دینی مدارس کا نظام تعلیم

دینی مدارس سے پڑھ کر جو لوگ جدید اداروں میں کام کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ مدارس ہی کو جاتا ہے. مدارس کا نظام تعلیم اپنے اندر لاکھ اصلاح کی گنجائش کے باوجود ابھی بھی علوم اسلامیہ کے ٹھوس استعداد کے حامل اہل علم پیدا کر رہا ہے جن کے مقابلے میں ایک عام ایم اے اسلامیات وغیرہ کی علوم عربیہ میں علمی، تدریسی اور تحقیقی استعداد کا یقینا کوئی تقابل نہیں ہوتا الا ما شاء اللہ۔

تاہم ان جدید اداروں میں آنے والوں کو مدرسے جیسے محسن کی کبھی نا قدری نہیں کرنی چاہیے جو ایک دہائی کا پورا عرصہ ان کی تمام ضروریات کا بار اٹھاتا ہے. ان اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کا دل سے احترام کرنا چاہیے. بندوں کی شکر گزاری اللہ کے شکر کی بنیاد ہے. اگرچہ نئے ماحول میں پوری کوشش رہنی چاہیے کہ اپنی ماضی کی روایت سے علمی یا عملی انقطاع نہ ہو لیکن ہر ماحول میں بسا اوقات انسان سے وہ احتیاطیں ممکن نہیں رہتی ہیں جو خالص مدرسے کے ماحول میں ممکن ہوتی ہیں اس لیے کسی فاضل کی عملی زندگی میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو اس پر اہل مدرسہ کو اس پر گمراہی کا طنز کرنے کے بجائے ایسا سلوک روا رکھنا چاہیے کہ وہ ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو مجرم محسوس نہ کرے. دنوں جانب بہت سے افراد کا مسئلہ یہ ہوتا ہے جدید اداروں میں آ کر کہنے لگتے ہیں کہ مدرسے نے ہمیں دیا ہی کیا! اسے اپنی زندگی پر ملامت کا احساس پیدا ہوتا ہے. کس قدر نا شکری کا طرز ہے یہ. دینی مدارس میں پڑھتے ہوئے انسان میں وقت ضائع کیے بغیر اپنے علم و عمل پر اپنی بساط کی حد تک محنت کی ہو تو ان اداروں کے سادگی اور نیکی کے ماحول کا حسین اور شیریں احساس تمام عمر ساتھ رہتا ہے جس کی بدولت مطالعے کی یکسوئی، ذکر و عبادت کی توفیق اور مناجات کا لطف ملتا ہے. جدید اداروں میں اس بادۂ شبانہ کی سرمستی کا احساس ایک خواب ہے. دوسری طرف بہت سے اہل مدرسہ کے مزاج میں یہ بے قاعدگی ہے کہ وہ ان اداروں میں آنے والوں کے اقدام کو ہی غلط سمجھنے لگتے ہیں معمولی معمولی کمزوریوں پر نہایت سخت دار و گیر کا معاملہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں افراد کی نا قدری کا ایک عجیب احساس دیکھنے میں آتا ہے. ایک با صلاحیت اور سنجیدہ آدمی غیرت مند بھی ہوتا ہے اور کسی کی بے جا خوشامد یا دم ہلائی کے مزاج سے دور رہتا ہے اس وجہ سے بعض اوقات اسے باغی سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر انسان اپنے اندر انا کی طاقت کے ساتھ ضمیر کی قوت بھی رکھتا ہے جس کو ساتھ لے کر چلنے سے بچھڑے ہوئے بھی جڑ جاتے ہیں لیکن اب ہمارے سماج میں اس دوسرے جذبے کو چھیڑنے کا کام شاذ ہی کہیں رونے دھونے والے داعیوں میں ملتا ہے جب کہ پہلے جذبے کو چھیڑنے والوں کا ہجوم لگا ہوا ہے۔

تحریر :سید متین احمد

اپنا تبصرہ بھیجیں