دینی مدارس رحمت ہیں

    گردش ایام نے بھی انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، انسان مادیت میں جتنا آگے بڑھ رہا ہے روحانیت اور اخلاق کی اتنی ہی پستی میں گر رہا ہے۔ زمانے کی چال الٹ گئی ہے۔ بجائے والدین کے اولاد والدین کو کوستی ڈراتی دھمکاتی اور زندگی گزارنے کے سلیقے سکھاتی ہے۔ بجائے استاذ کے شاگرد استاذ کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ بیٹا ماں کے بجائے بیوی کا تابعدار ہے۔ خائن کو امین اور رہزن کو راہ روکہا جارہا ہے۔ محسن کو مجرم جبکہ مجرم کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل بنایا جارہا ہے جہاد کو دہشت گردی اور زحمت جبکہ دہشت گردی اور ظلم و غصب کو رحمت آپریشن اور قیام امن کے مساعی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ ہم دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست سمجھتے ہیں۔ 

یہ علمائے کرام اور دینی مدارس ہمارے اور وطن عزیز کے حق میں سراسر باعث رحمت اور اسلامی دنیا میں ہماری نیک نامی کا ذریعہ ہیں۔ شہرت و ناموری سے دور اپنوں اور غیروں کے طعنوں اور فقروں کی بوچھاڑ میں یہ درسگاہیں جس اخلاص، محنت و لگن اور بے غرضی سے محوکار ہیں دنیا میں شاید اس کی مثال نہ ہو۔یہ مدارس مفلس و نادار بچوں کے معاشی کفیل بھی ہیں اور ناخواندگی کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا ذریعہ بھی۔ ملک کی لاکھوں مساجد اگر آباد ہیں تو انہیں کے دم سے ہیں۔ پانچوں وقت ملک کی فضاؤں کو معطر کرنے والی اذانوں کی مشک بو گونج انہیں کی عطاء سے ہے۔ دلوں کو راحت بخشنے اور ایمان کی بہاریں بکھیرنے والی پرسوز قرات انہیں کا فیضان ہے۔ فحاشی و عریانی، بے حیائی اور اخلاقی بے راہ روی کی تند و تیز موجوں کی راہ میں رکاوٹ انہیں کی ہمت سے ہے، تاریخ عالم کی بعض عہد ساز اور عبقری شخصیات انہیں کی عنایت سے ہیں۔ 

    یہ مدارس نہ ہوں تو ہمارے دلوں میں موجزن اسلامی اقدار کا تقدس تہہ و بالا ہوجائے اگر یہ مدارس مقفل کر دیے جائیں تو مسلمان نو مولود بچے کے کانوں میں اذان دینے والا نہ رہے۔ مساجد بے رونق ہوجائیں۔ ناخواندگی و بے روزگاری کی شرح بڑھ جائے۔ بے حیائی اور عریانیت کے سامنے بندھا بند ٹوٹ جائے۔ اس وقت ہمارا اسلامی تشخص اور وقار ختم ہوجائے گا۔ ہم کچھ رہیں نہ رہیں مسلمان نہ رہیں گے۔

علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا:

    ”ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمان کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔” 

    یہ پاکستان بنایا کس نے؟ ان علماء نے جنہوں نے آزادی کے حصول کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ فرنگی سامراج کے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ شاہ عبدالعزیزؒ نے دیا۔ جہاد بالاکوٹ کے روح رواں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمعیل شہیدؒ تھے۔ 1857ء کے جہاد آزادی کے امیر حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی تھے۔ معرکہ شاملی میں انگریز کو شکست سے دو چار کرنے والے مولانا قاسم نانوتویؒ تھے۔ دیوبند تحریک آزادی کی عظیم چھاؤنی تھی۔ بیچارے ملا فضل حق خیرآبادیؒ کالے پانی کی سزا کاٹتے کاٹتے دنیا سے چل بسے۔ ملا احمد شاہ مدارسی کو سور کی کھال میں سی کر آگ کے حوالے کردیا گیا۔ ملا کفایت اﷲ کا بدن لوہے کی گرم استری سے جل بھن کر کباب بن گیا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ مالٹا کی جیل میں ۔۔۔۔۔۔ قید و شکم کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ عبیداﷲ سندھی دوسال تک ایک تاریک سرنگ میں قید رہے۔ مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی آزادی یا پھر مدفن مانگتے رہے اور مولانا حسرت موہانی چکی پیس پیس کر زندگی کا دورانیہ پورا کرتے رہے۔ یہ سب لوگ کون تھے؟ مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد تھانویؒ اور مفتی شفیعؒ صاحب کون تھے؟ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی پہلی بار پرچم کشائی کس نے کی تھی؟ یہ سب علماء اور دینی مدارس کے فیضان اور ان کے مرہون منت تھے۔

    ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں اگر علماء کا کردار نہ ہوتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آیا ہوتا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی مذہب سے وابستگی ایک تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ وہ مذہب کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے ان گوشت پوست سے بنے جسموں پر اگرچہ فرنگی یا مثل فرنگی کی حکومت ہوسکتی ہے لیکن انگریز اور مغرب بھی جانتا ہے کہ ان کے دل مذہب اور مذہبی رہنماؤں کے قبضہ میں ہوتے ہیں اگر ان علمائے کرام نے تحریک پاکستان کی حمایت اور اس کے قیام کیلئے عوام میں اپنا اثر و رسوخ استعمال نہ کیا ہوتا تو یہ ملک پاکستان اپنے الگ نام اور علیحدہ تشخص کی صورت میں کبھی دنیا کے نقشے پر نہ ابھرتا۔ 

    آج انہیں کی روحانی اولاد پر طعنے کسے جارہے ہیں۔ ان کے فرزندوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔ ان کے لہو سے اس دھرتی کو رنگا جارہا ہے انہیں عقوبت خانوں میں ٹارچر کیا جارہا ہے۔ انہیں انتہا پسند، قدامت پسند اور دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ اپنے مخلص اور تاریخی دوستوں کو بدترین دشمن گردانا جا رہا ہے۔ علماء خاموش ہیں۔ صبر سے کام لے رہے ہیں لیکن آخر کب تک ان کے صبر کو آزمایا جائے گا؟ عوام موقع کی منتظر ہے۔ ان کے جذبات خوابیدہ نہیں ہوئے۔ آج بھی اگر ان علماء نے کمر ِہمت کس لی اور متحد ہوکر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ان کی ایک پکار ملک بھر میں بازگشت کرنے لگے گی۔ عوام گھروں سے نکل آئے گی اور حکومت کا تختہ الٹ کر رہ جائے گا۔ 

    آخر گنتی کے چند غیر ملکی طلبہ نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟ یہ تو اپنے وطن جا کر پاکستان کی نیک نامی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ پاکستان کو اپنا مادر علمی کہلواتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے ممالک میں جا کر وہاں اسلام کی نشرو اشاعت کرتے اور ہمارے لےے نیک نامی اور ذخیرہ آخرت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کیوں ہم بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ یہ علم ہجرت کرتا رہا ہے اس نے پہلے مکہ مدینہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ وہاں سے ہجرت کرکے بغداد کی عزت افزائی کی۔ وہاں زوال آیا تو سمر قند و بخارا کو اپنی آماجگاہ بنایا۔ وہاں اسے ستایا گیا تو ہندوستان آکر پناہ لی۔ ہم نے اگر اس کی حوصلہ شکنی کی تو یہ عظیم منصب ہم سے بھی روٹھ کر کہیں اور چلا جائے گا ۔آگے بڑھےے اور اس کا ہاتھ تھامےے! اسے اپنے سینے سے لگائیں اس کے نالے نہ لیں دعائیں لےں۔ یہ پیارے نبی کی میراث ہے اسے ٹھکرائیے نہیں۔ اسے ٹھکرانے کا انجام بڑا ہولناک نظر آرہا ہے!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں