حسن سلوک کی اہمیت وفضائل احادیث کی روشنی میں

سبق نمبر: 2

                        قرآن کریم کی آیات کی طرح احادیث میں  بھی بکثرت رشتہ داروں کے   حقوق کی ادائیگی ، اورا ن کے ساتھ حسن سلوک    سے متعلق فضائل ذکر کیے گئے ہیں:

1۔۔۔ عن عبد الرحمن بن عوف، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” قال الله تبارك وتعالي ،انا الله: أنا الرحمن وهي الرحم، شققت لها اسما من اسمي، من وصلها وصلته، ومن قطعها بتته،( سنن أبي داود :2 / 133)۔

ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ “اللہ تعالی کا ارشاد ہے  کہ:میں اللہ ہوں  ،میں رحمن ہوں ، میں  نے رشتہ قرابت کو پیدا کیا ہے،اور اپنے نام رحمن  کے مادہ   سے نکال کر اس  کو رحم   کا نام دیا ہے،پس جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں  گا اور جو اس کو توڑے گا میں اس کو توڑ  دوں گا”

فائدہ :

اس حدیث  شریف   سے صلہ  رحمی  کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، کہ  رشتہ داروں سے حسن سلوک کو  حدیث میں “رحم ” نام دیا گیا ہے۔اسی بنا پر  اس کو” صلہ رحمی” کہا جاتا ہے، اور اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ  میں نے  اس کا عنوان  اپنے اس خاص رحمن  سے نکا لا ہے   جیسا کہ دوسری روایت میں ہے “إن الرحم شجنة من الرحمن”)صحيح البخاري،باب من وصله وصله الله: 8 / 6) رحم  (یعنی حق قرابت ) مشتق ہے  رحمن سے (یعنی خدواند  رحمن نے  کی  رحمت کی ایک شاخ ہے،  دونوں کی اصل  رحم  ہے ، لہذا جب اس حق قرابت کی نسبت   اللہ تعالی کی صفت خاص رحمت کے ساتھ ہے تو اللہ تعالی نے بھی  اس رشتہ داری کو یہ اعزاز بخشا کہ  جو جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا( یعنی  میں اسے اپنی رحمت خاصہ کے ساتھ ملا لوں گا، اور جو تجھے توڑے گا میں اس کو توڑ دوں  گا، (یعنی ایسا شخص میری رحمت خاصہ سے محروم رہے گا،اس حدیث میں  یہ بھی سبق ہے کہ  انسان کو اللہ تعالی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے  چاہیے،جیسے اللہ پاک رحمن ہے تو بندے کو بھی بندوں کے ساتھ رحم  والا معاملہ کرنا  چاہیے،جیسے اللہ غفور ہیں تو بندوں کو بھی دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینا  چاہیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 3090):

 وإن كان المعنى على أنها أثر من آثار رحمة الرحمن، ويتعين على المؤمن التخلق بأخلاق الله تعالى، والتعلق بأسمائه وصفاته ولذا قال: (فمن وصلها وصلته) ، أي: إلى رحمتي أو محل كرامتي (ومن قطعها بتته) بتشديد الفوقية الثانية أي: قطعته من رحمتي الخاصة

2۔۔۔عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من سره أن يبسط له في رزقه، أو ينسأ له في أثره، فليصل رحمه»(صحيح البخاري: 3 / 56):

ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس کو یہ پسند ہوں کہ اس کے رزق میں  کشادگی پیدا ہو اور اس کی عمر دراز ہوجائے تو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

فائدہ:

اس حدیث میں  صلہ رحمی  کے دو بڑے فائدے بیان کیے گئے ہیں :

(1)صلہ رحمی کرنا رزق میں برکت کا باعث ہے،اس  کی وجہ علماء نے ایک  عجیب یہ بھی بیان  فرمائی  کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی ايك قسم کا صدقہ ہے اور صدقہ کے بارے میں قرآن کریم میں ہے  کہ:”اللہ  تعالی صدقات  کو بڑھاتے ہیں “رزق میں برکت ہونے کا عام مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی  آمدنی میں  ایسی برکت عطا فرمادیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کے تمام اخراجات  با آسانی پورے ہوجاتے ہیں ،اب چاہے آمدنی تھوڑی ہو یا زیادہ ،رزق میں برکت  اللہ تعالی ڈال دیں تو تمام ضروریات  پوری  ہوجاتی ہیں ،ورنہ  جن کی آمدنی لاکھوں میں ہے ایسے لوگوں سے بھی آپ نے سنا ہوگا کہ    ابھی مہینہ  ختم  ہونے میں دن باقی ہوتے ہیں  لیکن  آمدنی  ساری خرچ ہوجاتی ہے،آج ہمارے معاشرے میں رزق میں  برکت ہر شخص چاہتا ہے ،اس حدیث میں ضابطہ اور نسخے کے طور پر ایک بات ارشاد فرمادی گئی کہ دیکھو رزق میں برکت چاہتے ہو تو رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو۔

