حیض کی عادت اگر تین دن سے کم کی ہو

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:85

السلام علیکم :گزارش عرض یہ ہے کہ مفتی صاحب ایام ماہواری  میں  میں صرف دودن  میں فارغ  ہوجاتی  ہوں  اور تیسرے  روز سے نماز شروع کردیتی ہوں  تو کیا مجھے ان دودونوں کی نمازیں قضاء کرنی پڑیں گی یا پھر  یہ دو دن حیض کہلائیں گے ۔

مہربانی فرماکر  اس مسئلہ  پر تفصیل سے  رہنمائی فرمائیں ۔

شکریہ

آپ کے استفتاء میں کچھ باتیں وضاحت  طلب  ہیں۔

1۔ دودن کی عادت ہے یا کبھی کبھی ہوتا ہے  ؟

2۔جس مہینے میں دو دن خون آیا ہے کیا اسی مہینے  میں کسی وقت  دوبارہ  صاف خون یا دوسرے رنگ  کا پانی وغیرہ آتا ہے ؟

3۔مستقل عادت کیاہے ؟

الجواب

1۔دوہی دن کی عادت ہے ۔

2۔صرف مہینے میں دود ن خون آتا ہے پھر اس  کے بعد  اگلے مہینے میں آتا  ۔

3۔ دو دن

 الجواب حامداومصلیا ً

واضح رہے کہ حنفیہ  کا مذہب تو یہ  ہی ہے کہ اگر کسی عورت کو تین دن سے کم خون آتا ہے  اوراس کے بعد پندرہ دن  تک  بالکل خون نہ آتاہو تو یہ تین   دن سے  کم خون حیض  شمار نہیں ہوگا، تاہم اگر کسی خاتون کی مستقل یہ عادت بن گئی ہو کہ اس کو مہینہ میں صرف دودن خون آتا ہو اورا س کے  بعد مہینہ کے  باقی  دنوں میں بالکل خون  نہ آتاہو تو ایسی صورت میں  صرف خاص اس خاتون کے لیے اس بات کی گنجائش معلوم ہوتی  ہے کہ وہ دو دن  آنے والے اپنے اس  خون  کو حیض شمار کرے ، جیسا کہ فقہ حنفی کی کتاب   ” النتف فی التفاویٰ ” میں صرف خاص ایسی  خاتون کے لیے  کہ جس کی  مستقل یہ عادت بن گئی ہو کہ اس کو ایک دن خون  آتا ہو اور اس کے بعد  دس دن یا اس سے زائد دنوں تک خون بالکل بند رہتا ہو۔ اس خون کو نادر حیض  فرمایا ہے  ، اور جیسا کہ امام  مالک، امام  شافعی  اور امام  احمد رحمہم اللہ کے مذاہب میں یہ خون حیض شمار  ہوتا ہے۔

 اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ فقہاء ومحدثین رحمہم اللہ کی عبارات  سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی کم سے کم مدت کی تحدید  کامدار تجربہ  اور خواتین  کی عادت پر ہے  اور یہ عادت خواتین طبیعت  اور علاقوں کی وجہ سے مختلف ہوسکتی  ہے  کئی حضرات علماء  وفقہاء  کے قول کے مطابق حیض  کی مدت کی تحدید میں جو فقہاء کرام  اللہ کا اختلاف  ہے وہ مختلف علاقوں  کی خواتین  کےعرف مختلف  ہونے کی وجہ سے  ہے۔ حضرت  علامہ یوسف  بنوری رحمہ اللہ اپنی کتاب  ” معارف السنن ” میں قاضی ابوبکر ( ابن  العربی)  ، علامہ  ابن رشد اور ابن قدامۃ الحنبلی  رحمہم اللہ کاکلام نقل  کرکے  فرماتے ہیں :

 نیز بیہقی  ،ا ور المغنی  لابن قدامۃ ، والمجوع  شرح المذہب  وغیرہ  میں ایسے  آثار منقول  ہیں جن میں ایسی خواتین  کا ذکر  ہے کہ جن کا حیض  ایک یا دو دن تھا۔

اس کے علاوہ  صحیح بخاری  میں حضرت فاطمہ بنت  ابی حبیش رضی اللہ عنھا کی روایت  ہے

اس حدیث کی شرح  اور ترجمۃ الباب سے مناسبت  میں شراح  حضرات نے یہ بات فرمائی  ہے کہ آپ  ﷺ نے یہاں حیض  کی مقدار بیان نہیں فرمائی بلکہ اس  کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ  کی دیانت اور عادت  پر چھوڑدیا کیونکہ ایام کی تعداد عورتوں کی عادت اورعلاقوں کے اعتبار  سے مختلف ہوتی  ہے ۔

