غیر مسلموں کی قتل کی کاروائیاں

بہت عرصے سے اس موضوع پر لکھنا چاہتا تھا مگر ہر بار کسی عارض کی وجہ سے رک جاتا تھا تاہم آج ارادہ کر ہی لیا۔

اس سلسلےمیں عرض ہے کہ یہ محض میری فکر ہے جس تک میں پہنچا ہوں  ضروری نہیں کہ یہی مفتیٰ بہ فقہی حکم بھی ہو۔

اس زمانہ میں مسلمان عوام اور مسلم ریاستوں کے ساتھ کفر اور اہل کفر جو کچھ کررہا ہے اور جس طرح ان کے خون و مال کا اتلاف کررہا اس کے بیان کے لئے کسی تقریر یا دلیل کی ضرورت نہیں روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ظلم و ستم کی وجہ سے عامۃ المسلمین میں جو غم وغصہ پایا جاتا ہے وہ بھی قابل فہم ہے اور بالکل معقولی ہے۔اسی اظہار کی ایک شکل یہ بھی بن جاتی ہے کہ کسی جگہ کے مسلمان کئی سارے یا محض ایک اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا غصہ ان ظالم اقوام کی عام عوام پر نکالنا شروع کردیتے ہیں۔مگر شرعاً نہ صرف یہ کہ یہ درست نہیں بلکہ بسا اوقات یہ لوگ اپنے مادری ریاستوں کے لئے اقوام عالم میں شدید پریشانی کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ آج کی مسلم دنیا کے ممالک بھی تقریباً تمام ممالک کے ساتھ مختلف معاہدوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں وگرنہ کم از کم اقوام متحدہ کے رکن ہونے کی وجہ سے بھی بہت سارے معاملات میں باہم معاہد ہیں اور ان مختلف صورتوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر بسا اوقات ایک ریاست کسی معاملے میں اپنے ایک معاہدے کو پورا نہ بھی کررہی ہو تو دوسری میں عموماً درست چل رہی ہوتی ہے جب تک کہ خود وہ مسلم ریاست اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان نہ کرے کم از کم تب تک ان ریاستوں یا ان کے افراد کے لئے کوئی ایسی کاروائی کرنا کہ جس کی وجہ سے معاہد ریاست کی املاک یا افراد کو نقصان پہنچ سکے جائز نہیں ہوگی۔

تاہم اگر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تنظیم یا گروپ کسی اسلامی ریاست کی ذمہ داری سے نکل جاتا ہے اور اس کی نیشنلیٹی چھوڑ جاتاہے اور ایسی کسی تنظیم کے خلاف کوئی کافر ریاست کاروائی کرتی ہے تو چونکہ اب اس ریاست یا اس کے کسی فرد کا اس تنظیم کیساتھ معاہدہ نہیں بلکہ یہ ریاست اس تنظیم کے لئے حربی کی حیثیت رکھتی ہے تو اگر یہ تنظیم یا اس کے چند افراد اس دشمن ریاست کے عسکری اور معاشی پوائنٹس پر ضرب لگائیں تو وہ بہرحال جائز ٹھہریں گے۔

اور اس کی دلیل حضرت ابو جندل اور حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنھما کی جماعت ہے..چونکہ حضورﷺ کا قریش مکہ کیساتھ معاہدہ تھا، لہذا اس کی پابندی کرتے ہوئے آپ نے ابوبصیر رض کو ان کے حوالے کردیا اور جب وہ واپس چلےمی آئے  تو آپﷺ نے انہیں معاہدہ کی بناء پر رکھنے سے بھی انکار کردیا انہوں نے جاکر کچھ جمیعت اکھٹی کی اور قریش کے تجارتی قافلے لوٹنے شروع کردیے۔

اب یہاں پر جو چیز دیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس کام کو بظاہر پسند نہیں فرمایا فرمایا کہ اس کا ناس ہو یہ لڑائی بھڑکانے والا ہے مگر انہیں منع بھی نہیں کیا.

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر یہ اطمینان ہو کہ اس جماعت کی اپنے حربی دشمن سے لڑائی سے مسلم ریاست کے مسلمانوں پر “برا ” اثر نہیں پڑتا (برے اثر کی شرط اس وجہ سے لگائی کہ اگر ایسا ہوتا، تو حضورﷺ ضرور ان صحابہ رضی اللہ عنہم کو روکتے) تو ایسی کاروائیاں جائز ٹھہریں گی، جن سے دشمن کی عسکری یا معاشی قوت پر زد پڑے اور اسے زک اٹھانی پڑے..یعنی ہر ایسی کاروائی، جس سے دشمن کا حوصلہ کمزور ہوتا ہو۔

تاہم یہ سب اسی صورت جائز ہوگا، جب ان افراد اور تنظیموں کا کسی معاہد اسلامی ریاست سے بھی تعلق نہ رہے چاہے خود وہ ریاست اس کی نیشنلٹی منسوخ کردے یا وہ ہی اس قید سے باہر آنے کا اعلان کردے۔

دوسری شرط یہ کہ وہ کافر ریاست اس تنظیم کیساتھ دشمنی کرکے حربی بھی بن رہی ہو۔

اور تیسری شرط جس کا تعلق مصالح سے ہے کہ ان کے اس اقدام کی وجہ سے دنیا میں مسلمانوں پر برا اثر نہ پڑتا ہو۔

تب ان کے عسکری اور معاشی بنیادوں پر حملے درست سمجھے جائیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

علی عمران

اپنا تبصرہ بھیجیں