دنیا کی حقیقت      

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم،  امّابعد!

عن ابی سعید الخدری ﷺ عن النبی ﷺقال: الدنیا حلوۃ خضرۃ وان اللّٰہ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون فاتقوا الدنیا واتقوا النساء فان اول فتنہ بنی اسرائیل کانت فی النساء                                   ترمذی: ۲/۲۵ ابواب الطب)

            حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں: بے شک دنیا میٹھی ہے، سر سبز ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں نائب بنایا ہے ۔پس وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، بس دنیا سے اور عورتوں کے فتنے سے بچو۔ بے شک بنی اسرائیل کا جو پہلا فتنہ تھا وہ عورتوں ہی کے بارے میں تھا۔

     یہ اللہ تعالیٰ کے نبی  ﷺ کی ایک حدیث ہے جس میں اللہ کے نبی  ﷺ نے ہمارے مرض اور بیماری کودیکھتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ لوگو علاج کیا ہے اور پرہیز کیا ہے؟ عام طور پر دنیا کا قاعدہ یہ ہی ہے کہ ماہر حکیم کا کا م یہ ہوتا ہے کہ وہ مرض کی تشخیص کرے اور اس کے بعد اس کا علاج تجویز کرے اور پھر اس مرض میں جو چیزیں نقصان دہ ہوں، ان چیزوں کے بارے میں بتلائے ۔اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے گویا بتلادیا کہ لوگوہر بیماری کا علاج جس طرح دنیا میں ہے  دین میں بھی ہے۔

 روحانی بیماریوں کا علاج:

            عام طورپر کہتے ہیں کہ اکثر بیماریوں کا علاج معدے کے درست ہونے میں ہے ، معدہ درست ہوگا تو اکثر بیماریوں کا علاج ہوجائے گا۔ جس طرح معدے کی بیماری عام طور پر بہت سی بیماریاں پیدا کرتی ہے، بعض نے کہا کہ تین سوساٹھ (۳۶۰) بیماریاں معدے کی خرابی سے پیدا ہوتی ہیں۔ لازمی بات ہے کہ اب معدہ صحیح ہوگا تو انسان تین سوساٹھ بیماریوں سے بچ گیا ۔

            اسی طرح یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کوروحانی طور پر نقصان پہنچانے والی چیزیں جو ہیں وہ گناہ ہیں،جو انسان کو دنیا میں نقصان پہنچاتے ہیں، تباہ وبرباد کردیتے ہیں اوراخروی زندگی کوبھی تباہ وبرباد کردیتے ہیں،انسان روحانی طور پربیمار ہوجاتاہے اور جب روحانی طور پر بیمار ہوجاتاہے تو پھر اس کے لیے شفایابی ذرا مشکل ہوا کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺنے بتلادیا کہ تقویٰ یعنی ا للہ تعالیٰ کا ڈر گناہوں سے روک دیتا ہے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر اللہ کا ڈر انسان کے دل میں آجائے تو ہزاروں گناہوں سے انسان آسانی سے بچ جاتا ہے ،یعنی اللہ کا ڈر ہرگناہ کا توڑ ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ڈر جتنا انسان کے دل میں پیدا ہوتا چلا جائے گاانسان اتنا ہی گناہوں کی بیماری سے بچتا چلاجائے گا ،یہ اللہ والوں کا تجربہ ہے ۔

دو چیزیں روکاوٹ بنتی ہیں:

            لیکن اللہ کے ڈر میں عام طور پر دو چیزیں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ان دو چیزوں کی وجہ سے انسان کے دل سے اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف نکل جاتا ہے پھر وہ ہر گناہ کرتا ہے، کوئی گناہ اس سے نہیں چھوٹتا اور وہ خود بخود ہر گناہ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے ۔وہ دوچیزیں کیا ہیں؟اللہ کے نبی ﷺنے بتلایا کہ دنیا کی محبت کا حد سے بڑھنا اور عورتوں کی محبت کا حد سے بڑھنا، یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ یہ انسان کوتباہ وبرباد کردیتی ہیں،انسان کا تقویٰ ختم کردیتی ہیں اور انسان سے ہر گناہ سرزد ہوجاتا ہے۔

 حدیث کے دو مطلب:

