فاتحہ خوانی کا حکم

فتویٰ نمبر:20

 الجواب  حامدا ومصلیا ً

 جنازے میں شرکت  کرنا  فی نفسہ  فرض کفایہ ہے  لیکن فاتحہ  کے لیے اجتماعی  طور پر ترتیب بنانا یا اس کا التزام  کرنا یا اس کو ضروری  سمجھنا درست  نہیں ، بالخصوص مروجہ اجتماعی  فاتحہ  خوانی  متعدد  مفاسد پر مشتمل  ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور اس کا  بہترین  طریقہ  یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی سہولت  اورا ستطاعت  کے مطابق  جب چاہے  اپنے مقام   پر رہتے ہوئے جتنا قرآن  پاک کی تلاوت  کرسکے  ، تلاوت کرکےاس کا ثواب میت کی روح کو بخش دے اور اگر فاتحہ  سے مراد  تعزیت  ہے توا س کے متعلق  سابقہ فتویٰ میں جوحکم بتلایا گیا ہے وہی اصل  حکم شرعی  ہے اسی پر عمل  کیاجائے  اور اجتماعی نظام  کے بجائے  انفرادی  طور پر انتظام  کرنا چاہیے۔سوال میں جو وقف کا طریقہ  ذکر کیاگیا ہے اس  میں بھی  خرابی  موجود ہے  اس لیے  کہ وقف  کو بعینہ  محفوظ  رکھنا لازم  ہے۔مذکورہ طریقہ  میں وقف   کردہ پیسوں کو خرچ کیاجاتا ہےاور وقف  کی رقم کو ختم کرنا جائز نہیں ۔  

تاہم اگر جنازے میں شرکت  کے لیے آسانی  اور سہولت  کے خاطر  صرف جائز انتظام  کیاجائے تو ایسی صورت میں مندرجہ ذیل  شرائط کو ملحوظ  رکھتے ہوئے  وقف   شدہ  چندے کا انتظام  بنایاجاسکتا ہے ۔

  • جو حضرات  اور ملازمین  اس نظام  بنانے کے  خواہش مند ہیں وہ شروع میں متعین  رقم باقاعدہ  وقف کردیں  ،ا ورا س رقم   کو خرچ نہ کیاجائے بلکہ ہمیشہ  باقی رکھاجائے کیونکہ وقف شدہ  چیز یا رقم کو محفوظ  رکھنا لازم  ہے ۔
  • متعین رقم وقف  ہوجانے کے بعد ملازمین  جو چند ہ دیں  وہ وقف نہ کیاجائے ،بلکہ اسے وقف کی ملکیت قرار دیاجائے  یعنی وہ مملوک  وقف ہوگا  جو وقف  کی شرائط  کے مطابق  خرچ ہوگا ۔
  • جو رقم  یا چیز  وقف  کردی جائے  وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت  ہوگی  ، کوئی اور اس کا مالک  نہیں ہوگا  ، یعنی  نہ ملازمین  اس کے مالک ہوں گے ،ا ور نہ کوئی اور۔
  • جو حضرات ا س نظام  بنانے کے خواہش مند  ہیں وہ باہم  مشورے  سے چندے  کی اتنی مقدار طے کرلیں  ، وسعت  سے زیادہ نہ ہو اور چند ہ لینے  میں کوئی زبردستی  نہ ہو ، البتہ  اگر کوئی  اپنےطور پر  زیادہ  دینا چاہے  تو وہ  دے سکتا ہے ۔
  • مذکورہ رقم وقف  کو دینے   کے بعد  چندہ دہندگان  کی ملکیت  میں نہیں  رہتی  بلکہ وقف  کی ملکیت  ہوگی  ،ا س لیے  ا س پر زکوٰۃ لازم  نہیں ہوگی  ( نہ مالکان   پرا ورنہ اجتماعی  چندہ پر ) اسی طرح   میراث بھی جاری  نہیں وگی  ۔
  • اور وقف کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسے انتہا  کسی ایسی  مد متعین  کی جائے  جو  ہمیشہ  باقی رہنے والی  ہو، مثلا فقراء  مساکین ، لہذا وقف  کرتے وقت صراحت کردیں  کہ جب یہ نظام  ختم کرنا ہوتو اس میں موجود  وقف  اور وقف  کی ملکیت  کو کسی اور  ایسے  وقف  یعنی  مسجد  اور مدرسہ و غیرہ  میں صرف کردیاجائے  جو باقی  رہنے والا ہو۔
  • وقف کی حفاظت اور نگرانی  کے لیے متولی ہونا  بھی ضروری  ہےا ور متولی اگر نیک  صالح،امانت دار ، دیانت دار  ، عاقل  ،بالغ  اورا س میں وقف  کو چلانے  کی اہلیت  بھی موجود  ہوتو وہ  بہتر ہے ۔
  • مذکورہ نظام بناتے وقت مستند  دارالافتاء  یا کسی دیندار اور محتاط  عالم دین  سے مشاورت اور موقع  بموقع رہنمائی حاصل   کرنا ضروری  ہے تاکہ وقف  کے غلط استعمال یا وقف کو ضائع ہونے سے محفوظ  رکھاجاسکے ۔

مذکورہ    بالا شرائط کی پابندے کرتے ہوئے  وقف شدہ چیز  کا نظام  بنانا  ممنوع نہیں ہے  ۔ لیکن  عموماً چونکہ  شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا  لہذا مستقل اجتماعی  ترتیب  بنانے کے بجائے  جنازے  کے موقع پر اگر کچھ افراد جمع ہوکر اسی وقت وقتی  اور عارضی  طور پر جمع اور خرچ کا اتتظام  کرلیں   تو یہ بہتر  ہے ۔

محمد افنان عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی  

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/524742161228367/

اپنا تبصرہ بھیجیں