فرقہ واریت اور مسلکی نسبت

ہمیں  تاریخی و روایتی مسالک سے خود کو لاتعلق نہیں کرنا کیونکہ برصغیر میں یہی روایتی اسلام کا تعارف ہیں۔ انہیں رد کرنے کے بعد ذات کی شناخت کے حوالے کی بنیاد یا تو جدید اسلام کے ورژن ہوتے ہیں اور یا پھر مارکیٹ سے نکلی ھوئی شناختیں (مثلا Quaidian، NUSTIAN یا کسی کمپنی کا ورکر وغیرہ) اور ظاہر ہے ان شناختوں کا روایتی اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ انسان ایک تاریخی وجود ہے اور ایک تاریخ سے نکلی ہوئی شناختوں سے برات کا مطلب انسان کو ایک تاریخ سے کاٹ کر کسی دوسری تاریخ میں سمونے کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا

مسلک سے براءت نہیں مسلک کی اصلاح

اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسلکوں سے بیزار آ چکی ہے اور اس کی وجہ مسلکوں کا باہمی تعصب اور منافرت ہے۔ مجھے دعوت اور تبلیغ کے کام کے دوران بہت سے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سب مسلکوں سے نکل جائیں انہوں نے ہمارا بیڑۃ غرق کر دیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر پورے اخلاص کے ساتھ غور کیا ہے اور اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ مسئلے کا حل مسلکوں سے براءت نہیں ان کی اصلاح ہے کہ یہ تعصب کی بنیاد پر کھڑے ہیں اور آپ ان سے محبت کا اظہار کر کے تو اس تعصب کو کم کر سکتے ہیں لیکن ان سے لاتعلقی کا اعلان کر کے اسے مزید ہوا ہی دے سکتے ہیں۔

اب مسلکوں کی اصلاح کے لوگوں نے دو مطلب سمجھے اور دونوں غلط سمجھے کہ وہ دونوں ہی مسلک پرستی تھے۔ ایک مطلب یہ نکالا گیا کہ سب مسلکوں سے اعلان براءت کرو اور اپنے آپ کو مسلمان کہو اور بعد میں “جماعت السملمین” بن جاو یعنی سب مسلک غلط اور ٹھیک صرف تم ہو۔ اور دوسرا یہ کہ مسلکوں کی اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دوسرے کے مسلک کی اصلاح کرنی ہے نہ کہ اپنی۔

اپنے مسلک کی اصلاح چھوڑ کر دوسرے کے مسلک کی اصلاح کرنا اتنا ہی لغو ہے جتنا اپنی ذاتی اصلاح چھوڑ کر دوسروں کی اصلاح کی فکر کرنا۔

مسلکوں کی اصلاح کا جو مفہوم مجھے سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ آپ کسی نے کسی مسلک سے منسلک رہیں اس سے نسبت رکھیں اسے اپنا سمجھیں لیکن تقلیدی جمود کا شکار نہ ہوں آنکھیں بند نہ کر لیں دوسرے مسلک کی اصلاح پر اگر اسی فی صد وقت لگاتے ہیں تو بیس فی صد اپنے مسلک کی اصلاح پر لگائیں۔ اور یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کو اپنے مسلک میں کوئی اچھائی نظر ہی نہ آئے اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ آپ غلط جگہ آ گئے ہیں دوسری جگہ چلے جائیں کہ جن سے آپ کو اتفاق زیادہ ہے۔

اپنے مسلک کو اپنا فرقہ نہ بنائیں بلکہ اس سے صرف نسبت رکھیں، فکری نسبت، بس۔ اور مسلک کو فرقہ بنانا یہ ہے کہ آپ نے ساری زندگی دوسرے کی مسلک کی اصلاح میں گزار دی اور اپنے مسلک کی اصلاح کے لیے کچھ نہ کیا۔ ہم ایک دوسرے کی اصلاح میں بری طرح ناکام ہو چکے، ہماری نمازیں حالت احسان میں ہوتی ہیں لیکن ہمارے قلم، فریق مخالف کا خون ٹپکا رہے ہوتے ہیں اور ہم اسے جہاد سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ آج ہمیں احسان والی نماز نہیں، احسان والا قلم چاہیے کہ جو دوسروں کے بارے لکھتے ہوئے اللہ کی جناب میں موجود ہونے کے تصور سے لرز اٹھتا ہو۔

ہم کس قدر دینی اور اخلاقی بحران کا شکار ہیں، ہمیں ہر وہ شخص معتدل نظر آتا ہے جو اپنے مسلک پر نقد کرے اور ہم اسے لائک بھی خوب کریں گے، شیئر بھی کریں گے لیکن اپنے مسلک پر نقد کر کے خود ویسا معتدل بننا پسند نہیں کریں گے کہ ہم نے تنہائی میں مصلے پر بیٹھ کر اپنے غلط ہونے پر رب سے مکالمہ ہی نہیں کیا۔ یا اگر اپنے مسلک کو غلط سمجھا بھی ہے تو نقد اس لیے نہ کی کہ دوسرے مسلک سے ریسلنگ جو ہو رہی ہے، وہ ہار جائیں گے حالانکہ یہی ہار، آخرت میں ہماری جیت کی علامت ہے۔ بس، مسلک کی اصلاح اسی وقت ہو سکتی ہے، جب وہ حالت احسان میں آ جائے۔ اور آج بد قسمتی سے کوئی حالت احسان میں نظر نہیں آتا، نہ سلفی نہ صوفی، میں آپ کی نماز نہیں آپ کا قلم دیکھ کر یہ بات کر رہا ہوں۔

ہم زبیر .

اپنا تبصرہ بھیجیں