غامدی سکول آف تھاٹ

جاوید احمد غٓامدی صاحب کے بارے میں میری رائے زیادہ منفی نہیں۔ ہمارے ہاں ایک پورا حلقہ ان کا شدید نقاد ہے انہیں گمراہ اور معلوم نہیں کیا کیا کہتا ہے ان میں دینی مدارس کے طلبہ بھی ہیں اور روایتی دینی نقطہ نظر رکھنے والے کچھ اور لوگ بھی۔ جاوید غامدی صاحب کی بعض آرا سے ہمیں بھی شدید اختلاف ہے  بعض سے زیادہ  بعض سے کچھ کم۔ تصوف کے بارے میں ان کا نقطہ نظر مجھے سو فیصد غلط اور شدت کا شکار لگتا ہے۔ اکثر یوں لگا جیسے وہ کسی ردعمل کا شکار ہیں۔ ان کا تصوف کے بارے میں لکھی تحریریں میں نے پڑھی ہیں اوید غامدی صاحب کے بعض اور تفردات سے بھی ہمیں اتفاق نہیں اور اپنی طالب علمانہ سوچ کے مطابق ان سے اختلاف کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بدگمانی بھی ہوتی ہے کہ وہ بعض امور پر دانستہ منفرد رائے اپناتے ہیں شائد خود کو دوسروں سے ممیز کرنا مقصد ہو دوبارہ عرض کر دوں کہ یہ محض گمان ہے بدگمانی سمجھ لیجئے۔ ایک اور بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ غامدی صاحب کی رائے اتنی زیادہ تبدیل ہوتی رہتی ہے کہ میں اگر غلطی سے ان کے تلامذہ میں ہوتا تو اس ڈر کے مارے کسی رائے کا اظہار نہ کرتا کہ کہیں دو چار ماہ بعد پھر استاد محترم کی رائے بدل نہ جائے۔ اشراق کی پرانی فائلیں میں نے ذوق شوق سے خریدیں تھیں  اشراق میں غامدی صاحب کی بہت سی آرا اب یکسر بدل چکی ہیں۔ اور ایک سو اسی کے زاویے کی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے اگر اسلامی ریاست کے حامی تھے تو اب سرے سے ریاست کے غیر مذہبی ہونے کے قائل ہیں  وغیرہ وغیرہ۔
غامدی صاحب میں خوبیاں بھی کئی ہیں۔ نہایت شائستہ انسان ہیں۔ بڑی متانت سے بات کرتے اور تحمل سے تنقید سن لیتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال، بول چال، گفتگو، طور طریقے سب ایک نہایت حلیم، شائستہ اور عالمانہ مزاج رکھنے والے انسان کے ہیں۔ ان کے صاحب علم ہونے کے حوالے سے بھی کوئی شک نہیں۔ ٹی وی پر بولنے کے لئے جو خصوصیات درکار ہوتی ہیں، غامدی صاحب میں سب ہیں، مختصر، جامع جواب دینا، ون لائنر میں بحث سمیٹ دینا  تحمل سے سوال سننا اور پھر عمدگی سے اسے نمٹا دینا وغیرہ وغیرہ۔
غامدی سکول آف تھاٹ کے لوگوں میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے الگ نہیں کرتے اور ایک الگ فرقہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ اگرچہ غامدی صاحب کے میڈیا پر اوور ایکسپوژر اور ہر متنازع معاملے میں رائے دینے کی عادت نے انہیں خاصا متنازع بنا دیا ہے اور ایک خاصے بڑے دینی حلقے کے لئے وہ قابل قبول نہیں رہے ۔ چاہتے، نہ چاہتے ہوئے غٓامدی سکول آٖف تھاٹ ایک فرقہ کی سی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ مجھے خدشہ ہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر ایک بڑا شکوہ یہ ہے کہ غٓامدی سکول آٖف تھاٹ بہت سے ان ایشوز میں ویسی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرتا، جو عام مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ پاکستانی تناظر میں بات کروں تو قادیانیوں کے حوالے سے غٓامدی صاحب  ان کے تلامذہ اور فکری ہمنوائوں کا موقف کبھی سخت نہیں رہا۔ یوں لگا جیسے یہ سکول آٖف تھاٹ ہمیشہ قادیانیوں کو کسی حد تک قبول کرنے کی طرف مائل رہا ہے۔ اس کی اپنی وجوہات اور دلائل ہوں گے، مگر ایک عام مسلمان، دینی طبقےمیں اور اسلامسٹوں یا سیاسی اصطلاح مین رائٹسٹوں میں جس طرح قادیانی ایشو پر حساسیت، جوش اورایک ایسی کیفیت پائی جاتی ہے، جس کا ترجمہ صرف جوش ایمانی یا مومنانہ غیرت کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات مجھے غامدی سکول آف تھاٹ میں نظر نہیں آتی۔ غامدی صاحب کی ایک زمانے میں رائے تھی کہ قادیانیوں کے خلاف ترمیم سے ان کے حوالے سے دعوت وتعلیم کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے ۔ اب معلوم نہیں ان کی منضبط رائے کیا ہے، مگر اس سکول آٖف تھاٹ کے لوگ قادیانی ایشو میں کبھی سرگرم نظر نہیں آئے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ قادیانی ایشو کسی اور مذہب یا کمیونٹی کا معاملہ ہے ۔ اسی طرح اسلامی ریاست کے معاملے میں ان کا موقف سیکولرسٹوں کے قریب ہے۔ ویسے بھی میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ آخری تجزیے میں غٓامدی تھاٹس سکولر کیمپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غٓامدی صاحب کے متبادل بیانیے والے سیریز پر ہر روایتی دینی طبقے سے لے کر معتدل دینی فکر تک ہر ایک نے تنقید کی، کسی نےے ایک لفظ بھی نہیں لکھا تو وہ صرف سیکولر تھے۔ جو فکر انہیں تقویت پہنچائے اس پر وہ برہم کیسے ہوں گے ؟
اب حمزہ عباسی والے معاملے میں بھی غامدی صاحب کے اکثر تلامذہ کا رویہ ضرورت سے زیادہ غیر جذباتی ریا۔ بعض تو سرے سے غیر متعلق نظر آئے۔ گویا قادیانی فتنہ دوبارہ سے جاگ جائے تو انہیں کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اب حمزہ عباسی کا پروگرام بند ہونے پر دینی حلقوں میں ہر طرف خوشی نظر آ رہی ہے  جبکہ غامدی سکول آف تھاٹ کے بعض دوست یہ کمنٹس کرتے پائے گئے ہیں کہ یہ خواہ مخواہ ردعمل پیش کیا گیا  اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، بلکہ اس بہانے عوام کو قادیانیت سے آگاہ کیا جاتا  وغیرہ وغیرہ۔ اس رویے سے مجھے دکھ ہوا۔ میں ذاتی طور پر ہرگز جاوید غٓامدی صاحب یا ان کے تلامذہ مین سے کسی پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتا۔ نہ ہی انہیں کوئی طعنہ دینا چاہتا ہوں۔ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ ایسی عقل اور ٹھنڈے دل ودماغ کا کیا فائدہ جو آپ کے ایمانی جذبات ہی کو کھا جائے اور صرف ایک منطقی مشین ہی بنا دے۔

ایسی ہی ایک پوسٹ پر میں نے کمنٹس دئیے وہ بھی شیئر کرنا چاہوں گا۔
’’حمزہ عباسی بھی موجود ہے اور دوسرے سب بھی ادھر ہی ہیں۔ قادیانیت پر اپنے سوالات کے اب وہ جواب لے لے، یہ کون سا مشکل کام ہے، ڈاکٹر خالد ظہیر سے تو اسے جواب نہیں ملا، مگر اہل علم کی کمی نہیں ہے۔ دوسرا اس ایشو نے بہت سے لوگوں کو قادیانیت کے بارے میں مطالعہ کرنے، اسے سمجھنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ آپ کے استدلال کے مطابق تو پھر ہر دوسرے چینل پر اسی طرح کے اور سوالات پوچھے جانے چاہئیں، جس میں نعوز باللہ بنی آخر الزمان کی ختم نبوت پر سوال ہو، کسی میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر بات ہو، کہیں پر خدا کے وجود کے حوالے سے تشکیک کے سوالات ہو، کہیں پر الحاد کی پوری مہم شروع کر دی جائے کہ اس بہانے علما دین لوگوں کوالحاد کے مخالف دلائل سے باخبر کریں۔ کیا بات ہے جناب بہت متاثر ہوا ہوں اس دلیل سے ۔
’’غامدی سکول آف تھاٹ سے ہمیں یہی شکوہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی حساسیت میں ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ مسلم امہ کا حصہ نہیں، کسی اونچے سنگھاسن پر بیٹھے زعم تقویٰ کا شکار چند لوگ ہیں جن کا عام مسلمان سے کوئی جذباتی تعلق ہے نہ ہی کوئی اور جڑنے والا فیکٹر۔‘‘
’’میں نے سوچ سمجھ کر غامدی سکول آف تھاٹ کی ترکیب استعمال کی۔ ظاہر ہے اس کے ذمہ دار جاوید غامدی صاحب نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے تلامذہ اور فکری ہمنوا کئی حوالے سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔ ان کی حساسیت بعض امور پر ویسی نہیں جیسی کہ دوسرے پاکستانی مسلمانوں کی ہے۔ میں پاکستان کے تناظر میں بات کر رہا ہوں۔ ریاست کے سیکولر ہونے یا نہ ہونے کے معاملے میں بھی یہی معاملہ ہے۔ آخری تجزیے میں غامدی سکول سیکولرسٹوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ میری اس بات سے اختلاف کر سکتے ہیں، ممکن ہے ایسا نہ ہو، مگر میرا ذاتی تاثر یہی ہے۔

عامر خاکوانی

اپنا تبصرہ بھیجیں