بلیک فرائیڈے منانے کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:67

جانیے بلیک فرائیڈے کے بارے میں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج کل  بعض تہواروں  مثلا  بلیک فرائیڈے  ، ایسٹر، ہولی ،دیوالی ، کرسمس  ، ویلنٹائن ڈے  وغیرہ پر عوام الناس ( مسلم  وغیر مسلم  ) ان  تہواروں   میں شریک  ہوتے ہیں ۔ دکاندار   حضرات  مختلف  قسم کی سیل لگاتے ہیں  (مختلف  ڈسکاؤنٹ  آفر کرتے ہیں  ) اور ان خصوصی  مواقع  کے موافق  اشیاء  کو اپنی  دکانوں  پر فروخت  کرتے ہیں ۔

 ان خصوصی  مواقع  میں سے  بعض  خالصتاً مذہبی تہوار  ہوتے ہیں  ۔ ( مثلا ً کرسمس  ، ہولی  ، دیوالی  )  اور بعض  معاشرتی  ہیں ۔

 ( مثلا  Black Friday ,Mother Day, Father Day وغیرہ ) ، البتہ  ان میں بھی  بعض میں مذہبی  تعلق کسی نہ کسی   طرح بن جاتا ہے  اور بعض  مغربی اقوام  کی  طرف سےآتے ہیں اور اب  دنیا  کے مختلف  حصوں  میں اس کا رواج دن بدن  بڑھتا  جارہاہے  ۔

سوال:

اب سوال یہ ہے کہ

1۔ کیا ہر قسم  کے تہوار یا دن منانے  کو بالکل  منع کیاجائے گا  یا صرف  غیر  مسلم اقوام  کے مذہبی  تہواروں  کامنانا منع  ہوگا  ؟

اور کافر  اقوام  کے معاشرتی  دنوں   ( مثلا  Black Friday ,Mother Day, Father Day وغیرہ ) ،کامنانا کیسا ہے  ؟

2۔ کیا ان موقعوں  پر مسلمان  تاجروں  کا دکان  سجانا درست  ہے ؟

 3۔  ان تہواروں  کے موقع پر لوگوں  کی خریداری  کو دیکھتے ہوئے  دکاندار  مزید ترغیب  کے لیے  اپنی اشیاء  پرڈسکاؤنٹ  آفر کرتے ہیں ۔تاکہ  لوگ دکان سے  زیادہ سے زیادہ سامان خریدیں ۔ سوال   یہ ہے کہ کیا اپنے تجارتی فوائد کے پیش نظر  دکاندار  کے لیے ان مواقع پر سیل  لگانا جائز ہے ؟

بعض احباب  کا کہنا ہے کہ  یہ تہوار  اگر چہ   غیر مذہبی  ہوں لیکن   مغربی تہذیب  سے قربت  کا ذریعہ  بنتے ہیں  اورا ن کی وجہ سےان کے مذہبی  / غیر مذہبی  تہواروں  کی شناخت بھی لوگوں  کے دلوں سے ختم  ہوتی جارہی  ہے اس طرح  سیل لگانا  ان تہواروں  کی ترویج  کا سبب  بھی بنتا    ہے لہذا سداللذریعہ  یہ بالکل ممنوع ہونا  چاہیے ۔

4۔ان تہواروں   کے ساتھ مخصوص  یا منسوب  یا مروج  خاص تحائف/اشیاء  کوخریدنا  اور بیچنا کیساہے  ؟

 مثلا  کرسمس  Black Friday ,Mother Day, Father Day , Valentin day  وغیرہ کے  گفٹ رکھنا کیسا ہے  ؟

5۔ مذہبی  تہواروں  کا سامان ( مثلا کرسمس  کیک ،کرسمس ٹری  ، غبارے ، ٹوپیاں  ، لباس وغیرہ )  ایک مسلمان  تاجر  اس  نیت  سے خرید  کر رکھے  تاکہ غیر مسلم  کسٹمر  ز کی ضرورت  پوری کرسکے  تو کیا  ا س  نیت سے دکان   پر کرسمس  / ہولی /  دیوالی  کا سامان   رکھنے کی  گنجائش ہوگی ۔ نیز یہ واضح  رہے کہ ایک دکاندار  اس بات کی تحقیق  یا پابندی نہیں کرسکتا کہ خریدار  کس مذہب سے تعلق  رکھتا ہے  ۔  

براہ کرم جواب دے کر ممنون  فرمائیں

الجواب بعون ملہم الصواب  

  • غیر مسلموں (  مثلا ہندوں اورعیسائیوں وغیرہ)  کے مذہبی تہوار یا ان کے  مذہبی شعار  کی تقریبات  میں  شرکت  تشبہ بالکفار  کی وجہ سے  سراسر ناجائز  ہے۔ا حادیث صحیحہ میں کفار  ومشرکین  اور یہود  ونصاریٰ  سے تشبہ   اور ان کے  شعائر کو  اپنانے  سے سختی   کے ساتھ منع  کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ  نے ایک حدیث میں فرمایا   کہ : من تشبہ بقوم  فھو منہ ” ( جس نے کسی  قوم کی مشابہت اختیار  کی وہ انہی  میں سے ہوگا ) نیز  جس طرح  شرکیہ  امور یاناجائز  امور کا ارتکاب  خود ناجائز ہے  اسی  طرح  اپنے کسی  عمل  سے ان  امور کی تائید وتقویت  اورا ن امور  کے مرتکبین کی رونق بڑھانا   بھی ناجائز  ہے۔لہذا ایسٹر  ، ہولی  دیوالی  اور کرسمس  وغیرہ مذہبی  تہواروں  میں  شرکت  سے ہر مسلمان  پر اجتناب  لازم ہے ۔ واضح رہے  کہ غیر مسلموں  کے مذہبی  تہوار  میں شرکت   اگر ان تہواروں  کی عظمت یا محبت   کی وجہ سے  ہوتو ا س کی  بعض صورتوں  کو  فقہائے کرام نے کفر لکھاہے  ۔

 فتاویٰ محمودیہ  جلد  29 صفحہ  353  میں  ہندوؤں کے مذہبی  تہوار میں شرکت سے متعلق ایک سوال  کے جواب میں  حضرت مفتی  صاحب  تحریر فرماتے  ہیں :

 ” یہ سب  باتیں ناجائز  اور گناہ ہیں  ، اگر ہندوؤں کے تہوار   کی تعظیم  کے لیے چند ہ دیتا ہے اور شرکت  کرتا ہے  تو یہ کفر  ہے ،مسلمان  کو ایسے امور  سے توبہ ضروری  ہے ۔”

صفحہ 355  پر لکھتے ہیں :

 ” یہ میلے  ہندوؤں کے  مخصوص قومی  اور مذہبی   میلے   ہیں  ،ا ن میں جاکر  ان کی رونق   بڑھانا ناجائز   ہے ، مسلمانوں کو ان سے اجتناب  ضروری ہے  ۔”

 اور جہاں  تک غیر مسلموں  کے ان تہواروں  میں شرکت  کا  تعلق  ہے جو  مذہبی نہ ہو ں بلکہ  صرف  معاشرتی  ہوں  مگر   بنیادی طور پر غیر مسلموں کی تہذیب   ومعاشرت  سے لیے گئے ہوں  تو ان میں بھی   مسلمانو ں  کو شرکت  سے بچنا لازم  ہے  کیونکہ  جس چیز   کی  شریعت میں کوئی بنیاد  نہ ہو  بلکہ غیر مسلم   معاشرہ کا  طریقہ ہو  یا انہی  کا  چلایا ہوا  ان کی تہذیب  کا حصہ ہو تو مسلمانوں  کو ایسے تہوارمنانے  ، ان میں شرکت کرنے اور  اپنے قول  وعمل سے  ان کی رونق بڑھانے  سے اجتناب  کرنا  بھی غیرت ایمانی  کا تقاضا ہے  ۔ لہذا  غیر مسلموں  کی طرح محض  رسم پوری  کرنے کی غرض  سے مدر ڈے  ، فادرے ، یا بلیک  فرائی ڈے  وغیرہ منانے   سے بھی مسلمانوں کو حتیٰ  الامکان   اجتناب  کرنا چاہیے  ۔ نیز مدرڈے ، فادر  ڈے  منانے  میں ایک خرابی  یہ بھی ہے کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے  کہ ماں  باپ   ( والدین )  سے سال میں ایک  مرتبہ  اظہار محبت  یا ان کی عزت واحترام  کا سال میں ایک مرتبہ خیال کرلینا  کافی  ہے اور اس سے  ان کا حق ادا ہوجائے گا ۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ماں  باپ  کی عزت وادب  کو ملحوظ  رکھنا اولاد پر ہر وقت  اور ہر دن  لازم ہے  ۔

