عید میلادالنبی منانا 

سوال: مفتیان کرام سے سے عرض ہے کہ مروجہ عید میلادالنبی ﷺ منانا شرعا کیساہے ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں 

الجواب حامداومصلیا ً 

آنحضرت ﷺ کی سیرت کا تذکرہ تمام مسلمانوں کے لیے موجب خیر اور باعث فخر وسعادت ہے لیکن شریعت نے ہر کام اور عبادت کے لیے کچھ حدود وقواعد مقرر کیے ہیں ان حدود قواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر عمل کا انجام دینا ضروری ہے اوران سے تجاوز کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے ۔ا س کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ نماز اہم ترین عبادت ہے لیکن آفتاب کے طلوع و غروب کےوقت نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح سیرت طیبہ کےمبارک تذکرے کی بھی کچھ حدودوقیود ہیں ، مثلا سیرت کے تذکرے کو کسی معین تاریخ یا مہینے کے ساتھ مخصوص نہ کیاجائے اورا س کے لیے ہر مہینے کے ہر ہفتے اور ہفتے کے ہردن میں اسے یکساں طور پر باعث سعادت سمجھا جائے اورا س کے لیے کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کرلیاجائے ، مثلا سیرت پر لکھی گئی معتبر کتابوں کے مطالعہ کا معمول بنالیاجائے وغیرہ ،ا یسا کرنا ناصرف جائز بلکہ باعث اجر وثواب ہے مگر ان تمام مفاسد اور منکرات سے مکمل طور پر اجتناب کیاجائے جو عام طور پر مروجہ میلاد کی محفلوں پائے جاتے ہیں ، ان میں سے بعض مفاسد ومنکرات درج ذیل ہیں :

1) ربیع الاول کے مہینہ کی بارہ تاریخ کو خصوصیت کے ساتھ محفل میلاد منعقد کرنے یا عیدمیلاد النبی ﷺ منانے کی جو رسم پڑگئی ہے ۔ ا س کا کوئی ثبوت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین اورا ئمہ دین رحمہ اللہ عنہم کے مبارک دور میں نہیں ملتا، حالانکہ ان کے عشق رسول ﷺ کے مقابلے میں ہمارا عشق رسول ﷺ کچھ بھی نہیں ہیں ، لہذا آپ ﷺ کے ذکر کو کسی معین تاریخ یا مہینے کے ساتھ مخصوص کرلینا دین میں اضافہ اور بدعت ہے ۔

2) ان محافل میلاد کے انعقاد میں ریا اور نام ونمود شامل ہونا ۔

3) اگر کوئی شخص کسی وجہ سے ان محفلوں میں شریک نہ ہو تو اسے عام طور پر برا سمجھنا ۔ 

4) ان محفلوں میں کھانا یا مٹھائی وغیرہ کی تقسیم کو لازمی سمجھنا ۔

5) کھایا یا مٹھائی وغیرہ کی تقسیم کے لیے لوگوں سے چندہ وصول کرنا ، جس میں لوگ عموماً مروت کی خاطر یا جان چھڑانے کے لیے چندہ دے دیتے ہیں ، حالانکہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہوتا ۔

6) ان محفلوں میں ضرورت سے زیادہ روشنی اور چراغاں کا اہتمام کرنا اور ان کی سجاوٹ میں حد سے زیادہ تکلف کرنا اور غیرضروری آرائش پرا خراجات کرنا جو بلاشبہ اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہے ۔

7) ان محفلوں میں تصاویر اتارنا، جلسوں کے انتظامات کی وجہ سے یا رات کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے فرض نماز چھوڑنا یا قضا کرنا اور مردوزن کا آپس میں آزادانہ اختلاط جیسے خلاف شرع امور اور گنای کبیرہ کا بے دریغ ارتکاب کرنا۔ 

8) ان محفلوں میں بعض اوقات بے احتیاطی کی وجہ سے ایسی کہانیاں بیان کردی جاتی ہیں جوصحیح اور معتبر روایات سے ثابت نہیں ہوتیں حالانکہ اس مقدس موضوع ﷺ کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح روایات سے ثابت شدہ واقعات نہایت احتیاط کے ساتھ بیان کیے جائیں ۔

9) اس قسم کے جلسے عام طور پر آبادیوں کے درمیان کیے جاتے ہیں اور جلسوں میں بہت اونچی آواز کے لاؤڈ اسپیکر استعمال کیے جاتے ہیں اور رات دیر تک یہ جلسے جاری رہتے ہیں جس کی وجہ سے قریب رہائش پذیر ضعیفوں اور بیماروں کو تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ایذاء رسانی حرام ہے۔

10) آنحضرت ﷺ نے ہر شعبہ زندگی سے متعلق واضح ہدایات اور تعلیماتس بیان فرمائی ہیں ، اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تمام تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے، عبادات ،معاملات ، معاشرت اوراعمال واخلاق پر سیر حاصل گفتگو ہو، لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر میلاد کی محفلون میں صرف آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا تذکرہ کیاجاتاہے یا زیادہ سے زیادہ آپ کے معجزات کا بیان ہوجاتاہے ، لیکن عموماً تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جامع تعلیمات نبوی ﷺ کا بیان نہیں ہوتا اور ان کی جگہ خرافات، مفاسداور منکرات نے لے لی ہے ۔ 

11) لہذا مذکورہ بالا وجوہ کی بناء پر مروجہ محافل جشن عید میلاد النبی بدعت بن گئی ہیں، اورواجب الترک ہیں اور ان میں شرکت کرنا بھی درست نہیں ہے ۔ البتہ اگر ان مفاسد میں سے کوئی بھی نہ ہو اور شرعی حدود اورآداب کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے آپ ﷺ کی سیرت کی کوئی محفل محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر منعقد کرلی جائے تو اس میں ان شاء اللہ خیر وبرکت ہے۔

دارالافتاء جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو 

اپنا تبصرہ بھیجیں