            ۱۔میں نہیں کہتا قرآن کہتا ہے ،اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کی حدیث یہ بتلاتی ہے کہ دنیا بالکل ہی بری ہے ۔ دنیا نام ہے اللہ تعا لیٰ سے غفلت کا اگر اس معنی میں دنیا کو لیں تو واقعی دنیا ساری بری ہے ،بعض اللہ والوں نے اس کا مفہوم یہ ہی لیا ہے کہ دنیا اللہ سے غفلت کا نام ہے۔اسی معنی میں حضور w  نے فرمایا:  الدنیا ملعون (ترمذی:۲/۵۸،  ابواب الزھد)

            دنیا ملعون ہے ،کیوں؟ اس لیے کہ جب دنیا اللہ تعالیٰ سے غفلت کا نام ہے تو اللہ سے غفلت تو ملعون ہی ہے اور کیا ہے؟ اس آدمی پر اللہ کی پھٹکار کیوں نہ پڑے جواللہ سے غافل ہوجائے، جس نے اسے پیدا کیا ہے اور ہر طرح کی نعمتیں اسے عطا کی ہیں،اب وہ اس خدا کو بھول جائے توپھر اس سے بڑا دنیا میں ملعون کوئی نہیں۔ اس لیے ا للہ کے نبی ﷺنے فرمایا کہ دنیا ملعون ہے یعنی اللہ سے غفلت ملعون چیز ہے، اس سے بڑی لعنت دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں۔اس معنیٰ میں یہ بات یاد رکھیے کہ دنیا کا مفہوم اگر یہ ہی  لیں تو اس صورت میں اللہ سے غفلت جتنی بڑھتی چلی جائے گی اتنی لعنتیں بڑھتی چلی جائیں گی ۔

۲۔        لیکن ہم جوعام طور پر دنیا کا مفہوم لیتے ہیں کہ بھئی دنیا کا ما ل واسباب، دنیا کی نعمتیں، روپیہ پیسہ، چیزیں ان سب کوہم دنیا کہتے ہیں کہ دنیا نام ہے پیسے کی کثرت کا، تجارت کی کثرت کا ۔ہم ان چیزوںکودنیا کہتے ہیں،اس معنی میں یہ بات یاد رکھیے کہ دنیا ساری ملعون نہیںہے۔ بلکہ دنیا جب دین پر غالب آجائے اوروہ دنیا ہمارے دین میں رکاوٹ بن جائے تو پھر وہ ملعون ہے ۔

 سرسبز اور میٹھی :

             یہاں اللہ کے نبیﷺ نے دو چیزیں یہاں فرمائی ہیں ،ایک تو فرمایا: حُلْوَۃٌ دنیا میٹھی ہے اور دوسرا فرمایا: خضرۃ دنیا سرسبز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد سلام پھیرا، سلام پھیر کرجب لوگوں کی طرف منہ مبارک کرکے بیٹھے جس طرح عام معمول آپ ﷺ  کا یہی تھا کہ فجر اور عصر کی نماز کے بعد سلام پھیر کر لوگوں کی طرف منہ کرکے بیٹھتے تھے ،آپ  ﷺنے دیکھا کہ مسجد میں لوگ ہی لوگ ہیں توحضور ﷺ مجمع کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے اور پھر فرمایا:اچھا اچھا میں سمجھ گیا کیا بات ہے ،لگتا ہے تمہیں پتہ لگ گیا ہے ،غالباً عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہیں سے مال غنیمت لے کر آئے ہیں،تمہیں اطلاع ہوگئی ہوگی اس لیے تم مال لینے آئے ہوکہ بھئی مال ملنا ہے، فجر کی نماز کے بعدہی پہنچ جائیں،کہیں ایسا نہ ہوکہ سارا مال ختم ہوجائے، مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ تم لوگ مال لینے آئے ہو(مسلم شریف)

 اورپھر صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لوگو یہ دنیا ہے ہی بڑی سرسبز اور میٹھی ، ہر آدمی کا دل چاہتا ہے کہ دنیا مل جائے، پیسہ مل جائے اورمل جائے ،زیادہ سے زیادہ مل جائے ،لیکن فرمایا اس دنیا کے نفع کا حال یہ ہے کہ  متاع الدنیا قلیل والاخرۃ خیر لمن اتقی اللّٰہ                                                                              (سورہ النساء آیت ۷۷پارہ نمبر ۵)

             لوگو!اس دنیا کا نفع بہت تھوڑا ہے، یہ مال واسباب ،تجارت اور دنیا کی جتنی چیزیں ہیں، ان کا نفع بہت ہی تھوڑا ہے ۔اے اللہ !پھر نفع زیادہ کس کا ہے ؟فرمایا  والاخرۃ خیرلمن ا تقی اللّٰہ آخرت بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ولا تظلمون فتیلا اور اللہ کے یہاں ظلم کسی پر بھی نہیں کیا جاتا ،جیسے اعمال کروگے ویسا انجام ہوگا۔معلوم یہ ہوا کہ دنیا کا نفع بہت تھوڑا ہے۔ خضرۃ الدمن  اصل میں عربی زبان میں کہتے ہیں گندگی کا ڈھیرہونا ،جس طر ح ہمارے ہاں جمعدار ایک جگہ گند جمع کردیتے ہیں، جب بارش ہوتی ہے تو اس کے اندر گھاس اور پودے وغیرہ اگ آتے ہیں،اوپر سے گندگی چھپ جاتی ہے اور دیکھنے میں بڑی سرسبزنظر آتی ہے۔ لیکن اگر اوپر سے پودے اور گھاس ہٹادی جائے تونیچے سے کیا نکلے گا، وہ ساری گندگی نکلے گی ۔

            دنیا کا حال بھی یہی ہے یہ دیکھنے میں توبڑی سرسبز ہے لیکن اگر دوچار دن اگر کوئی چیز رکھ لی جائے، اب جیسے کھانا ایک دن رکھنے کے بعد دوسرے دن اس کا ذ ائقہ بدل گیا، اب تیسرے دن اس میںکیڑے پڑ گئے ،چوتھے دن رکھا توایسی سڑاند آنے لگی کہ بیٹھا ہی نہیںجاتا، پورے گھر کے اندر بدبو ہے انسان کہتا ہے کہ یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے پھر جب وہ پلیٹ اٹھا کر دیکھتا ہے کہ یہ سالن سڑ گیا ہے اس کی بدبو پورے گھر میں پھیل گئی ۔ اندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کا فرمان کس قدرسچ ہے کہ دنیا ہے تو بڑی سرسبز دیکھنے میں توبڑی اچھی ہے لیکن حقیقت اس کی کیا ہے کہ دو دن کے بعد ا س کا حال کیا نظر آئے گا کہ اس کے اندر سے بدبو آرہی ہوگی ،کیڑے چل رہے ہوں گے اگر آدمی نے اسے دوچار دن نہ دیکھا تو اسے ایسے کیڑوں اور ایسی بدبو سے واسطہ پڑے گاکہ اسے اس کے قریب جاتے ہوئے بھی قے آئے گی۔

آخرت کی نعمتیں اعلیٰ و ارفع ہیں:

            لیکن آخرت کی نعمتیں میرے دوستو!ایسی نہیں۔آخرت کی نعمتیں ایسی اعلیٰ وارفع ایسی بلند وبالا  ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبیﷺنے فرمایا :جنت کی عورتیں ایسی ہوں گی، جنت کی بیویاں ایسی ہوںگی  کہ ان سے بدبوتک نہیں آئے گی۔

             عام طورپر انسان کا جوقریبی تعلق ہوتا ہے وہ عورت سے ہوتا ہے میاں بیوی  کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ ان سے زیادہ پھر قریب کوئی ہوتا ہی نہیں،لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ اگرعورت کا منہ صاف نہ ہواور اس کے منہ سے بدبوآرہی ہو تواس کے قریب جانے کودل نہیں چاہتا۔وجہ اس کی کیا ہے؟کہ کھانا کھایا اور منہ کوصاف نہ کیا یا معدے سے اس کے اتنی بدبونکل رہی ہے کہ انسان سے بیٹھا نہیں جارہا، تو بیوی کا حال یہ ہے کہ دانتوں کی صفائی نہیں کی ، اس میں سے بدبو آنے لگی اس سے ہی اندازہ کرلیں۔اس لیے فرمایا کہ یہ دنیا تو بڑی سرسبز ہے لیکن اس کا انجام بہت براہے۔ اگر اس دنیا سے مقصد اللہ کی رضا بنا لی جائے، اللہ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ بنالیا جائے تواس سے بڑھ کرانسان کے لیے کوئی دولت ہوہی نہیں سکتی، لیکن اگر اس کواللہ کے قرب کا ذریعہ نہ بنایا جائے بلکہ یہ اللہ سے دوری کا ذریعہ بن جائے تو پھر اس سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ جب وہ اللہ سے دوری کا ذریعہ بن رہی ہے، اللہ سے انسان دور ہورہا ہے ،جتنا دنیا قریب آتی جارہی ہے ،جتنا پیسہ آتا جارہا ہے ،اتنا اﷲ سے دور ہورہا ہے، پہلے تو پانچ وقت مسجد میںنماز پڑھتا تھا جب سے پیسہ آیا ہے پہلے ایک نماز سے غائب پھر دوسری نمازسے پھر آہستہ آہستہ ایساہوا کہ صرف عشاء کی پڑھ لی کہ دکان سے فرصت ہی نہیںملی۔ دکان سے فارغ ہوکرآئے توعشاء پڑھ لی، فجر بھی غائب، ساری نمازیں غائب تو یہ دنیا انسان کواللہ سے دور کررہی ہے اورایسی دنیا واقعی ملعون ہے۔

ایک صحابی کا واقعہ:

            اس لیے میرے دوستو! دنیااللہ کے قرب کا ذریعہ بن جائے، اللہ تعالیٰ کا قرب انسان کونصیب ہوجائے۔اس کی دعا کرنی چاہیے اور اس کی فکر اور محنت کرنی چاہیے!

            ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں کہ اللہ کی راہ میںخرچ کرنے کے لیے کماتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو حال یہ تھا کہ اللہ کے رسول ﷺکہتے کہ صدقہ کرو،پیسہ توپاس ہے نہیں بھئی چلوچل کرکام کرتے ہیں کام کیوں کررہے ہیں کہ جوکما کرآئیں گے وہ اللہ کے نبی  ﷺ کی خدمت میں صدقہ پیش کریں گے ،اللہ کے نبی  ﷺ دُعائیں دیں گے اوران دعاؤں سے ہمارے کام بن جائیں گے۔ایک صحابی رضی اللہ عنہ  حضرت ابو عقیل کہتے  ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ترغیب دی کہ اللہ کی راہ میں مال دو،اس وقت ضرورت تھی غزوہ تبوک کا موقع تھا، مسلمانوں کی بہت بری حالت تھی ، اب ان صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ساری رات مزدوری کی اور اس کے بدلے میں جو اجرت ملی دو صاع کھجوریں یعنی یوں سمجھیں کہ سات کلو کھجوریں ان کو اجرت ملی ان میں سے ساڑھے تین کلو کھجوریں انہوں نے اﷲ کے نبیؐ کی خدمت میں جہاد کی ضرورت کے لیے پیش کردیں۔ ساری رات پانی کھینچتے رہے اور ساری رات کی محنت کے بعد جو کچھ کھجوریں ملیں آدھی اﷲ کی راہ میں صدقہ کردیں۔ (حیاۃ الصحابہ: ۱/۴۴۹ دارالاشاعت)

 دنیا اکثر وبال کا باعث بن جاتی ہے:

            صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی تو ایسی تھی اورآج بھی الحمدللہ! ایسے لوگ موجود ہیں جو لاکھوں روپے یومیہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اب اللہ انہیں دیتا بھی ویسے ہی ہے۔ ان کی آمدنیاں بھی ویسی ہی ہیں۔اب لازمی بات ہے ایسی دنیا اللہ کے قرب کا ذریعہ بن رہی ہے اور ایسے بھی لوگ ہیں پہلے تونمازی تھے پرہیز گار تھے دین دار تھے۔ چھوٹے علاقے میں رہتے تھے جہاںدنیا آئی بڑے علاقے میں چلے گئے اور زیادہ دنیا آئی اس سے بھی بڑے علاقے میں چلے گئے۔ نماز غائب مسجد سے تعلق ختم۔ ان کے گھروںمیں نئے نئے آلات آگئے اورمختلف قسم کی چیزیں آگئیں اور پھرایک دن آیا کہ ان کوپتہ ہی نہیں دین کیا ہے؟ دین کا بھی مذاق بنانا شروع کردیا۔ ایسے لوگ بھی ہیں دنیا میں۔ اللہ معاف فرمائے تو یہ دنیا ان کے لیے واقعی ملعون ہے یہ ان کے لیے کوئی اچھی چیزنہیں۔

            اسی دنیا کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں:ا ے لوگو! ایسی دنیا کی محبت آجائے کہ اللہ کے احکام ہی پس پشت ڈال دئیے جائیں اور انسان کوحلال اور حرام کی تمیز ہی نہ رہے کہ بس دنیا آنی چاہئیے چاہے حلال طریقے سے آئے یا حرام طریقے سے آئے اس کو پرواہ ہی نہ ہو،فرمایا ایسی دنیا سے بچو ۔یہ قیامت کی علامت ہے۔ اس کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔

(الترغیب والترھیب ۲/۳۴۷ مکتبہ وحیدی کتب خانہ بحوالہ بخاری نسائی)

            میرا اپنا تجربہ یہ ہے اللہ والوں کی  باتیں سن کرمیں یہ عرض کررہاہوں کہ جودنیا اللہ کے احکا م کوتوڑ کرملے جس میں حلال وحرام کی تمیزنہ ہوایسی دنیا اکثر وبال کا باعث بن جاتی ہے ۔کیوں کہ ہمیں آخرت کا یقین توہے ہی نہیں آخرت کے بارے میں توہم یہ ہی سوچتے ہیں کہ وقت آئیگا تودیکھا جائے گا۔ آخرت کس نے دیکھی ہے یہ توایسے ہی باتیں ہیں توعام طور پر آج کا مسلمان ایسا کفر بکتا ہے۔ اگلا جہاں کس نے دیکھا ہے؟ ابھی یہاں تو مزے کرلواگلا جہاں آئے گا تودیکھا جائے گا۔ معاذاللہ !آپ بھی اس بات کا مشاہدہ کریں کہ جن لوگوں نے دنیا کمانے میں حلال حرام کی تمیز نہ کی ہرآدمی کودھوکہ دینا چاہابہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کبھی اللہ نے کسی کومہلت دے دی ہوکہ آخرت میں پکڑلیں گے دنیا میں پکڑ نہیں کریںوہ دوسری بات ہے ۔ورنہ دنیا میں اچانک اس پرایسے حادثات آتے ہیں ایسی بیماریاں ایسی پریشانیاں آتی ہیں کہ لحظوں میں ہی اگلے جہاں پہنچ گیا۔ وہ دنیا ساری دھری کی دھری رہ گئی۔کوئی چیزکام نہ آئی ۔لاکھوں کروڑوں روپیہ کمایا کچھ بھی کام نہ آیا۔ ایک بھائی نے قبضہ کرلیا دوسرے بھائی نے قبضہ کرلیا تیسرے نے کرلیا۔ بھائیوں کی آپس میں لڑائی ہوگئی،بھائی آپس میں لڑرہے ہیں کہ تو میرا کھا گیا اب بھائیوں کی آپس میں لڑائیاں ہورہی ہیں۔

دنیا کی مثال:

            یہ دنیا یہاں کی یہاں رہ گئی اس لیے حضرت عیسیٰ e کی کتاب سے بہت اچھی مثال ملتی ہے آپ نے سنی ہوگی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہیں سے جارہے تھے وہاںتین آدمی مرے پڑے تھے اوران کے پاس سونے کی اینٹ پڑی ہوئی تھی ا ب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دل میں خیال آیا کہ یہ تین آدمی مرے پڑے ہیںاور سونے کی اینٹ ان کے پاس پڑی ہے ۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے اللہ سے دُعا کی اے اللہ! اس ماجرے کومیرے سامنے کھول دے تواللہ نے فرشتے کوبھیجا کہ جائوحضرت عیسیٰ کو بتلاؤکہ اصل ماجرا کیا ہے؟ فرمایا: ہوا یہ کہ یہ تینوں دوست تھے۔ سفرپرجارہے تھے۔ جس طر ح تجارت کا سفر ہے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ان کوسونے کی اینٹ مل گئی۔ یہ تینوںبڑے خوش ہوئے کہ سونے کی اینٹ مل گئی۔ اب تودنیا مل گئی۔ اب تومزے سے سالوں بیٹھ کر کھائیں گے ۔اب سونے کی اینٹ تینوںتقسیم کرلیتے تواللہ ان کے لیے اتنا کردیتا کہ کھاتے رہتے بیٹھے ہوئے کئی سال ختم نہ ہوتا۔کہنے لگے ایسا کرتے ہیں کہ تقسیم تو بعدمیں کریں گے۔ پہلے کھانا کھا لیتے ہیں تاکہ آرام سے تقسیم کرلیں۔ایک کھانا لینے چلا گیا۔ دو وہیں رہ گئے ان دونوں نے آپس  میں مشورہ کیاکہ اگرتین آدمی یہ اینٹ تقسیم کریں گے تومعاملہ نہیں بنے گا ،ایسا ہے کہ ہم دو آدمی  ہیں ہم میں ہی تقسیم ہونی چاہئیے اور جب تیسرا آئے گا تواس کوقتل کردیں گے اور یہ اینٹ ہم لوگ آدھی آدھی تقسیم کرلیں گے۔ یہ معاملہ بالکل پورا پورا رہے گا۔ادھر اس آدمی کو راستہ میں خیال آیا کہ تین آدمی اینٹ تقسیم کریں گے تو میرے حصے میں تھوڑا آئے گا  اس لیے کیوں نہ  کھانے میں زہر ڈال دوںجب وہ لوگ کھانا کھائیں گے تومرجائیں گے اور ساری اینٹ مجھے مل جائے گی ۔اب یہ سوچ کر اس نے کھانے میں زہرملا دیا۔اب ان دونوںکوپتہ نہیں تھا کہ کھانے میں زہرہے ۔ان دونوں نے اس کو قتل کردیا اور جب کھانا کھایا تووہ دونو ں بھی  مرگئے۔ اب تینوں مرے پڑے ہیں اور اینٹ  وہیں کی وہیں پڑی ہوئی ہے یعنی اللہ نے دنیا میں دکھلادیاکہ اے عیسیٰ! یہ دنیا کا حال ایسا ہی ہے۔ جوبھی دنیا کے پیچھے پڑتا ہے یہ دنیا اس سے اتنا ہی دوربھاگتی ہے۔اس لیے دنیا اللہ نے بقدر مقدر رکھی ہے ۔انسان حلال طریقے سے کمائے ان شاء اللہ! اسی میں برکت دیں گے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ دنیا حرام طریقے سے آئے غلط طریقے سے آئے۔ بس دنیا آنی چاہیے تومیرے دوستو!ا س کا انجام یہ ہی ہوتا ہے کہ یہ دنیا یہیں رہ جاتی ہے اورانسان آخرت میں پہنچ جاتا ہے ۔اور پھر آخرت میں پہنچ کراللہ کے یہاں حساب وکتاب دینا ہوگا اور اللہ پوچھیں گے کہ تو نے دنیا میں کیا کیا ؟

مال صرف تین چیزیں ہیں:

            اسی لیے اللہ کے رسول  ﷺ نے ارشاد فرمادیا کہ آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال۔ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ میں بتاؤں  کہ کون سا مال اس کاہے۔ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: ایک وہ جو اس نے کھا لیا۔ دوسرا وہ جو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کرلیا وہ اس کا مال ہے۔جو کھالیا وہ پیٹ میں گیا لباس پہن لیا وہ استعمال میں آئے گا، وہ اس کا مال ہے اورفرمایا: تیسرا وہ اس کا مال ہے جواپنے ہاتھ سے اللہ کے راہ میں دے دے کل قیامت کو اس کو اس کا بدلہ ملے گا کیونکہ وہ تو اللہ کے پاس چلا گیا اور اللہ کے پاس چلا گیا تو آخرت میں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ فرمایا :اس کے علاوہ جو بھی مال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑ گئے یہ اس کا مال نہیں ہے۔ یہ تو ورثاء کا مال ہے پھر ورثاء بعد میں لڑتے بھی ہیں۔ ایک کہتا ہے: وہ کھا گیا دوسرا کہتا ہے: وہ کھا گیا ہر آدمی یہ کہتا ہے کہ مجھے ملے باقی سارے محروم رہ جائیں۔(فضائل صدقاتظ: ۱/۷۲ بحوالہ مشکوۃ) اس لیے اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا کہ لوگو یاد رکھو کہ الدنیا کلہ خضرۃ

            دنیا میٹھی ہے۔ سرسبز بھی ہے اللہ نے تمہیں اس میں اپنا نائب بنایا ہے ایک کے بعد دوسرا ۔کل ہمارے باپ دادا اٹھے وہ چلے گئے آج ہم ہیں۔ اسی طرح کل ہم نہیں ہوں گے ہماری اولادیںہوں گی اسی طرح نائب بنتے رہتے ہیں کہاں سے چلا ہے سلسلہ ؟حضرت آدم علیہ السلام سے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ اس دن اللہ دیکھے گا کہ تم دنیا میں رہ کر کیا کچھ کرتے تھے جیسے دنیا میں کرو گے ویسا ہی بدلہ اللہ کے ہاں ملے گا۔ اچھے کام کروگے تو اچھا بدلہ ملے گا برے کام کروگے تو برا بدلہ ملے گا لیکن فرمایا یہ بات یاد رکھو کہ دنیا کی محبت اتنی غالب نہ کرو کہ حلال حرام کی تمیز نہ رہے۔ اس کی محبت سے بچو۔

            دنیا سے بچنے کا مفہوم یہ ہی ہے کہ ایسی محبت سے بچو جس میں انسان اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دے ایسے حال سے انسان کو بچنا چاہیے ایسی دنیا کی محبت انسان کوتباہ برباد کردیتی ہے اور فرمایا  واتقوا فتنۃالنسآء (مسلم شریف: ۲/۲۷۴)لوگو عورتوں کے فتنوں سے بھی بچو فرمایا کیوں؟ اس لیے کہ پہلا فتنہ جوبنی اسرائیل میں پیدا ہوا تھا وہ عورتوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ عورت انسان کی زندگی میں لازمی ہے۔ انسان کی زندگی میں عورت ہو توسکون ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی  ﷺ نے خود فرمایا:  النکاح نصف الایمان (مشکوٰۃ شریف: ۲/۲۶۸ باب النکاح)

آدھا ایمان نکاح ہے۔ لیکن عورتوں کی محبت ایسی غالب آجائے ایسی غالب آجائے کہ وہ اللہ کے احکام کو توڑنے کا ذریعہ بن جائے۔بس ایسی عورتوں کے فتنوں سے بچنا ضروری ہے ایسی عورتیں انسان کی دنیا وآخرت دونوں تباہ کردیتی ہیں۔

            آج ایسے ہی میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا ۔ اس میں ایک عجیب بات لکھی تھی۔لکھا تھا کہ ابن ملجم جوحضرت علی  رضی اللہ عنہ کوشہید کرنے والا تھااور دوسرا قیدار جو حضرت صالح علیہ السلام کی قوم میں سے تھا جس نے اونٹنی کو قتل کیا تھا ، ان کو اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دنیا کے دو بد بخت ترین آدمی ہیں ۔ ان دونوں نے یہ کام عورتوں کے کہنے پر کیے تھے۔یہ دونوں عورتوں کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے۔ قیدارکو اس کی محبوبہ نے کہا کہ اگر تم اس اونٹنی کو قتل کردو تو میں تمھیں حاصل ہو جاؤں گی۔ اس نے اس عورت کے چکر میں آکر اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ ابن ملجم کو اس کی محبوبہ نے کہا کہ اگر تم اتنی چاندی لادو تو میں تمھاری ہو جاؤں گی۔ اس کے حصول کے لیے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو شہید کردیا۔تو دنیا کے دو بد ترین آدمیوں کی ہلاکت اور بربادی کا سبب عورتیں بنیں۔ اس لیے اللہ کے نبی ﷺ نے عورتوں کے فتنے سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

            اللہ ہمیں عورتوں کے فتنے سے اور دنیا کی ایسی محبت سے جو اللہ سے دوری کا سبب بن جائے محفوظ فرمائے ۔                     

                                                آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں