامعہ معہد الخلیل میں ایک اصلاحی محفل ہوتی ہے جس میں سوا لاکھ بار درود شریف پڑھا جاتا ہے۔ محفل ذکر ہوتی ہے اصلاحی وعظ ہوتا ہے اور آہ و بکاءپر مشتمل پرسوز دعا سے محفل اختتام پذیر ہوتی ہے) مجھے بہت ندامت اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ میں حضرت رحمہ اﷲ سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں کرتا۔ پھر ہمت کرکے مصافحہ کے لےے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔ پاو¿ں پکڑتا ہوں اور کہتا ہوں: مجھے بہت ہی شرمندگی ہے کہ میں آپ سے ملاقات کے لےے نہیں آیا۔ اس میں میری ہی غلطی ہے۔ (حقیقت بھی یہی ہے کہ معہد اور حضرت سے ہمارا جو تعلق رہا ہے اور اس نسبت سے ہمیں جو کچھ ملا ہے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت کی خدمت میں کثرت سے آنا جانا رہتا۔ بس یہ نفس کے حیلے بہانے تھے کہ وہ اعذار پیش کرکے جانے نہیں دیا کرتا تھا) حصرت میری اس بے وفائی پر ناراض نہیں ہوتے (یہ میرے لےے بہت تسلی کی بات ہے) بلکہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اور تیمم کا ایک مسئلہ پوچھتے ہیں کہ کس چیز سے تیمم کر سکتے ہیں؟ میں جواب میں کہتا ہوں : ”زمین کی ہر ایسی دھات سے جو جلانے سے جلے نہیں اور پگھلانے سے پگھلے نہیں۔“
حضرت یحییٰ مدنی قدس اﷲ سرہ کے اجل خلیفہ اور جانشین صادق حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم اس خواب کی تعبیر یوں دیتے ہیں: ”زمین میں عاجزی پائی جاتی ہے۔ تیمم کا مسئلہ پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اندر عاجزی پیدا کرو! عاجزی پیدا کرو گے تو روحانی ترقی ہوگی۔“
گویا حضرت مولانا رحمہ اﷲ نے خواب میں اصلاح فرما دی کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بیماری دل سے نکالو! عاجزی اختیار کرو! خود کو مٹادو! جو اپنے آپ کو مٹاتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو ترقیاں عطا فرماتے ہیں: من تواضع ﷲ رفعہ اﷲ ومن تکبر و ضعہ اﷲ
(مشکوة)
یہ شعر ہم نے حضرت سے کئی بار سنا:
تواضع سیکھ لو لوگو صراحی سے!
کہ جاری فیض بھی اور جھکی جاتی ہے گردن بھی
اور یہ بھی سنا:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کوئی مرتبہ چاہےے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے
حضرت یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پر گھس جانے کے بعد
حضرت مولانا lکے انتقال کے بعد ایک بار حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم کے سامنے اس خواب کا تذکرہ ہوا تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا: ”اس خواب میں حضرت مولانا نے تیمم کا مسئلہ پوچھا ہے۔ تیمم مٹی سے ہوتا ہے ۔ اس میں حضرت کی وفات کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ حضرت کا انتقال ہونے والا ہے اور تیمم زمین کی جنس کی ایسی دھاتوں سے ہوتا ہے جو جلانے سے جلے نہیں، پگھلانے سے پگھلے نہیں۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ اﷲ والوں کے جسم محفوظ رہتے ہیں اور آگ کا اس پر اثر نہیں ہوتا۔ حضرت والا رحمہ اﷲ، اﷲ کے کامل ولی تھے۔ ان کے جسم کو آگ نہیں چھوئے گی۔“
خواب کو ایک نظر دوبارہ پڑھیں! خواب میں آخری جمعرات کا سماںہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حضرت مولانا رحمہ اﷲ کا انتقال بھی جمعرات کو ہی ہوا۔ گویا جمعرات کا دن آپ کی زندگی کی آخری جمعرات بن گئی۔ وفات سے ایک دو دن پہلے آپ بار بار کہتے جاتے تھے:
 ”آج کیا دن ہے؟“
” مجھے جمعرات کا انتظار ہے۔“
٭٭٭