(2) دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ عمر میں برکت ہوجاتی ہے ،ہر انسان کی عمر اللہ تعالی کی طرف سے  جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے  مقرر کر دی جاتی ہے ،یہاں عمر میں برکت کا کیا مطلب ہوا،اس کے  علماءکرام نے دیگر احادیث کی روشنی میں ہی  چند مطلب بیان فرمائیں ہیں :

(الف)اللہ تعالی اس  شخص کو  ایک خاص توفیق  عنایت فرماتے ہیں جس کی بنا پر اس کے لیے  اعمال صالحہ کرنا  اور گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے،اس کے وقت میں برکت ڈال دیتے ہیں کہ  کم وقت میں دین کو بہت سا کام اس سے  اللہ پاک لے لیتے ہیں ،بعض لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ماشاء اللہ  کم وقت میں اللہ تعالی ان سے  کتنی دین کی خدمت لے لیتے ہیں ،کتنے ہی مخلوق خدا ان سے فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔

(ب)اللہ تعالی اس کو نیک صالح اولاد عطا فرماتے ہیں ،نیک اولاد  دنیا میں تو راحت  ہے ہی لیکن جب انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تب یہ اولاد اس کے لیے  استغفار کرتی ہے،ایصال ثواب  اور دیگر خیر کا کام کرتی ہے جس کا ثواب اسے بھی مرنے کے بعد پہنچتا رہتا ہے۔

(د) ایک مطلب رزق کے مفہوم کا یہ بھی کہ  اس کے جانے کے بعد  لوگوں  اس کا ذکر  اچھے الفاظ میں کرتے ہیں ،بہت سے اللہ والے آج دنیا میں نہیں لیکن ان کا ذکر خیر  آج بھی لوگ  کیا کرتے ہیں،اور  یہ ایسی نعمت ہے جس کی دعا حضرت ابراہیم  علیہ السلام نے بھی مانگی،قرآن کریم میں ہے”اور آنے والی نسلوں میں میرے لیے وہ زبانیں  پیدا فرمادے جو میری سچائی کی گواہی دیں”(الشعراء :84)۔

3۔۔۔عن عبد الله بن سلام قال: لما أن قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، ۔۔فكان أول شيء سمعت منه أن قال: ” يأيها الناس أطعموا الطعام، وأفشوا السلام، وصلوا الأرحام، وصلوا بالليل والناس نيام تدخلوا الجنة بسلام(السنن الكبرى للبيهقي “2 / 706)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو سب سے پہلے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کلمات میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے”لوگو! اللہ کی رضاجوئی کے لیے   لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کرو،صلہ رحمی کیا کرو،اور ایسے وقت میں نماز کی طرف سبقت کیا کرو جبکہ لوگ نیند کے مزے میں ہوں ،(یاد رکھو ان امور پر عمل کرکے ) تم  حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر رکاوٹ کے  جنت میں پہنچ جاؤ  گے”

4۔۔۔ عن سلمان بن عامر الضبي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذي القرابة اثنتان: صدقة وصلة “(سنن ابن ماجه: 1 / 591)

ترجمہ :حضرت  سلمان  بن عامر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  نبی کریم صلی الللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :”کسی محتاج کی مدد کرنا صدقہ ہی ہے  اور اپنے کسی عزیزو اقارب کی مدد کرنا دو چیزوں پر مشتمل ہے ،ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی”

 

فائدہ:

ایک حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوئی کہ   مالی  تعاون میں  رشتہ داروں کا حق عام  فقراء ومساکین اور دیگر حاجت مند لوگوں سے  دگنا ہے ،اسی بنا پر حدیث میں رشتہ داروں پر صدقہ کرنے میں دگنا اجرو ثواب کا ذکر ہے،ا  س  کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی  ہوتی ہے جس میں ذکر ہے کہ قال: «أما إنك لو أعطيتها أخوالك كان أعظم لأجرك»(صحيح البخاري :(3 / 159) “حضرت میمونہ  رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک باندی کو آزاد کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ:”اگر تم اپنے ماموں کو دے دیتی  تو یہ زیادہ  فضیلت کا باعث  تھا”مذکورہ احادیث کی روشنی میں   فقہاء کرام نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ زکوۃ وصدقات  کی ادائیگی کے وقت پہلے اپنے رشتہ داروں پر نظر کی جائے اگر ان میں  مستحق موجود ہو تو دیگر ضرورت مند لوگوں  کی بہ نسبت ان پر خرچ کرنا  زیادہ باعث فضیلت ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں