دینی مدارس کا معاشرے میں کردار

اے کاش کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات!

آج کل نہایت زور و شور سے علما اور دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ” یہ قومی تنزل کا سبب ہیں، ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور قوم کو گمراہ کر رہے ہیں”وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ علما اور دینی مدارس پر کیے  جانے والے یہ اعتراضات دراصل ”جہل مرکب” اور ”تاریخ سے ناواقفیت” کا شاخسانہ ہیں۔

برصغیر پر انگریز کے تسلط کے بعد ہندوستانیوں نے انگریزوں کی تہذیب اور ان کی وضع قطع اپنانا شروع کی۔ علمانے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی کہ قابض قوم کی طرز زندگی اور ان کی بودوباش اختیار کرنے سے قوم کا نقصان ہوگا۔ مسلمانوں کا دینی تشخص اور امتیاز ختم ہوجائے گا۔ مسلمانوں کے اندر مغربی تہذیب کے جراثیم اس طرح سرایت کر جائیں گے کہ ان کو قابض اور غاصب سمجھنے کی بجائے وہ ان کو اپنا محسن سمجھنے لگیں گے۔ مغربی تعلیم اس وقت مغربی تہذیب کی تبلیغ پر مشتمل تھی اس سے علما ء نے منع کیا تاکہ مسلمانوں کو عیسائی اور لامذہب بنانے کی سازش سے دور رکھا جا سکے۔ ہندوؤں نے مغربی تعلیم کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کی تھی جس کا نتیجہ ان کو یہ بھگتنا پڑا تھا کہ آخری تین چوتھائی صدی میں تقریباً ایک کروڑ ہندو، عیسائیت میں داخل ہوگئے۔ جبکہ علما نے مسلمانوں کو ایسے کسی بڑے ”سانحے” سے بچا لیا۔

علما کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ غیرقوم کی تہذیب اور وضع قطع اختیار کرنا ترقی نہیں ہے۔ بلکہ ترقی ”عناصر قوت” کے حصول میں ہے۔ مسلمان، عناصر قوت حاصل کریں۔ قابض قوتوں کی وضع قطع اور ان کی اندھی تقلید نہ کریں! آج اس کی مثال ”چین” ہے۔ چین نے سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول اور جہد مسلسل کے ذریعے ترقی کی انتہائی حدوں کو چھو لیا ہے۔ اس نے عناصر قوت حاصل کیے  ہیں۔ مغرب کی کوری نقالی نہیں کی۔ دنیا کے درجن بھر ممالک ایسے ہیں جو انگریزی سے سخت نفرت کرتے ہیں اور امریکہ و یورپ کے اندھے مقلد نہیں، لیکن ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ اس لےے کہ انہوں نے ”عناصر قوت” حاصل کےے۔ کسی تہذیب کی نقالی نہیں۔ 

علما اور دینی مدارس پر یہ اعتراض کہ ”یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں” یا ”قومی تنزل کا سبب ہیں” وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے انگریز اور غیر قوموں کی وضع قطع اختیار کرنے اور ان کے رنگ میں رنگ جانے کو ترقی کا معیار سمجھ رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ علماء ”گنبد نما پگھڑ” اتار دیں۔ ”پردہ” اور ”داڑھی”کا درس دینا چھوڑ دیں اور کوٹ پینٹ اور ٹائی لگا کر دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ، قدم سے قدم ملا کر چلیں۔یعنی:

ہم توڈوبے ہیں صنم         تم کوبھی لے ڈوبیں گے

اب فیصلہ عوام خود کر لیں کہ ترقی دشمن کون ہیں؟ اور ترقی دوست کون؟

علما اور مدارس کا وجود معاشرے میں کئی وجوہ سے انتہائی ضروری ہے:

٭     اسلام دشمن عناصر اس وقت مسلمانوں پر دوسمتوں سے یلغار کر رہے ہیں۔ ایک طرف اعتقادی اور فکری سمت سے وہ مسلمانوںمیں اباحت پسندی اور مادیت کی تحریکیں چلا رہے ہیں اور دوسری جانب عملی سمت سے وہ مسلمانوں کو جنسی بے راہ روی اور فحاشی کے سیلاب میں بہا لے جانا چاہتے ہیں۔ علما اور مدارس کا وجود ، ان دونوں یلغاروں کے مقابلے کے لیے  سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہورہے ہیں۔ 

٭     پاکستان میں شرح خواندگی صرف سولہ فیصد ہے جس کی وجہ غربت اور جہالت ہے۔ دینی مدارس اور علما،عوام کو مفت تعلیم دے کر شرح خواندگی کے اس افسوسناک گراف کو بلند کرنے اور جہالت کے خاتمے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ 

٭     مدرسوں کا نظام ایک ایسا نظام ہے جو روزانہ دس لاکھ لوگوں کو روٹی ، کپڑا اور رہائش فراہم کرتا ہے۔ کوئی ایسی این جی او جو پاکستان میں دس لاکھ لوگوں کی پرورش کر رہا ہو؟

٭     اصلاح معاشرہ کے لیے ہونے والی مختلف کوششوں کامنبع بھی علما اور دینی مدارس ہیں۔ دعوت و تبلیغ، وعظ و خطابت، دینی اخبارات و جرائد اور خانقاہوں کا صوفیانہ نظام یہ سب لوگوں کے اصلاحِ احوال میں مصروف عمل ہیں۔ 

٭     ان کا سب سے بڑا فائدہ ہے کہ یہ اسلام کے تشخص کو ہر زمانے میں قائم رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ تمام نظریاتی اور دینی تحریکوں کے لیے  یہی مدارس اور علماء کھیپ فراہم کرتے ہیں اور قرآن و حدیث اور اسلامی علوم و فنون سے مسلم معاشرے کے ربط و تعلق کو قائم رکھنے کا واحد سہارا ہیں۔

شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم علما اور دینی مدارس کی اہمیت سے متعلق کتنی اچھی بات کہہ گئے ہیں: 

‘ ‘ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں’ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں ہوا ۔مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔”

                    

اپنا تبصرہ بھیجیں