 اس خاکسار اور سراسر گناہ گار نے ایسے کئی خواب دیکھ رکھے ہیں جس میں حضرت مولانا رحمہ اﷲ کبھی میرے کسی گناہ پر خفا نظر آتے ہیں۔ کبھی کسی بات پرخوش ہوتے ہیں۔ کبھی ہمارے گھر کے دروازے پر کرسی کی طرح پاو¿ں لٹکا کر تشریف فرما ہیں۔ کبھی ہم حضرت رحمہ اﷲ کو پیالے میں پانی پیش کر رہے ہیں۔ کبھی حضرت کوئی قیمتی نصیحت فرما رہے ہیں۔
 دراصل زمانہ طالب علمی میں (اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اب طالب علم نہیں۔ اب بھی ہم طالب علم ہی ہیں) ہمارا حضرت کے ساتھ کچھ ایسا ہی ملا جلا تعلق رہا ہے کہ کبھی حضرت کے بہت قریب ہیں۔ حضرت کی خوب جسمانی خدمت کر رہے ہیں، پاو¿ں دبا رہے ہیں۔ سر میں تیل لگا رہے ہیں۔ سامان اور کتابیں اٹھا کر حضرت کے پیچھے چل رہے ہیں اور کبھی حضرت ہماری کسی غلطی پر ازراہ تربیت ہم سے خفا ہیں کہ رعب کی وجہ سے قریب جانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کبھی نصیحت کر رہے ہیں اور کبھی ڈانٹ بھی پڑ رہی ہے۔ حضرت کی شخصیت کا ہمارے اوپر کچھ ایسا اثر پڑا کہ خواب میں بھی حضرت اصلاح فرماتے رہتے اور خواب غفلت سے جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔
٭٭٭
خیر! حضرت مولانا کے انتقال کی خبر ملی تو فوراً اپنے شیخ و مرشد اور حضرت والا کے جانشین حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم سے بذریعہ فون اس کی تصدیق چاہی۔ حضرت مفتی صاحب نے دھیمی اور غمگین آواز میں فرمایا: ”جی جی! یہ خبر درست ہے۔“ اتنے میں دوستوں کی طرف سے تصدیق کے لےے میسیج آنا شروع ہوگئے کہ حضرت مولانا کے انتقال کی خبر درست ہے یا نہیں؟ ان کو جواب دینے کے بعد ہم نے اپنی سوشل میڈیا سروس کی Twitter اور Pring آئی ڈیز پر یہ افسوس ناک خبر Post کردی۔ کچھ دیر بعد مدرسہ تعلیمات قرآنیہ کے ناظم، مولانا بدر اختر صاحب کا Message موصول ہوتا ہے:
 ”حضرت مولانا یحییٰ مدنی صاحب کی وصیت کے مطابق، متعلقین ان کی روح کے ایصال ثواب کے لےے نوافل اور کلمہ طیبہ کا اہتمام کریں!“
اس وصیت کی تصدیق بھی ہم نے حضرت مفتی صاحب سے کی اور اسے بھی Twitter اور Pring پر Post کردیا اور وصیت کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرنے لگے۔جو کچھ سمجھ میں آیا پیش خدمت ہے:
۱….بدنی عبادات میں نماز سب سے افضل عبادت ہے۔ قیامت میں سب سے پہلے سوال نماز کا ہوگا۔ نبی کریم علیہ الصلاة و السلام نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو قرار دیا ہے۔ نماز کے بارے میں اﷲ جل شانہ کا ارشاد ہے:
 ان الحسنٰت یذھبن السیئات(ہود) نماز سے حاصل نیکیاں اور ثواب انسان کے گناہوں اور خطاو¿ں کو دور کردیتی ہیں۔ اس لےے حضرت مولانا نے اپنے انتقال کے فوراً بعد آہ و بکا اور واویلا مچانے کی بجائے نماز اور نوافل کے ذریعے ایصال ثواب کی وصیت فرمائی۔
۲…. اذکار میں سید الاذکار یعنی بہترین ذکر کلمہ طیبہ ہے: افضل الذکر لا الہ الا اﷲ (ترمذی، ابن ماجہ) سب سے افضل ذکر لاالہ الا اﷲ ہے۔ کلمہ طیبہ کی فضیلت و اہمیت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایمان کا مدار بلکہ دنیا کے وجود کا مدار بھی اسی کلمہ پر ہے چنانچہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک لا الہ الا اﷲ کہنے والا کوئی زمین پر موجود ہو۔
گویا حضرت والا نے دنیا والوں کو یہ باور کرادیا کہ ایمان کے بعد نماز اور ذکر اﷲ یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے سفر آخرت کا بہترین توشہ ہیں۔ یہ دو چیزیں انسان کو قبر کی وحشتوں اور آخرت کی تاریکیوں سے نجات دینے والی ہیں۔ یہ بہترین مونس اور غمخوار ہیں۔ ان کا ساتھ ہو تو انسان کے لےے موت کے بعد کی ساری منزلیں آسان ہیں۔
انہیں سوچوں کے دوران ذہن کے جھروکوں میں ماضی کا ایک واقعہ گھومنے لگا:
ایک بار رمضان کے عشرہ¿ اعتکاف میں حضرت مفتی سعید احمد صاحب کے مرید بھائی جمیل صاحب معہد الخلیل تشریف لائے۔ افطاری کا وقت ہے۔ جمیل بھائی اس وقت فوج کے شعبہ خط و کتابت سے منسلک تھے۔ حضرت مولانا رحمہ اﷲ نے ان کو اپنے پاس دسترخوان پر افطار کے لےے بٹھایا۔ انہوں نے حضرت والا k سے عرض کیا کہ حضرت مفتی سعید صاحب کے ہاں ستر ہزار بار کلمہ طیبہ کا ورد کیا گیا ہے اور اس کا ثواب آپ کو بخشا گیا ہے۔ حضرت والا رحمہ اﷲ یہ بات سن کر بہت زیادہ خوش ہوئے اور تمام اہل مجلس سے پرمسرت لہجے میں اس کا ذکر فرمایا۔ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ ایصال ثواب زندوں کو بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ 70 ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھ کر کسی کو بخشنے کی کوئی خاص فضیلت ہے۔ تجسس اور تلاش سے شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی lکی شہرہ آفاق کتاب” فضائل اعمال “میں اس کی فضیلت مل گئی جو ہدیہ¿ ناظرین کی جاتی ہے:
”شیخ ابوزید قرطبیk فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ لا الہ الا اﷲ پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔ میں نے یہ خبر سن کر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لےے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لےے پڑھ کر ذخیرہ¿ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے۔ جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا۔ ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعةً(بے ساختہ) اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی۔ قرطبیؒ کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے ایک نصاب سترہزار کا ان نصابوں میں سے جو اپنے لےے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا۔ میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اﷲ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فوراً کہنے لگا کہ چچا! میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹا دی گئی۔
قرطبیl کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا، دوسرے اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
(فضائل اعمال: حصہ فضائل ذکر: ص ۰۰۱ کتب خانہ فیضی)
اسی طرح حضرت مفتی عبدالستار صاحب رحمہ اﷲ ”خیرالفتاویٰ“ میں تحریر فرماتے ہیں:
”بعض روایات میں وارد ہے کہ جس نے کلمہ طیبہ ستر ہزار (70000) دفعہ پڑھا یہ اس کے لےے جہنم سے فدیہ ہوجائے گا۔ نقلہ الشامی فی رسالة منة الجلیل
اور امام قرطبیk سے ایسے بھی نقل کیا گیا ہے کہ دوسرے کے لےے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
عن الشیخ القرطبی انہ قال سمعت فی بعض الاخبار انہ من قال لا الہ الا اﷲ سبعین الف مرة کانت فداءہ من النار۔(منة الجلیل )
(خیرالفتاویٰ: ۱۹۳۳ طبع مکتبہ امدادیہ)
ان سب باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت مولانا رحمہ اﷲ کو ستر ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھ کر بخشنا چاہےے۔ ان کی وصیت کا ایک مصداق یہ بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے مدرسہ کے طلبہ و طالبات سے ستر ہزار بار کلمہ طیبہ کا ورد کروایا اور اس کا ایصال ثواب حضرت کی روح کو کردیا ۔ فللّٰہ الحمد

اپنا تبصرہ بھیجیں