اَحکامِ میت

فتویٰ نمبر:524

محض دماغی موت معتبر نہیں!

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے، نفخ روح سے انسانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اور اس روح کے نکل جانے سے موت واقع ہوجاتی ہے؛ لیکن  روح کیا ہے؟ یہ ایک سربستہ راز ہے، قرآن نے اسے ’’امر رب‘‘ قرار دیا ہے، بعض حضرات کے نزدیک یہ ایک لطیف نورانی شئ ہے جو جسم میں اس طرح موجود ہوتی ہے جیسے شاخ تازہ میں شادابی۔ یوں تو موت کی کچھ ایسی  بدیہی علامتیں ہیں جنہیں دیکھ کر عام آدمی بھی بتا سکتا ہے کہ کون زندہ ہے اور کون مردہ؛ لیکن کچھ خاص حالات میں موت کی شناخت بہت مشکل ہوجاتی ہے، اور ماہر اطباء بھی موت کے وقوع کا فیصلہ کرنے میں دشواری  محسوس کرتے ہیں، مثال کے طور پر زہر کے استعمال، حادثات میں لگنے والی گہری چوٹ، یا کسی اور سبب سے مریض طویل سکتہ میں مبتلا ہوجاتا ہے اورموت کی ظاہری علامتیں طاری ہوجاتی ہیں، لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان ابھی زندہ ہے۔

عام طور پر دل کی حرکت، دوران خون اور سانس کی آمد ورفت کا رک جاناموت کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن جدید میڈیکل سائنس نے ایسے آلات ایجاد کرلئے ہیں جو ایک عرصہ تک مصنوعی طور پر دل کی حرکت اور سانس کی آمد ورفت کو قائم رکھتے ہیں، یہیں سے جدید میڈیکل سائنس میں دماغیموت کا تصور ابھرا ہے، اب یہ بات ممکن ہوگئی ہے کہ کچھ خاص وقت کے لئے قلب کو حرکت سے روک دیا جائے اور مصنوعی قلب اور پھیپھڑے کے ذریعہ دوران خون اور سانس کی آمد ورفت کا کام لیا جائے، اس تجربہ نے اس تصور کو جنم دیا ہے کہ اصل موت قلب اور سانس کا  

رکنا نہیں ہے، بلکہ دماغ کے اس حصہ کا مرجانا ہے جسے جذع المنح (Brain Stem) کہتے ہیں، دماغ کا یہی حصہ فکر وشعور کا مرکز ہے، اور یہی نظام جسمانی کو کنٹرول کرتا ہے، اگر دماغ کو چار پانچ منٹ تک خون کی سپلائی بند ہوجائے تو وہ زندہ نہیں رہتا، بلکہ پگھلنا شروع ہوجاتا ہے، دماغ کے مرنے کے بعد مصنوعی آلات کے ذریعہ قلب کی حرکت اور دوران خون کو جاری رکھا جاسکتا ہے،لیکن یہ وقتی عمل ہوگا، جوبالآخر چند گھنٹوں یا چند دنوں سے زیادہ جاری نہیں رہ سکے گا، اب انسان کے اندر زندگی لوٹنے کا سوال باقی نہیں رہتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر دماغ زندہ ہو اور قلب کی حرکت محدود مدت کے لئے بند ہوگئی ہو لیکن خارجی عمل کے ذریعہ خون کی سپلائی برقرار رکھی جائے تو انسان زندہ رہے گا، اس تجربہ کی وجہ سے آج کے اطباء یہ سمجھتے ہیں کہ نفس انسانی کا مرکز انسانی دماغ ہے۔ 

انسان کی حیات وموت کا سوال فقہ کے کئی مسائل سے تعلق رکھتا ہے، یہ  سوال کہ کس وقت انسان کو مردہ قرار دیا جائے، فقہی نقطہ ٔ نظر سے خاصی اہمیت کا معاملہ ہے، اس سلسلہ میں تین قسم کے سوالات زیادہ اہمیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں: پہلی قسم میں میراث، عدت اور حقوق سے متعلق سوالات پیدا ہوتے ہیں، کہ ان کا نفاذ کس وقت سے ہوگا؟

دوسری قسم کے مسائل اعضاء کی پیوند کاری سے متعلق ہیں، طبی تحقیق کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد بھی کچھ وقفہ تک اعضاء میں زندگی باقی رہتی ہے، چنانچہ اگر دماغ مرچکا ہے تو مصنوعی آلات تنفس کے ذریعہ قلب کی حرکت اور سانس کی آمد ورفت کو اتنی دیر باقی رکھا جاسکتا ہے جس میں اعضاء میں حیات عضوی باقی رہے، اور انہیں قابل استفادہ حالت میں نکالا جاسکے۔

تیسری قسم کے مسائل اس بات سے متعلق ہیں کہ اگر کوئی مریض مصنوعی آلات تنفس (Ventilaor) پر ہے، جو کافی گراں طریقۂ علاج ہے،تو کیا اس سے یہ آلات شرعاً ہٹائے جاسکتے ہیں؟ اگر مشین پر رہتے ہوئے اس کے تنفس اور حرکت قلب کا فطری نظام بحال ہوجاتا ہے، توبلاشبہ مشین ہٹالی جائے گی، اسی طرح اگر مشین پر رہتے ہوئے حرکت قلب ختم ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے، تو مشین کا ہٹالیا جانا طے ہے، لیکن پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ڈاکٹر مریض کی زندگی سے مایوس تو نہ ہوا ہو، لیکن مشین کے ذریعہ ہی اس کی سانس کی آمد ورفت اور دل کی حرکت جاری ہو اور مشین ہٹالینے پر یہ دونوں موقوف ہوجاتے ہوں ایسی صورت میں کب مشین ہٹانے کی اجازت ہوگی؟ 

اس تفصیل کی روشنی میں دماغی موت کے سلسلہ میں چند اہم سوالات آپ  کے سامنے پیش ہیں، آپ سے گذارش ہے کہ ان سوالات کے بارے میں اپنی شرعی تحقیق کی روشنی میں جوابات سپرد قلم فرمائیں؟

(۱) اطباء کا یہ تصور کہ اصل موت دماغی موت ہے۔ شرعاً کہاں تک درست  ہے؟ یعنی اگر دماغ مرچکا ہو لیکن مصنوعی آلاتِ تنفس کے ذریعہ قلب کی حرکت اور سانس کی آمدورفت باقی رکھی گئی ہو تو ایسے شخص کو مردہ قراردیا جائے گا یازندہ؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت کی نظر میں جب تک جسم کے کسی بھی حصے کے ساتھ روح کا رشتہ برقرار ہے ایسے شخص پر مردہ کے احکامات جاری نہیں ہوسکتے لہٰذا اطباء کا یہ تصور کہ اصل موت دماغی موت ہے، اسلام کی  نظر میں ناقابلِ قبول ہے، اور جو شخص دماغ کے اعتبار سے مفلوج ہوچکا ہو؛ لیکن اس کے سانس کی آمد ورفت فطری یا مصنوعی طور پر باقی ہو تو ایسے شخص کو شرعاً زندہ ہی مانا جائے گا، یعنی ایسی حالت تک پہنچنے کے باوجود اس کی بیوی اس کے نکاح سے باہر نہ ہوگی اسی طرح اس کی وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کی تجہیز وتکفین وغیرہ جائز ہوگی۔

الموت في الاصطلاح: ہو مفارقۃ الروح للجسد، وقال الغزالي: ومعنی مفارقتہا  للجسد انقطاع تصرفہا عن الجسد بخروج الجسد عن طاعتہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۳۹؍۲۴۸)

الموت انسحاب الروح من البدن عند مایصبح البدن غیر أہل لبقاء الروح فیہ۔ (لغۃ الفقہاء ۴۶۸)

أجری اللّٰہ تعالیٰ العادۃ بأن یخلق الحیاۃ ما استمرت ہي في الجسد، فإذا فارقتہ توفت الموت الحیاۃ، وقالوا: الحیاۃ للروح بمنزلۃ الشعاع للشمس، فإن اللّٰہ تعالیٰ  أجری العادۃ بأن یخلق النور والضیاء في العالم مادامت الشمس طالعۃ کذلک یخلق الحیاۃ للبدن مادامت الروح فیہ ثابتۃ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۲۴)

قال الحافظ شمس الدین ابن القیم بعد ما ساق أقوال الناس في حقیقۃ الروح علی اختلاف مذاہبہم، وتباین آراء ہم، وذکر عدۃ مذاہب وزیفہا، ثم قال: والصحیح أن الروح جسم مخالف بالماہیۃ لہٰذا الجسم المحسوس، وہو جسم نوراني علوي خفیف حي متحرک ینفذ في جوہر الأعضاء، ویسری فیہا سریان الماء في الورد، وسریان الدہن في الزیتون، والنار في الفحم، فما دامت ہذہ الأعضاء صالحۃ لقبول الآثار الفائضۃ علیہا من ہذا الجسم اللطیف بقي ہذا الجسم اللطیف متشابکا بہذہ الأعضاء، وأفادہا ہذہ الأثار من الحس والحرکۃ والإرادۃ، وإذا فسدت ہذہ الأعضاء بسبب استیلاء الأخلاط الغلیظۃ علیہا وخرجت عن قبول تلک الآثار فارق الروح البدن، وانفصل إلی عالم الأرواح، قال: وہذا القول ہو الصواب في المسألۃ، وہو الذي لایصح غیرہ، وکل الأقوال سواہ باطلۃ، وعلیہ دل الکتاب والسنۃ وإجماع الصحابۃ وأدلۃ العقل والفطرۃ۔ (فتح الملہم، باب ما یقول المسلم عند مصیبۃ نصیبہ / الدلیل علی مشروعیۃ تغیض بصر الموت ۲؍۴۶۹) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱؍۱۴۲۸ھ 

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ 

اپنا تبصرہ بھیجیں