دینی مدارس ، اعتراضات کا جائزہ

2

دینی مدارس ، اعتراضات کا جائزہ
محمد انس عبدالرحیم
لوجی! مدارس ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہیں۔ حملہ کیا غیر ملکی دہشت گردوں نے اور موردالزام ٹھہرے ملکی دینی مدارس۔ زمینوں پر قبضہ، فرقہ واریت کے فروغ اور شدت پسندی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ لیکن ثبوت ندارد! وہی رٹی رٹائی پرانی باتیں۔ تحقیقات کرنے کی بجائے محض شکوک و شبہات کا طومار!
سرکاری اراضی پر کیا صرف مدارس ہی تعمیر ہیںجو شخصی ملکیت کی بجائے خود قومی اداروں کا روپ ہیں!کچی آبادیاں، ہزاروں گوٹھ اور لینڈ مافیا کے زیر اثر اراضی کیا یہ سب قانونی ہیں؟ اسے آپ قبضہ نہ کہیں۔ سرکاری اجازت و حمایت سے آبادکاری اور احیائے موات کہیں! بلاشبہ شخصی ملکیت پر قبضہ ظلم اور غصب ہے۔ گورنمنٹ کے فیوچر پلان میں شامل اراضی پر خیمہ زنی کو آپ غلط کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ایک بے کار پڑی سرکاری اراضی پر عوام کی آبادکاری ہوئی۔ سرکار روکے نہیں۔ بلکہ عملاً وہاں رہائش کی اجازت دے دے اور قانون کہتا ہے کہ جب ایسی جگہوں پر معتدبہ آبادی ہوجائے گی تو اسے قانونی حیثیت دے دی جائے گی۔ ایسے میں سرکار کی طرف سے عاریت پر دی گئی ان زمینوں پر قومی فلاح و بہبود کے تابع ادارے کہیں کہیں قائم کر لےے گئے۔ اور اس طرح مفاد عامہ کے یہ قومی ادارے وجود میں آگئے تو بتائیے یہ کون سی بے اعتدالی اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی؟
مدارس پر فرقہ واریت اور شدت پسندی کو فروغ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیکولر قوتوں اور بیرونی عناصر کے واویلے سے متاثر ہوکر یہ سب الزامات لگائے جاتے ہیں، تحقیق احوال کی نوبت نہیں آتی۔ کاش! ذرا تحقیق پسندی سے کام لیا جاتا تو معلوم ہوتاکہ دینی مدارس کے نصاب تعلیم سے فرقہ واریت پیدا نہیں ہوسکتی! کیونکہ ان کے نصاب پر کسی ایک فرقہ کی چھاپ نہیں ہے۔ صحاح ستہ کے مصنفین میں سے کوئی بھی حنفی المسلک نہیں۔ صرف طحاوی حنفی المسلک ہیں جن کی طحاوی شریف کا شمار صحاح ستہ میں تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔ تفسیر بیضاوی، تفسیر جلالین کے مصنفین شافعی المسلک ہیں
تفسیر زمخشری کے مصنف معتزلی عقیدے کے ہیں۔ شرح تہذیب کے مصنف ایران کے عبداﷲ بن حسن اصفہانی، شیعہ مکتب فکر کے ہیں۔ المنجد عربی کے مصنف لوئس عیسائی ہیں۔ العجم المفہرس کے مولف مستشرقین ہیں۔ فقہ کی سب سے بڑی زیر درس کتاب ہدایہ شریف کے حاشیہ پر ’’الدرایہ‘‘ لگی ہوئی ہے جو شافعی المسلک محدث ، حافظ ابن حجر عسقلانی کی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب نصاب تعلیم ہی مختلف مکاتب فکر کے علمائ کی تصنیفات پر مشتمل ہے تو اس سے فرقہ واریت اور تنگ نظری کیسے پیدا ہوگی؟
در حقیقت فرقہ واریت اور شدت پسندی کی باگ دوڑ فرقہ پرست اور لسانی تنظیموں اور غیر ملکی این جی اوز کے ہاتھ میں ہے۔ مدارس کے ہاتھ میں نہیں۔ جب سے یہ تنظیمیں بنیں اس وقت سے فرقہ واریت اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا، ورنہ دینی مدارس تو قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان میں موجود ہیں۔ اگر مسائل کی جڑ مدارس ہیں تو اُس دور میں فسادات کیوں نہ ہوئے؟ اور یہ بات نوٹس میں لانے کے قابل ہے کہ مدارس کے اندر عمومی فضا فرقہ پرست تنظیموں کے حق میں نہیں
دینی مدارس کے طلبہ، فضلا بشمول اساتذہ و انتظامیہ سبھی تنظیموں سے نالاں اور خائف ہیں۔ اساتذہ کے تقرر اور طلبہ کے داخلوں کے وقت خصوصی نظر رکھی جارہی ہے کہ فرقہ پرست تنظیم سے وابستہ کوئی فرد اداروں میں داخل نہ ہونے پائے۔
حکومت اور صحافی برادری کو چاہےے کہ وہ دینی مدارس اور فرقہ پرست تنظیموں میں فرق مدنظر رکھیں۔ دونوں کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں اور ان احسانات کو نہ بھولیں جو دینی مدارس اور ان سے وابستہ علمائ و مشائخ نے ہر دور میں پاکستان کے ساتھ کےے۔ قائداعظم اور پاکستان کی حمایت کی۔ قیام پاکستان کے لےے رائے عامہ ہموار کی۔ ارباب مدارس اور علمائ اور مشائخ کی پاکستان کے لےے یہ وہ گران قدر خدمات ہیںجنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آج بھی دینی مدارس اور علمائ و مشائخ ہر طریقے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست کے ساتھ تعاون کے لےے تیار ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کو موجودہ عالمی حالات میں سب سے زیادہ خطرات ایسے ہی انتہا پسندانہ اقدامات سے ہیں۔ مذہب اور اسلام کی آڑ میں جو عناصر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیںاسلام اور مسلمان بالخصوص بے گناہ شہداانہیں کبھی معاف نہیں کر سکتے۔ انہیں کون یہ احساس دلائے کہ ان کا کیا جانے والا ہر حملہ اہل ایمان اور نظریہ پاکستان کے حامی عوام کو کس طرح دیوار سے لگارہا ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے امیج کو کس قدر خراب کر رہا ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو علمائ و مشائخ کے حلقۂ اثر سے کافی عرصے پہلے نکل چکے ہیں۔ اکابر انہیں سمجھاتے رہے۔ تکفیر اور قتل و ارتداد کے فتووں سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن انہوں نے بات نہ مانی۔ اپنے مرکز سے جو الگ ہوئے خود ساٹھ ستر گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔
حالانکہ ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ مزاحمت کاروں کو ہمارا خیرخواہانہ مشورہ ہے کہ بندگلی سے واپس پلٹ آئیں! قرآن و سنت کا نور اور شریعت کا جو فہم اکابر و مشایخ کو حاصل ہے وہ انہیں کا خاصہ ہے۔ انہیں کا دامن تھامنے میں عافیت ہے۔ اکابرین کی رائے موجودہ حالات میں یہی ہے کہ پرامن اور آئینی طریقے سے اپنے مطالبات منظور کروائے جائیں اور عام انتخابات میں حصہ لے کر حکومت قائم کی جائے! مزاحمت کاروں کو ’’البرکۃ مع اکابرکم‘‘ اور’’ یداﷲ علی الجماعۃ‘‘کی نصوص کو مدنظررکھتے ہوئے سواداعظم اور اکابر ملت پر بھروسہ رکھنا چاہےے اور ملک و منصب کی تعمیر نو میں حصہ لے کر تمام سازشوں کو ناکام بنا دینا چاہےے ان شائ اﷲ!اسی میں خیر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں