کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے پیسے جمع کرنا

ہمارے نوجوان کرکٹ سیریز کا انعقاد کرتے ہیں جس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہر ٹیم کمیٹی والوں کے پاس مثلا تین سو روپے جمع کرتا ہے اس طرح جو چھ سات ٹیموں کی کل جمع شدہ رقم میں سے 80 % فائنل جیتنے والے کو دے دیا جاتا ہے اور باقی فائنل ہارنے والی ٹیم کو مل جاتا ہے ,

حلِ طلب امر یہ کہ کیا یہ طریقہ جائز ھے ؟

کیا یہ قمار ( جوا) میں شمار تو نہیں ہوتا ؟؟

الجواب حامداً ومصلیاً

واضح رہے کہ کرکٹ ٹورنامنٹ کی مروجہ صورت جس میں ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی مشترک طور پر جمع کردہ تمام رقم، یا اخراجات منہا کر کے جو رقم باقی بچتی ہے وہ رقم جیتنے والی ٹیم کو دیا جانا طے ہوتا ہے، ناجائز ہے اور یہ صورت شرعاً قمار یعنی جوے میں داخل ہے جو حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور اس سے بچنا لازم ہے۔

تاہم صورتِ مسئولہ میں کرکٹ ٹارنامنٹ کی ایک جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر مقابلہ کی کوئی انتظامیہ ہو علیحدہ ہو جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو اور وہ انتظامیہ ہر ٹیم سے متعین رقم مقابلہ میں داخلہ کی فیس کے طور پر وصول کرے اور یہ رقم (فیس)انتظامیہ کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر انتظامیہ اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اورجیتنے والوں کو یا اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسب صوابدید انعام دے اور اس بارے میں مکمل با ختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہے انعام دے یا نہ دے ،نقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔(مستفاد من التبویب: 1603/89)

[المائدة : 90]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

سنن أبى داود – (باب النهى عن المسكر)

عن عبد الله بن عمرو أن نبى الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخمر والميسر والكوبة والغبيراء.

عون المعبود – (باب ما جاء في السكر)

( نهى عن الخمر والميسر ) أي القمار.

رد المحتار – (5 / 257)

هو المراهنة كما في القاموس، وفيه المراهنة، والرهان المخاطرة. وحاصله أنه تمليك على سبيل المخاطرة.

رد المحتار – (6 / 403)

لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.

الفتاوى الهندية – (6 / 445)

وحرم شرط الجعل من الجانبين.

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة – (5 / 157)

اپنا تبصرہ بھیجیں