فتح الباری اور عمدۃ القاری میں اس کی عبارت موجود ہے ۔

پھرا س مسئلہ میں یہ بات  بھی قابل غور ہے کہ اس میں فقہی مذاہب کی طرف سے جو نقلی  دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ صریح نہیں ہیں یا  ضعیف  ہیں ،ا لبتہ مختلف  اقوال  پر مشتمل  آثار ہیں  جن سے استدلال کیاگیاہے  چنانچہ  حضرت مولاناانور شاہ کشمیری  صاحب رحمہ اللہ علیہ ” العرف الشذی ” میں فرماتے ہیں : قال العلماء ۔۔۔الخ

رہی  یہ بات  کہ احناف  کی  طرف  اس مسئلہ میں جو مرفوع حدیث  دلیل میں پیش کی جاتی ہے  ۔ “اقل  الحیض  ثلاث ”  تو علامہ  زیلعی  رحمہ اللہ نے “نصب الرایۃ ” میں اس کے تمام  طرق کو ذکر فرما کر ان پر کلام  فرمایا ہے  ، محدثین  نےا س  کے تمام  طرق   کو ضعیف قرار دیاہے ۔ خود فقہاء احناف   نے بھی   ان احادیث   کے ضعف  کو تسلیم کیا ہے  ، حضرت شاہ  صاحب رحمہ اللہ کی اوپر س گزری  ہوئی عبارت  سے بھی معلوم  ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک  بھی یہ احادیث  پوری طرح قابل استدلال  نہیں ہیں ۔

لیکن محقق ابن الہمام اور علامہ عینی  رحمہم اللہ کا فرمانا یہ ہے کہ اگر چہ مذکورہ حدیث کے تمام طرق  ضعیف  ہیں تاہم ان سب کا مجموعہ   قابل استدلال  ہے  بالخصوص  جبکہ اس کی تائید بعض  آثار سے  ہوتی ہے  ۔ چنانچہ  علامہ عینی  رحمہ اللہ  نے اس کی تائید میں ” البنایہ ” میں کچھ ذکر   فرمائے ہیں جن میں سے  حضرت  انس رضی اللہ عنہ کا اثر بھی ہے جوکہ احناف کی اصل دلیل ہے  اور سنن دارمی میں مذکور ہے ۔

بہر حال ایسی حالت میں  جب کہ مسلم خاتون کو صرف  دو یوم ماہواری  کی  عادت مسلسل  ہوا ور ماہر اطباء  بھی اس کو حیض قرار دیتے ہوں تو ایسی    خاتون  کو الثف  کے جزئیہ  ،ا ئمہ ثلاثہ  کے مسلک  اورا وپر ذکر کردہ دلائل  کی بناء پر اس  خون کو حیض سمجھنا چاہیے ۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب

عبارات مذہب الحنفیہ ومالکیہ وحنابلہ  وشوافع   ( منسلک پی ڈی ایف فائل میں  ملاحظہ فرمائیں  )  

جواب درست ہے ۔ا ور حاصل  یہ ہے کہ عام  حالات  میں حنفیہ  کا یہ مسلک ہی راجح  ہے کہ حیض  کی ادنیٰ مقدار تین دن  ہے لیکن جس عورت کی زندگی   بھر یہ عادت  رہی ہو کہ ہر ماہ صرف دو دن ہی خون آتا ہو ۔و ہ ایک  نادر صورت ہے  ۔ا ور اس کا حکم عام خواتین  سے الگ ہے ۔

بندہ محمد تقی عثمانی صاحب

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

نوٹ : حضرت صدر صاحب  ( حضرت مولانا مفتی  محمد رفیع عثمانی صاحب )  زید مجدھم نے اس فتوی کو ملاحظہ  فرماتے ہوئے  یہ نکتہ  ارشاد فرمایا  کہ وہ احادیث  اور آثار   کہ جن میں حیض کی اقل مدت  اور  اکثر مدت کا ذکر ہے ان میں  بھی کئی احادیث  اورآثار ایسے ہیں  کہ ان میں  یہ بات تو  فرمائی گئی  ہے کہ اگر خون  دس دن  سے بڑھ جائے  تو وہ استحاضۃ  ہے لیکن  اگر 3 دن سے کم ہو  تو ا س  سے سکوت ہے  اس کے استحاضہ  ہونے کی صراحت  نہیں ہے  ۔

علامہ سفدی صاحب النتف کا علمی  درجہ اور مقام  )

 مذکورہ  فتویٰ  کی بنیاد چونکہ  النتف فی الفتاویٰ  کے جزئیہ  پر بھی  ہے لہذا  ذیل میں  صاحب  النتف کے مختصر حالات  ذکر  کیے جاتے ہیں  ۔

مصنف   کا مکمل نام  علی بن حسین بن محمد  السفدی ہے  ، شیخ الاسلام  لقب تھا   شمس الائمہ  سرخسی  ؒ  سے فقہ جا علم حاصل کیا اور الشرح الکبیر کےراوی  بھی ہیں  نئے پیش آنے والے مسائل    میں ان کی طرف رجوع کیاجاتا تھا  ۔

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/502863750082875/

اپنا تبصرہ بھیجیں