داڑھی کی شرعی مقدار

 مقدار قبضہ سے زائد کاٹنے کا حکم  حدیث کی روشنی میں 

 سوال: ایک کتابچہ داڑھی کے سلسلہ میں لکھا ہے لیکن اس میں کئی باتیں قابل توجہ ہیں ۔

ہمارے اکابرین  داڑھی کی مقدار  شرعی ایک مشت قرار  دیتے ہیں لیکن دلیل میں کوئی روایت قولی ایسی نہیں ہے جو مقدار قبضہ پر دلالت  کرے امام  ترمذی  ؒنے جامع ترمذی  ( 2/100) ” ان النبی ﷺ کان یاخذ من لحیتہ  من عرضھا  وطولھا ” اس میں اولاً قبضہ کی  صراحت  نہیں ہے ۔ ثانیاً یہ روایت غریب  ہے اور  بخاری شریف   ( 2/875 )  پر ابن عمر رضی اللہ عنہ کا  عمل ذکر ہے ، ایک روایت  حضرت تھانوی قدس سرہ  نے الطرائف  والظرائف ( ص 10)  پر لکھی ہے عن عمر وبن شعیب  انہ  کان یاخذ  من لحیتہ  طولاً وعرضاً ، صاحب  مفاتیح  وغرائب  لفظ  ” اذا زاد علی القبضۃ ” نقل کردہ اند ۔ اس میں بھی  اولاًصاحب مفاتیح  وغرائب کون ہیں ؟ یعنی ان کے  مؤلف  کون ہیں ؟ اور انہوں نے حدیث  کی کونسی کتاب سے نقل کیا ہے، نیز یہ بھی عمل رسول ہے قول  رسول نہیں ، اصل میں جماعت  اسلامی سے برابر اس سلسلے میں بات ہوتی ہے  عمل صحابہ  فعل نبوی یا مطلق اعفاء لحیۃ تو عام کتب  میں موجود ہے اور اس کو یہ لوگ  بھی تسلیم کرتے ہیں  لیکن قول رسول ، وامر رسول اللہ علی قدر القبضہ  کے منکر  ہیں ، امید ہے کہ اس  اشکال  کو رفع  فرماکر عنداللہ ماجور ہوں گے ۔ فقط والسلام

دعاگو : محمد  داؤد مظاہری  امام مسجد  محلہ گنج  فیروز آباد  آگرہ یوپی

 جواب : عزیزم سلمہ

داڑھی کے متعلق اعفاء لحیۃ کی روایات   مطلقہ کی بناء پر ایک جماعت کاخیال ہے کہ داڑھی  سے کوئی تعرض نہ کرنا چاہیے  لیکن حضرات احناف نے مقدار  قبضہ  سے زائد کے  اخذ کو جائز قراردیاہے  اورا بن عمر  کا فعل  اس کی دلیل ہے اور حدیث موقوف کے حجت  ہونے میں اختلاف ہے جو آپ پر مخفی  نہیں ہے موقوف کے حجت  مان لینے  کے بعد مسئلہ آسان ہوجاتاہے  ہاں اخذ مازاد  علی القبضۃ کے بارے میں  حدیث  مرفوع فعلی منقول ہے مگر وہ  قابل استدلال نہیں اور حدیث قولی منقول نہیں ہے لیکن ہر چیز کے اثبات  کے لیے حدیث قولی  ضروری نہیں ہے ۔

2۔ صاحب مفاتیح  وغرائب کا حال سردست  نہیں ملا، والسلام مع الاکرام  

محمد یونس عفی عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں