کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ پر ڈسکاؤنٹ کی تفصیل

فتویٰ نمبر:478 

بذریعہ کریڈٹ ڈیبٹ  کارڈ  پیمنٹ کرنے پر  بعض  ریسٹورنٹ  یا بینک  والے 10 فیصد  ڈسکاؤنٹ  دیتے ہیں، جو آج کل  نارکیٹ میں بہت رائج ہے  اس میں کارڈ ہولڈر  کبھی سودی بینک کا ہوتا ہے  اور کبھی غیر سودی بینک کا  نیز کارڈ ہولڈر کا  اکاؤنٹ  کبھی کرنٹ  اور کبھی سیونگ ہوتا ہے ۔ ڈسکاؤنٹ دینےوالا ادارہ کبھی بینک اور کبھی ریسٹورنٹ ہوتا ہے ۔ یہاں ہر ایک  کا الگ الگ  حکم بیان کیاجاتا ہے  ۔

کریڈٹ   کارڈ پر ڈسکاؤنٹ کا حکم

 کریڈٹ کارڈ کا استعمال چونکہ عام حالات میں جائز نہیں  ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ پر ڈسکاؤنٹ  نہ دیاجائے  تاہم اگر کوئی ریسٹورنٹ یا بینک  کریڈٹ کارڈ  پر ڈسکاؤنٹ  دے دے تو وہ سود نہیں کہلائے گا کیونکہ سود وہ مشروط نفع ہے  جو مستقرض  ( قرض دینے والے کو قرض لینے والا)  دے۔ کوئی تیسرا شخص یا ادارہ  اگر کوئی سہولت  اپنی  طرف سے دیتا ہے  تو اس پر  سود کی تعریف صادق  نہیں آتی  بلکہ یہ ادارے کی طرف سے  اس کے لیے بطور  تحفہ یا قیمت  میں کمی کرنا  ہے جو جائز ہے  بشرطیکہ  کریڈٹ کارڈ کی ترویج مقصود نہ ہو بلکہ اپنے  پروڈکٹ کی ترویج مقصود ہو۔ ( بحوث فی قضایا فقھیہ  معاصرۃ :2/164)  

 ڈیبٹ کارڈ پر ڈسکاؤنٹ کا حکم

 ریسٹورنٹ  والے  سودی بینک کے اکاؤنٹ  ہولڈرز کو ڈیبٹ کارڈ  کے ذریعے  پیمنٹ کرنے پر جو ڈصکاؤنٹ دیتے ہیں  اگر یہ ڈسکاؤنٹ ریسٹورنٹ والے محض اپنی طرف سے مارکیٹنگ کے لیے کارڈ ہولڈر کو دیتے ہیں  اور اس میں سودی بینک کی ترویج  مقصود  نہیں  ہے تو ان سہولیات  سے فائدہ اٹھانا ( کرنٹ اکاؤنٹ  ہولڈڑ  اور فکسڈ ڈپازٹ  اکاؤنٹ ہولڈر  دونوں کے لیے )  جائز ہے  کیونکہ یہ  ریسٹورنٹ والے کی طرف سے  گفٹ  یا قیمت  میں کمی کرنا ہے اور یہ قرض  پر مشروط  نفع نہیں ہے۔ ( بحوث فی قضایا فقھیہ  معاصرۃ2/240)

غیر سودی  بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کے  لیے ڈسکاؤنٹ کا حکم

  غیر سودی بینک یہ ڈسکاؤنٹ  اگر تمام  کارڈ ہولڈر  کے لیے  ڈسکاؤنٹ کا حکم  

غیر سودی بینک یہ ڈسکاؤنٹ  اگر تمام  کارڈ ہولڈر  کو دے رہا ہو تو اس صورت میں  غیر سودی بینک  کے کرنٹ  اکاؤنٹ  ہولڈر  کے لیے یہ ڈسکاؤنٹ  لینا جائز ہوگا کیونکہ یہ ڈسکاؤنٹ بینک کی طرف سے  کاروباری تعلق کی بنیاد  پر دیاجارہا ہے  لہذا یہ ڈسکاؤنٹ  کل قرض حر نفعا ( قرض کے ذریعے منفعت کا حصول)   میں داخل نہیں  ہے ۔

غیر سودی بینک کے بچت اکاؤنٹ  ہولڈر کے لیے  ڈسکاؤنٹ کا حکم  

 غیر سودی  بینک  کے بچت اکاؤنٹ  میں رقم  چونکہ شریعت  یا مضاربت  کے چور پر دی جاتی ہے ۔ اس لیے غیر سودی بینک  کے بچت اکاؤنٹ   ہولڈر  کے لیے یہ ڈسکاؤنٹ  دینا  اور  لینا جائز ہے  بینک کی جانب سے ہو یا ریسٹورنٹ  کی جانب سے (  البتہ بینک کی جانب سے ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے لیے یہ ضروری ہے کہ  وہ معمولی مقدار میں ہو  مکمل سرمایہ  اصلی یا اس  کے خاطر خواہ  حصے  کے بقدر نہ ہو ( جس سے   راس المال  مضمون ہوجائے)  بلکہ اس سے کم کم ہو ۔

 سودی بینک کے اکاؤنٹ  ہولڈر کے لیے  ڈسکاؤنٹ کا حکم  

 سودی بینک  کے اکاؤنٹ  ہولڈر ز ( کرنٹ فکسڈ ڈٖپازٹ  اکاؤنٹ  وغیرہ )  کو ریسٹورنٹ کی جانب سے  ملنے والا ڈسکاؤنٹ لینا درست  ہے کیونکہ  یہ ریسٹورنٹ والے کی طرف سے بطور گفٹ یا قیمت میں کمی کردینا ہے  البتہ سودی بینک کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو سودی بینک  کی جانب سے ملنے والے اکاؤنٹ کی تفصیل یہ ہے کہ  سودی بینک اگر تمام اکاؤنٹ  ہولڈرز ( کرنٹ ، فکسڈ ، ڈیپازٹ  اکاؤنٹ  وغیرہ)  کو یہ ڈسکاؤنٹ  دے رہا ہے تو اس کا لینا  اور دیناجائز ہے  اور یہ کل  قرض  جر نفعا  ( قرض دے کر اس کے ذریعے  منفعت کا حصول  ، جو کہ حرام ہے)  میں داخل نہیں  ہے بشرطیکہ  یہ ڈسکاؤنٹ  بینک اپنی طرف  سے  دے، دیگر  اکاؤنٹ ہولڈروں  کے اموال  سے نہ دے  اور مرکزی مخلوط رقم میں  سے دے ۔ خالص سودی  آمدنی  سے نہ دے  اگر سودی بینک صرف اکاؤنٹ ہولڈرز کو یہ  ڈصکاؤنٹ دیتا ہے تو کا دینا اور  لینا شرعاً جائز نہیں  کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ  کی حیثیت  شرعاً قرض کی ہے  گویا کارڈ ہولڈڑ نے  بینک کو قرض دیا  ہوا ہے اور بینک اس کا مقروض ہے اور اسے کارڈ کی شکل میں  قرض پر نفع  حاصل ہورہا  ہے اور  یہ بات ظاہر  ہے کہ قرض  دے کر  اس پر طے شدہ  نفع حاصل کرنا  شرعاً حرام ہے  (( بحوث فی قضایا فقھیہ  معاصرۃ :2/240)

اپنا تبصرہ بھیجیں