اس  کا سال کے کسی خاص دن یا کسی  خاص وقت سے تعلق نہیں  ۔

 فتاویٰ  محمودیہ  جلد 4 میں  ضلاف شرع میلوں  میں شرکت  کے متعلق  ایک سوال  کا جواب دیتے  ہوئے  حضرت مفتی صاحب  لکھتے ہیں  :

 ” جس طرح  خلاف شرع اور شرکیہ  امور کا ارتکاب  ممنوع  ہے  ایسی جگہ  جاکر ان کی رونق میں اضافہ  کرنا بھی ممنوع ہے  “

  • جہاں  غیر مسلموں   کے مذہبی تہوار  ہورہے ہوں  وہاں  مسلمان تاجر وں کو دکان  سجانے  کی غرض  سے جانے  میں بھی  اوپر مذکورہ بعض قباحتیں پائی جاتی ہیں  ۔ اس  لیے  اس سے بھی اجتناب  چاہیے ۔
  • کسی دکاندار یا تاجر کے لیے اس نیت سے چیزوں  میں ڈسکاؤنٹ  کرنا تو درست نہیں  کہ اس  ڈسکاؤنٹ  کو دیکھ کر  غیر مسلم   اپنے مذہبی  تہوار  میں ان کو خریدے  کیونکہ  یہ بھی  غیر مسلموں   کے مذہبی  تہوار  میں ایک طرح کی شرکت  اور تعاون ہے۔ البتہ  اگر کوئی  تاجر اپنے مفاد کو مد نظر  کر کسی  ناجائز  کام کا ارتکاب  کیے بغیر ایسے موقع پر جائز  چیزوں  کی خرید وفروخت  بڑھانے  کے لیے  چیزوں  پر  رعایت  کی پیشکش کرے تو اس کی گنجائش ہے ، کمائی حرام نہیں ۔
  •  جو چیزیں  صرف غیر مسلموں  کے تہوار ہی کے لیے خاص ہوں اور ان کا کوئی دوسرا  جائز مصروف  نہ ہوں ایسی چیز  وں کی خرید وفروخت ممنوع  ہوگی ۔
  • جو چیزوں صرف غیر مسلموں کے تہوار  کے لیے مختص نہ ہوں  ، بلکہ ان کا کوئی  دوسرا جائز استعمال  بھی ہو تو  ایسی چیزوں  کی خرید  وفروخت  جائز ہے  ، تاہم  اگر کسی   کے بارے میں پہلے  سے علم ہو کہ وہ ان  چیزوں  کی خریداری  ان تہواروں  میں استعمال  کرنے کی  غرض  سے کررہا ہے اس کے  ہاتھ یہ چیزیں  فروخت کرنا  کراہت  خالی نہیں ۔ اس سے  بچنا چاہیے ۔

نوٹ  : غیرا سلامی  تہذیب  سے متاثر   ہو کر دن منانے  اور اس میں چیزوں  کی فروخت  کا حکم  اوپر تحریر  کردیاگیاہے ، مسلمان تاجروں  کوایسے  دن منانے  کے بجائے  امانت  ، دیانت  اور صداقت  کا طریقہ  اختیار  کرکے مثالی  مسلمان  تاجر  بننا چاہیے  اور رمضان  المبارک  میں جسے  شہر المواساۃ یعنی  غمخواری کا مہینہ قرار  دیاگیا ہے اپنی چیزوں کو سستے  داموں  بیچ  کر مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے  رمضان المبارک  ، عید الفطر  ، عید الاضحیٰ  وغیرہ  کے دنوں میں  اگر رعایتی  سیل لگائی  جائے  تو اچھی  نیت  سے ثواب  بھی ملے گا  اور وہ  کاروبارہ فوائد  بھی حاصل  ہوں گے  جو تاجروں  کی کاروباری ضرورت  ہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب  

دارالافتاء دارالعلوم کراچی  

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/502503236785593/

اپنا تبصرہ بھیجیں