دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز

ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ دوقومی نظریے کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اس نظریئے کے کالعدم یا باطل ہونے سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دوقومی نظریہ آخر ہے کیا؟؟
جیسے ہر انسان کا الگ مزاج ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہر مذہب اور ہر نظریے کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہوتا ہے۔
اسلام کا قومی مزاج یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہنا چاہتا ہے ۔ یہ اسلام کی “مجبوری” ہے۔ ورنہ اسلام کے بہت سے احکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔جیسے نظام عدل، قاضیوں کا نظام، نظام زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ۔ حتیٰ کہ بقیہ دین (نماز روزہ وغیرہ)کی ادائیگی بھی مغلوبیت کی حالت میں اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔ پس اسلام کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر جگہ مسلمان کمیونٹی آزادی سے اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی طاقت حاصل کرے۔دوسرے لفظوں میں اسلام کی فطرت میں سربلندی ہے۔ مغلوبیت نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد 7111 ء میں ہوئی اور یہ وہی سال تھا جب طارق بن زیاد نے پہلی بار اسپین کے دروازوں پر دستک دی تھی۔ 711ء سے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی تک 1146 سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک ہزار ایک سو چھیالیس سالوں میں کبھی ہندوؤں نے دوقومی نظریہ پیش نہیں کیا۔کیوں؟ کیونکہ ہندومت مغلوبیت میں بھی خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی نظام عدل ہے نہ نظام حکومت۔ مختلف راجاؤں کی انفرادی بغاوتوں کا مقصد ہندومت کی تعلیمات یا فلسفہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی ملک گیری کی خواہش تھی۔
1857ء میں جب مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو اسلام کے فلسفے اور اسلام کی روح کے مطابق انہوں نے غلبہ اسلام کی تحریک شروع کی۔ اور صرف سو سال سے بھی کم عرصے (1947)میں اس تحریک کو کامیاب کر کے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر لیا، جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کا غلبہ تھا۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان میں پھر بھی اسلام کا غلبہ نہ ہوسکا، لیکن بہرحال وہ الگ موضوع ہے)
یہاں ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ” الگ وطن، جس میں اسلام کا غلبہ ہو” نامی تحریک کے لیے جو فلسفہ پیش کیا گیا وہ دوقومی نظریہ تھا۔ دوقومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ طاقتیں ہیں۔ جن میں سے ہندو غالب طاقت ہے اور مسلمان مغلوب۔ مغلوبیت کی حالت میں اسلام نامکمل ہے، لہٰذا ہم غالب طاقت (ہندو) سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن بنانا چاہتے ہیں۔
یہ نظریہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں سے دشمنی ہرگز نہیں۔ قطعی نہیں۔
اگر ہندوؤں کی بجائے غالب طاقت سکھ ہوتے تو دوقومی نظریئے میں ہندو کی جگہ سکھ کا لفظ آجاتا۔ یہ نظریہ ایک پیغام حریت ہے۔ آزادی کی خواہش جو اسلام کی روح کے مطابق ہو۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلام کی حکومت یا غلبے کے بعد غیر مسلموں کے لیے الگ ہدایات موجود ہیں۔ جن کے مطابق ان کی جان ومال اور عزت کا تحفظ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوقومی نظریہ اس لحاظ سے وقتی نظریہ یقیناً تھا کہ اس میں دوسری قوم ہندو تھی اور وہ غالب تھی۔ لیکن الگ وطن بننے کے بعد بھی جب تک نئے وطن میں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوجاتا ، دوقومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا کیونکہ اسلام کا فلسفہ غالبیت ابھی مکمل نہیں ہوا۔
فلسطین کا کوئی معصوم جب کسی اسرائیلی ٹینک پر غلیل سے ننھا سا پتھر پھینکتا ہے تو درحقیقت وہ دوقومی نظریے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ کہ مسلمان اور یہودی دو الگ قومیں ہیں۔ جن میں سے غالب یہودی ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ برما میں جب کوئی بے بس ماں آرمی کے آفیسر پر تھوکتی ہے تو وہ پکار کر دوقومی نظریے کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کشمیر میں جب کوئی برہان غالب طاقت کی طرف سنگینوں کا رخ کرتا ہے تو وہ بھی اسی نظریے کی صداقت کو گواہ بناتا ہے، شام میں جب کسی معصوم پھول کی لاش کو زمین سے نکال کراس کا والد پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور بشار کے خلاف موت پر بیعت کرتا ہے وہ بھی اسی دوقومی نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غلبہ اسلام کا فلسفہ ہے، یہ اسلام کی شوکت کا مظہر ہے۔
دوقومی نظریہ کسی مذہب سے نفرت نہیں سکھاتا، صرف اپنا حق مانگنا سکھاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستان میں محفوظ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے طاقت میں آنے کے بعد انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ دوقومی نظریے کے بالکل خلاف نہیں۔
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ دوقومی نظریئے کے مخاطب مسلمان ہیں اور یہ نظریہ “غلبہ اسلام” کا استعارہ ہے ۔ جب تک مکمل طور پر غلبہ اسلام نہیں ہوجاتا یہ نظریہ زندہ رہے گا، گویا پاکستان بننے کے بعد اس فلسفے کا ہندوؤں سے تعلق نہیں، مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس نظریئے کے تحت پڑوسی ممالک سے امن وامان قائم رکھنا ، تجارت کرنا وغیرہ کوئی جرم نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس نظریئے کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا ہے لیکن کیا ان کے غلط عمل سے یہ نظریہ غلط قرار دے دیا جائے؟
اگرمصطفیٰ کمال اتاترک کا ترکی ، جہاں اسلام کے بنیادی شعائر پر ظالمانہ پابندیاں تھیں، جہاں داڑھی اور حجاب تک پر پابندی تھی، وہاں طیب اردگان نے اسلام کو مغلوبیت سے نکال کر غالب طاقت بنا دیا، اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہےتو یہ قطعاً خلاف اسلام نہیں ۔ نہ اس سے غلبہ اسلام پر کوئی زد پڑتی ہے نہ دوقومی نظریے پر۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز “دوقومی نظریے” کی مخالفت پر کمر کیوں کسے ہوئے ہںے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگوں کو مذہب سے زیادہ پاکستانیت سکھائی جائے۔ وطنیت کی افیون انہیں اتنی مقدار میں کھلائی جائے کہ وہ اس کی بنیادوں میں موجود دوقومی نظریئے اور اس سے جڑی اسلامیت کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر فراموش کردیں۔ یہ دوقومی نظریہ ہی ہے جو آج کے پاکستانیوں کو بھی سکھاتا ہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے، قومیت یا وطنیت کی بنیا دپر نہیں۔
اسی نظریے کی وجہ سے آج تک پاکستانی قوم یہ نہیں بھولی کہ ابھی ان کی منزل ادھوری ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام غالب حالت میں نہیں آیا۔اور یہ بات لبرلز کو چڑانے کے لیے کافی ہے، جو پاکستان کو مذہب سے پاک ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
یہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو “نظریاتی” اور “اسلامی” ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی دوقومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے تو یوں سمجھیے وہ اس نظریاتی اور اسلامی وطن کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔
.
ثوبان تابش
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں