حج کی فرضیت کے باوجود نہ کرنے پر وعید

سوال : کیا فرماتے  ہیں علمائے دین اس شخص کے بارے میں طاقت مال اور  طاقت جان   کے ہتے ہوئے  حج کو مؤخر  کر کے  وہ رقم  دوسرے دینی  کاموں میں  خرچ کردے مثلاً :  حج اسلام کے بنیادی  رکنوں میں سے   ایک اہم ترین رکن ہے   اور اسلام کی تکمیل  اسی رکن حج  پر ہوتی ہے ۔ جیسے اللہ نے طاقت  دی ہو وہ اس گھر کا طواف کرے ۔ مگر تبلیغی جماعت   والے اللہ  کے راستے میں  کئی لاکھ   روپیہ لگا  کر دین  کی تبلیغ  کرتے ہیں۔ مگر حج   جو فرض   ہے وہ نہیں کرتے ان کا کہنا   ہے کہ اللہ کے راستے   میں ایک روپیہ خرچ کرنا ایسا ہے جیسے اننچاس کروڑ روپیہ خرچ  کردیا ہو اور ایک نماز پڑھنا  بھی اسی  نسبت  سے اننچاس کڑوڑ  نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے ۔ مگر حج   میں بیت اللہ   میں ایک نماز پر ایک لاکھ  نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے   وہ کہتے ہیں  کہ  تبلیغ  میں  وقت لگانے سے  ہمیں کئی حجوں  کا ثواب ملتا ہے  مگر وہ حج  کو اہمیت   نہیں دیتے   ۔ ہمارے  کئی ساتھی   بیرون ملک سفر  کر کے آئے ہیں  کئی ہزار بلکہ لاکھوں روپیہ لگاکر   تبلیغ کا سفر   کیا ہے   مگر جو حج   فرض تھا وہ نہیں کیا۔

(الف) کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے  ؟

(ب) کیا ان کے ذمہ سے حج کی فرضیت ساقط  ہوگئی ہے ۔ تبلیغ  کرنے کی وجہ سے

(ج)اگر حج  کی فرضیت ساقط   نہیں ہوئی   تو اب وہ کیا کرے  جبکہ اب ان کے پاس پیسہ نہیں رہا وہ  اب اس حج  فرض  کو کیسے ادا کریں۔

فتویٰ نمبر:78

جواب  : (الف)  دعوت وتبلیغ کا کام   موجودہ  زمانے میں  اصلاح امت  اور اسلام   کی نشر واشاعت  کا ایک کامیاب  راستہ ہے   ، بد قسمتی سے  ایسا مفید کام  چند  نادانوں  کے ذاتی افعال   کی وجہ سے  بدنام ہورہا ہے ۔ تبلیغی   اسفار کو فرض  حج سے  افضل سمجھنا اور اسے اہمیت  نہ دینا  کسی طرح  درست نہیں ۔ا یسا عقیدہ   رکھنا  نہایت خطرناک ہے ۔ جس شخص پر   حج فرض  ہوجائے  اس پر اسی  سال حج   کرنا الزم  ہوجاتا ہے ۔ بلا عذر  اس میں تاخیر  سخت گناہ ہے  ، حدیث  میں آتا ہے  :” جو شخص   سفر حج کی ضروریات کا مالک ہو، پھر  اس نے حج نہیں کیا تو وہ یا یہودی   ہو کر مرے  یا نصرانی  ہو کر ۔”  ( ترمذی شریف  :1/167)

 فی رد المختار  :”  وفی الفتح  :”  ویاتم  بالتاخیر  عن اول  سنی الامکان  “۔

 ( رد المختار  :2/156)

(ب)  تبلیغ  میں  جانے  اور وہاں  مال خرچ  ہوجانے  سے حج  کی فرضیت   ساقط  نہیں ہوتی ۔

فی کشف  الاسرار للبروزی :” اذاملک  الزاد  والراحۃ(، فلم  یحج  ھلک  المال ، لم یبطل  عنہ الحج  ۔”   ( کشف  الاسرار  :1/200)

(ج) اگر قرض  لے کر کسی  طرح  اس کی  واپسی کا  غالب گمان ہو تو انہیں اچہیے  کہ  قرض   لے کر حج  کو جائیں ، ایسی صورت میں  میں کہ جب  قرض واپس  کرنے  کا پورا عزم  تھا۔ خدانخواستہ  کوشش  کے باوجود  قرض  ادا نہ کرسکا اور اسی حالت  میں موت آگئی     تو ترکہ  سے یہ قرض  ادا  ہوسکتا  ہو تو کریں گے ۔ اگر ادا   نہ ہوسکتا ہو  تو اللہ تعالیٰ  اسے معاف فرمادیں گے۔ لیکن اگر  شروع  سے ہی  یہ غالب گمان ہو کہ قرض  کی واپسی  نہ ہوسکے گی  تو کسی  اور طرح  حج کی رقم   مہیا  کرنے کی کوشش  کرے  ۔ ایسی صورت  میں قرض   نہ لے ۔

فی رد المختار  :” ۔۔۔ان لم  یکن   عندہ  مال،واراد  ان یستفرض  لاداء الزکوۃ ، فان  فی اکبر  رایہ  انہ اذا اجتھد  بقضاء  دینہ  قدر ، کان  لافضل  ان یستفرض ، فان  استفرض ، وادی  وکلم یقدر  علی  قضائہ  حتی مات   یرجی   ان یقضیٰ  اللہ  تبارک وتعالیٰ  دینہ  فی الآخرۃ ۔ وان  کان اکبر  رایہ  انہ لو استقرض،لایقدر  علی  قضائہ ، کان  الافضل  لہ عدمہ ،اھ واذا کان  ھذا فی الزکوۃ  المتعلق بھا حق الفقراء ففی  الحج  الاولیٰ ۔” (رد المختار  :2/153)

اپنا تبصرہ بھیجیں