فاریکس ٹریڈنگ

مولانا نعمان خالد دارالافتاء برائے تجارتی و مالیاتی امور

کوئی وقت تھا کہ لوگ سادہ طریقے پر تجارت کرتے تھے، جس کا پیمانہ اور دائرہ کار انتہائی محدود اور مختصر ہوتا تھا، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات میں ترقی ہونے لگی۔ تجارتی میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ اجتماعی تجارت کی صورتیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ بڑے پیمانے پر تجارتی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ تجارتی سرگرمیوں کو پھیلانے کے لیے ایک نیا مالیاتی نظام وجود میں آ گیا اور نئے نئے تمویلی طریقےFinancial‘‘ Modes ‘‘ ایجاد ہونے لگے۔

آج کل تجارتی میدان میں نفع کے حصول کے اتنے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں کہ عام لوگوں کے لیے یہ جاننا مشکل ہو گیا ہے کہ شرعاً کون سا طریقۂ تجارت جائز اور کون سا نا جائز ہے؟ ان میں انٹرنیٹ پر ہونے والے انٹرنیشنل تجارتی طریقے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان ہی میں سے ایک طریقہ ’’فاریکس ٹریڈنگ‘‘ بھی ہے۔ فاریکس ٹریڈنگ سونا، چاندی اور کرنسی کی آن لائن تجارت کو کہتے ہیں۔ تجارت کا یہ طریقۂ کار آج کل بہت رواج پا چکا ہے۔ 

ہزاروں لوگ انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوئے لاکھوں روپے کماتے ہیں، اس کاروبار میں محنت بھی کم صرف ہوتی ہے اور رقم تو نہ ہونے کے برابر خرچ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کاروبارمعمولی رقم، کم محنت اور زیادہ نفع کی وجہ سے لوگوں میں بہت عام اور شہرت پا رہا ہے۔ 

کاروبار کا طریقئہ کار فاریکس ٹریڈنگ کا طریقئہ کار جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فاریکس ٹریڈنگ میں آدمی بلا واسطہ خود خریداری نہیں کر سکتا، بلکہ کمپنی (بروکر) کا واسطہ ضروری ہے، لہذا اس کاروبار میں خرید و فروخت کے تمام مراحل بروکر کمپنی کے واسطے سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ یہ کمپنی، بروکر کا کام انجام دیتی ہے اور ہر خرید و فروخت پر 50 یا 60 ڈالر کمیشن لیتی ہے۔ خریدار کو خواہ نفع ہو یا نقصان، کمپنی کے طے شدہ کمیشن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نیز اس کاروبار میں صرف 10 فیصد رقم بروکر کمپنی کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، باقی 90 فیصد قیمت ادا کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی بروکر کمپنی کی طرف سے اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے، مثلاً: ایک شخص 10 ہزار ڈالر بروکر کمپنی کو جمع کروا کر اپنا اکاؤنٹ اس کمپنی کے پاس کھول لیتا ہے تو اس کو ایک لاکھ ڈالر کی خریداری کی اجازت ہو گی، اسی طرح آدمی 20 ہزار ڈالر جمع کروانے کی صورت میں 2 لاکھ ڈالر کی خریداری کر سکتا ہے۔ 

کاروبار کا طریقۂ کار یہ ہے کہ آدمی فاریکس اسکیم کا رکن بن جاتا ہے۔ کمپنی 10 ہزار میں سے 2 ہزار ڈالر اپنے پاس بطور بیعانہ رکھ لیتی ہے، تاکہ اگر بالفرض خرید و فروخت میں نقصان ہونے لگے تو اس میں سے پورا کیا جا سکے۔ رکن بننے کے بعد کمپنی والے اس کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کس وقت کون سی چیز خریدنا زیادہ مناسب اور نفع بخش ہے۔ اس کاروبار میں خرید و فروخت کی جانے والی ہر شے کی خریداری کی کم سے کم مقدار مقرر ہوتی ہے جس کو فاریکس ٹریڈنگ کی اصطلاح میں ’’لاٹ‘‘(Lot) کہتے ہیں۔ فروخت ہونے والی اجناس میں عام طور پر کپاس، چینی اور گندم، جبکہ زر میں سونا اور چاندی شامل ہیں۔ سونے کی ایک لاٹ 100 اونس اور چاندی کی ایک لاٹ 1000 اونس پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک لاٹ کی قیمت ،مثلاً: 10 ہزار ڈالر ہوتی ہے۔ جب کوئی آدمی ایک لاٹ خریدنا چاہتا ہے تو وہ کمپنی سے رابطہ کرتا ہے، اس کے آرڈر پر کمپنی اس کے لیے ایک لاٹ خرید لیتی ہے اور اس کی اطلاع خریدار کو دے دی جاتی ہے۔زر کا تحقیقی مطالعہ

اس کے بعد جیسے ہی خریدی گئی جنس کی قیمت بڑھنے لگتی ہے، کمپنی خریدار کو اطلاع دیتی ہے اور خریدار اپنی مرضی کے مطابق کمپنی کو اس چیز کے بیچنے کا آرڈر دے دیتا ہے۔ جب کمپنی خریدار کے آرڈر پر لاٹ فروخت کرتی ہے تو حاصل شدہ نفع میں سے اپنا کمیشن کاٹ لیتی ہے، بقیہ نفع فروخت کنندہ کے اکاؤنٹ میں چلا جاتا ہے۔ اور اگر خریدی گئی جنس کی قیمت کم ہونے لگے تو بھی کمپنی خریدار کو اطلاع کرتی ہے، تا کہ زیادہ خسارے (Loss) سے بچنے کے لیے خطرناک حد تک قیمت کم ہونے سے پہلے لاٹ فروخت کر دی جائے۔ نیز اس کاروبار میں خریدی گئی چیز کو خریدار اپنے شہر میں بھی منگوا سکتا ہے، لیکن سفری اخراجات اور ٹیکس وغیرہ کی بنا پر خریدار اسی مارکیٹ میں وہ چیز اسی دن یا چند دنوں بعد فروخت کر دیتا ہے۔ 

یہ کاروبار مکمل طور سے انٹر نیٹ پر گھر بیٹھے ہوتا ہے، اس میں حسی طور پر خریدار کسی جنس پر اور فروخت کنندہ کسی کرنسی پر قبضہ نہیں کرتا، بلکہ اسکرین پر اس کے اکاؤنٹ میں صرف یہ Show کیا جاتا ہے کہ فلاں آدمی ایک لاٹ وغیرہ کا مالک بن گیا۔ دوسری طرف فروخت کنندہ کے اکاؤنٹ میں صرف رقم کی منتقلی شو کی جاتی ہے اور آخر میں نفع اور نقصان کا فرق برابر کر لیا جاتا ہے۔ 

حکم 

فاریکس ٹریڈنگ درج ذیل وجوہ کی بناء پر شرعاً ناجائز ہے:

1 مروجہ فاریکس ٹریڈنگ میں بیشتر خرید و فروخت نقد کے بجائے مارجن پر ہوتی ہے، یعنی اس میں جب کوئی شخص بروکر کمپنی کے پاس اپنا اکاؤنٹ کھلوا لیتا ہے تو بروکر کمپنی کی طرف سے اس کو یہ سہولت دی جاتی ہے کہ وہ اس مارکیٹ سے کوئی بھی چیز یا کرنسی وغیرہ خریدنے پر اس کا فقط 10 فیصد ادا کر کے کاروبار کر سکتا ہے (جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے)۔ اس طرح آدمی بروکر کمپنی کو کچھ رقم ادا کرنے کے بعد بغیر کسی چیز کی حقیقی خرید و فروخت کے کروڑوں کا کاروبار کر سکتا ہے اور اس طرح مارجن پر خرید و فروخت کرنا جائز نہیں۔ 

2 حقیقی خرید و فروخت نہ ہونے کی بنا پر اکثر صورتوں میں ’’بیع الدین بالدین‘‘ (ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ) ہوتی ہے۔

3اسکرین پر محض اعداد و شمار کے بڑھنے اور گھٹنے کو نفع اور نقصان شمار کیا جاتا ہے، حسی طور پر کسی چیز پر قبضہ نہیں ہوتا، اس طرح یہ معاملہ سٹہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ 

4 فاریکس میں حقیقی روپوں پر بھی معاملہ کیا گیا ہو تو بھی فوراً بیچنے کی صورت میں ’’بیع قبل القبض‘‘ (قبضہ سے پہلے بیچنا) ہے، جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔ 

5 اس کے علاوہ فاریکس کے کاروبار میں Forward اور Option کے سودے بھی ہوتے ہیں جو نا جائز ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں